جب ایوب خان کو سرخ چین سے تعلق توڑنے کو کہا گیا

بیرسٹر حمید باشانی

گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ ۶۵ کی جنگ میں چین کی دھمکی نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سترہ ستمبر 1965کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں اس ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج صبح چین کی حکومت کی طرف سے ہمیں یہ الٹی میٹم ملا ہے کہ ہم تین دن کے اندر اندر تبت میں چین کی طرف کی سرحد ی علاقے سے اپنی تنصیبات ہٹا لیں۔ چین کی طرف سے یہ سخت دھمکی ایک ایسے وقت میں آئی تھی ، جب بھارت ، پاکستان کے ساتھ غیر مشروط جنگ بندی پر رضامند ہو چکا تھا، اور اس سے ایک دن قبل سولہ ستمبر کو لال بہادر شاستری نے صدرلنڈن جانسن کے نام اپنے خط میں غیر مشروط جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔

 دوسری طرف سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی پیشکش کردی تھی، جس کو بھارت سنجیدگی سے قبول کرنے پر غور کر ہا تھا۔ اچانک چین کی طرف سے بھارت کو سخت دھمکی ، چین ک طرف سے ایک سخت قدم تھا، جس نے نا صرف بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ، بلکہ یہ وقت کی دو سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین کے لیے بھی ایک پریشان کن خبر بن کر سامنے آئی تھی۔

اگرچہ پاک بھارت جنگ کے حوالے سے چین کی پوزیشن واضح تھی، اور وہ کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا تھا، لیکن ابھی تک اس نے جارحانہ پوزیشن نہیں اختیار کی تھی۔ لیکن وہ اپنی پوزیشن کئی بار واضح کر چکا تھا۔ اس سے پہلے سات ستمبر ۱۹۶۵کو چین اپنے ایک سرکاری بیان کے ذریعے بھارت کو جارح قرار دے کر اس کی مذمت کر چکا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ چھ ستمبر کو چینی فوجوں نے اچانک بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس طرح ہندوستان نے کشمیر پر پاک بھارت مقامی تنازعے کو ایک عمومی تصادم کی شکل دے دی ہے۔

بھارت کی طرف سے یہ حملہ ایک ننگی جارحیت ہے۔یہ نہ صرف عالمی تعلقات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرناک ہے۔ چینی حکومت اس مجرمانہ حملے پر بھارت کی مذمت کرتی ہے، اور پاکستان کی حمایت کرتی ہے۔ چینی حکومت بھارت کو خبردار کرتی ہے کہ وہ اس جارحیت اور مجرمانہ حملے کے اثرات و نتائج سے نہیں بچ سکتا۔ بھارت نے بار ہا یہ وعدہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادی دے گا ، مگر آج تک اس وعدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اس کے بجائے اس نے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا، اور کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے۔ اس لیے یہ مناسب ہو گا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

  مسئلہ کشمیر اٹھارہ سال سے اقوام متحدہ میں ہے۔ مگر اقوام متحدہ نے اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیا ، اور کشمیریوں کو ان کا حق دلانے میں ناکام رہی۔ اب اس نے ثالثی کی پیش کش کی ۔ اس پیشکش کی بنیاد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ پر ہے، جو خود بے انصافی پر مبنی ہے۔ ایک بے انصافی پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر انصاف پر مبنی ثالثی کیسے ہو سکتی ہے۔ کشمیر کے سوال پر اقوام متحدہ ایک بار پھر ثابت کر چکی ہے کہ وہ امریکی سا مراج کی آلہ کار ہے، اور وہ پوری دنیا کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت اس کے حکمران اشرافیہ کی تنگ نظر قوم پرستانہ توسیع پسندی کی عکاس ہے۔

بھارتی حکومت کہتی ہے کہ وہ پر امن بقا باہمی پر یقین رکھتی ہے ، مگر وہ آئے دن اپنے ہمسائیوں کی زمین پر قابض ہونے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ بھارت کی حکمران اشرافیہ عالمی زندگی کے سب سے بڑے منافقین ہیں۔ بھارتی حکومت کوغالباً یہ گمان ہے کہ چونکہ ان کو امریکی سامراج، اور جدید ترمیم پسندوں یعنی سویت یونین کی حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ اپنے ہمسا یوں کو دبا سکتی ہے۔65کی جنگ کے دوران یہ کسی ملک کی طرف سے بھارت کے خلاف ایک سخت ترین بیان بلکہ چارج شیٹ تھی ۔

