جب خوشحال خان خٹک خود شاہین بن گیا

پائندخان خروٹی

تمام پرندوں میں بلند پرواز پرندہ شاہین اپنے بچے کی پرورش سے لیکر اڑان بھرنے کے قابل بنانے تک ہر طرح سے اپنے ساتھ رکھتا ہے، گرمی اور سردی کی شدت سے بچاتا ہے اور کبھی کبھار وہ بچوں کے تحفظ کی خاطر سانپ سے بھی نبرد آزما ہو جاتا ہے لیکن جب اسی شاہین کا اپنا بچہ اڑان بھرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے تو شاہین اپنے ہی بچوں کو گھونسلے سے باہر نکال کر فضاء کے حوالے کر دیتا ہے۔ ویسے تو معروف پرندہ شاہین بھی اپنی پیدائش کے بعد صرف ایک عام پرندہ ہوتا ہے اور دیگر پرندوں کی طرح شروع میں اپنے گھونسلے کو ہی پوری دنیا سمجھتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ پہلے آشیانہ میں اور پھر متعلقہ درخت کی شاخوں پر اردگرد گھومنا پھرنا شروع کر دیتا ہے۔ بعدازاں اپنے پَر پوری میچور ہو جانے کے بعد جب اڑان بھرتا ہے تو وہ چھوٹے خول سے نکل کر پوری فضاء اسکی دنیا بن جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فکر کا ارتقاء بتدریج اور مختلف مراحل طے کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اپنے بچپن میں یا والدین کی روز اول سے یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ توانا ہو کر دنیا میں آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو۔ اس کی علاوہ ایک تخلیقی استاد بھی فارغ التحصیل شاگردوں کو آخر تک اپنے ساتھ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچے سے بےپناہ محبت کرنے کے باوجود اسے ہر طرح سے تیار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی خود اپنے بل بوتے پر آزاد طریقے پر گزار دیں۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے دوران ان کو خودکفالت، خوداعتمادی، خودانحصاری اور خودمختاری کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اپنے وجود کی طاقت اور حکمت سے روشناس کراتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ فکری رہنمائی فراہم کرنے اور اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے میں بہت فرق ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو تمام ناز و نخروں کے ساتھ پالنے کے بعد اسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا سکھائیں اور بھرپور زندگی گزارنے کا گُر سکھائیں تاکہ وہ خودمختار اور منفرد زندگی سے لطف اندوز ہوں کیونکہ ذہنی بلوغت کا تقاضا ہے ماں باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنے کے بعد ہر ذی فہم شخص کو خود بغیر کسی سہارا کے چلنا پڑے گا۔ خود تخلیقی رہنے اور اپنے شاگردوں کے اذہان کو تنقیدی اور تخلیقی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ وہ پل پل بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کریں۔ اپنے وقت و زمان کی سچائی کا خود ادراک کریں۔ اندھی تقلید، تکرار، اکتاہٹ، یکسانیت اور دیغت سے بچنے کیلئے آپ خود بھی اپنے دوستوں اور شاگردوں کی فہرست میں وقت کے ساتھ کمی و بیشی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ آپ بھی اپنی اولاد، شاگرد اور ہم فکر کو اپنی ذاتی پہچان بنانے میں فکری رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ رقم ہوتی ہوئی تاریخ میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔

یہ بات حیران کن لیکن حقیقت ہے کہ پشتو زبان کے معروف شاعر اور سیف و قلم کے مالک خوشحال خان خٹک کو دنیابھر یہ انفرادیت حاصل ہے کہ معروف پرندہ شاہین نہ صرف ان کا آئیڈیل تھا بلکہ وہ شاہین کو پالنے کا اعزاز بھی رکھتے تھے اور انہوں نے شاہین کی پرورش، نگہداشت اور نشوونما سے متعلق تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث بھی کی۔

میں خوشحال خان خٹک کی ممتاز کتاب بازنامہپر عنقریب ایک علیحدہ آرٹیکل لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں جو انہوں نے اطلاعات کے مطابق صرف ایک ہفتہ میں مکمل کی تھی۔ خوشحال خان خٹک شاہین کے منفرد اوصاف اور انسانی زندگی پر اس کے اطلاق کے اصولوں کے حوالے سے بہترین فکری رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے ایک شعر میں نوجوانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اونچی اڑان بھرنے والے شاہین کی پیروی کریں نہ کہ عام پرندہ کوا پر نظر رکھیں جو کسی بھی طرح سے محض پیٹ بھرنے کا ادنیٰ سا کام کو اپنی انتہاء جانتا ہے۔

سیف وقلم کے مالک خوشحال خان خٹک تصور کے مقابلے میں عمل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لیے وہ ایک جگہ شعر کی زبان میں کہتے ہیں کہ گفتار کے ساتھ ساتھ بلند کردار و وقار کا غازی بننے کی اشد ضرورت ہے۔ کم ہمت کو اپنے شجرہ نسب پر گھمنڈ ہوتا ہے جبکہ ایک باہمت انسان موروثیت کی بجائے اپنے عمل و کردار سے اپنی ذاتی پہچان بناتا ہے۔جیسے خود خوشحال خان خٹک نے زندگی بھر خودی اور خودداری کے اپنے وضع کردہ اصولوں پر عمل کر کے خود شاہین کی عظمت اختیار کر لی۔

Comments are closed.