لیکن اس بیان کے بعد چین نے عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں کی تھی، مگر سترہ ستمبر کو انہوں نے بھارت کو تین دن کا نوٹس دے کر عالمی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ اس دھمکی کے بعد امریکی حلقے یہ باور کرنے لگے کہ چین کی یہ دھمکی ایوب خان کے جنگ بندی کے فیصلے پر اثر انداز ہو گی۔ وہ جنگ بندی سے انکار کر سکتے ہیں، اور اس طرح امریکیوں کے بقول ان کی جنگ بندی کے لیے دن رات کی کوششیں رائگاں جائیں گی۔ اس طرح سوویت یونین کے بعد چین ایک بہت بڑے فیکٹرکے طور پر اس تنازعے میں شامل ہو چکا تھا۔

امریکہ کا رد عمل بھی شدید اور فوری تھا۔ اسی دن یعنی اٹھارہ ستمبر کو شام ساڑھے چھ بجے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہنگامی طور پر ایک ٹیلی گرام پاکستان میں اپنے سفارت خا نہ کو ارسال کی۔ اس ٹیلی گرام میں سیکرٹیری آف سٹیٹ نے امریکی سفیر کو ہدایات دیتے ہوئے لکھا کہ آپ کو براہ راست اس موضوع پر ایوب خان سے بات نہیں کرنی چاہیے، اس کے بجائے آپ ذولفقار علی بھٹو ، وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے ایسے لوگوں کو جو ایوب خان تک ہماری بات پہنچا سکتے ہیں،اس صورت حال سے آگاہ کریں۔

چین کی دھمکی اور چینی افواج کی نقل و حرکت کی افواہیں ایوب خان کو ایک بڑی مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔ اگر وہ سیز فائر پر راضی ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے چینی کمیونسٹوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے، تو ایوب خان اپنی مغربی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے گے۔ یہ دھمکی نہیں ہے، بلکہ حقیقت ہے۔ اگر چینی کمیونسٹ مداخلت کرتے ہیں ، تو دنیا اس کا ذمہ دار ایوب خان کو ٹھہرائےگی ، جو سیز فائر قبول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

دوسری طرف چینی دھمکی ایوب خان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ سیز فائر سے انکار کی پوزیشن سے ہٹ جائیں۔ وہ یہ پوزیشن اختیار کر سکتے ہیں کہ چینی مداخلت کے خطرے کے پیش نظر پاک بھارت تصادم کا خاتمہ ضروری ہو گیا تھا۔ اس طرح کی پوزیشن سے ان کی فیس سیونگ ہو جاتی ہے۔ اور دنیا اسے ایک مد برا نہ فیصلہ تصور کرے گی۔۔ پاکستانی آپ سے لازمی طور پراس خواہش کا اظہار کریں گے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباو ڈالے۔ اور وہ اپنی امداد جاری رکھنے پر بھی ہم سے یقین دہانی چاہیں گے۔

آپ ان کو بتائیں کہ آپ کے پاس اس معاملے میں کوئی ہدایات نہیں ہیں، اور امریکہ اس سلسلے میں اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا، جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ ایوب خان چینی کمیونسٹوں کے ساتھ آزاد برصغیر کے مستقبل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر رہا ہے۔ آپ ان کو یہ بتائیں کہ صدر جانسن کے قریبی حلقوں نے آپ کو بتایا ہے کہ جوں ہی حالات نارمل ہوئے ان کی امداد بحال کر دی جائے گی۔ لیکن صدر جانسن کسی ایسے ملک کو برداشت نہیں کریں گے، جو سرخ چین کے ساتھ کوئی واسطہ رکھتا ہو۔

  انیس ستمبر کو چینیوں نے تین دن کی ڈیڈ لائن بڑھا کر بائیس ستمبر کر دی۔ اب چینی ڈید لائن اور سیکورٹی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کی ڈیڈ لائن کا ایک ہی دن تھا۔ یہ فیصلے کی گھڑی تھی۔ حالات سنسنی خیز رخ اختیار چکے تھے، جن کا احوال آیندہ بیان کیا جائے گا۔

Comments are closed.