جب بھٹو نے خالی ہاتھوں بھارت سے لڑنے کا اعلان کیا

بیرسٹرحمیدباشانی

 گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ چار ستمبر1965 کو امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات میں بھارت وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے یہ شرط رکھی تھی کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے کی صورت میں دنیا بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔ دوسری طرف پاکستان کا یہ سخت اصرار تھا کہ مسئلہ کشمیر پر بات کیے بغیر جنگ بندی کاتصور کرنا ہی نا ممکن ہے۔

جنگ کے آغاز سے لیکر جنگ بندی پر رضامند ہونے تک امریکی حکام سے ملاقات اور خط و کتابت میں ایوب خان اورذوالفقار علی بھٹو بار بار یہ اصرار کرتے رہے کہ امریکہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالے ۔ اور پاکستان کشمیر میں رائے شماری سے کم کوئی حل قبول نہیں کرے گا۔

جس دن ہندوستانی افواج پاکستان میں داخل ہوئیں، اسلام آباد میں امریکی سفیر والٹر پیٹرک میکانی نےصدر ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی۔دونوں نے اصرار کیا کہ وہ جنگ بندی سے پہلے امریکہ، اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔

راولپنڈی میں بھٹو کے ساتھ اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے میکانی نے اپنی ایک کیبل میں لکھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ بھارت کی جانب سے پنجاب میں محاذِ جنگ کھولنے کی وجہ سے پاکستانی افواج کے لیے جنگ سےدستبرداری پہلے سے ہی ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ پاکستان کی فوجی اور مالی امداد بند کرنے کے بارے میں سوچ کر کہ سخت غلطی کررہا ہے۔ ملک اپنے دفاع کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر ضروری ہوا تو لاٹھیوں، پتھروں اور خالی ہاتھوں سے لڑائی جاری رکھیں گے۔

 ذولفقار علی بھٹو نے اصرار کیا کہ حکومت پاکستان ان تجاویز کو قبول نہیں کرے گی، جس میں کشمیر سے ہندوستانی مسلح افواج کے انخلاء اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے استعمال کی یقین دہانی نہ ہو۔ اور امریکی کارروائی میں دباؤ شامل ہے، جسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ میکانی لکھتا ہے کہ میں نے بھٹو سے کہا آپ کا فیصلہ درست نہیں ہے کہ جب تک کشمیر کے بارے میں مکمل معاہدہ نہیں ہوجاتا،آپ جنگ بندی سے انکارکرتے رہیں گے۔ یہ سمجھنا سمجھداری نہیں ہے کہ عالمی مسائل کا یہ سب سے پیچیدہ مسئلہ، جو اٹھارہ سال سے جاری ہے، اس کو اب پاکستان کی طرف سے تجویز کردہ جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ منسلک کرکے طے کیا جاسکتا ہے۔

 لیکن ذوالفقار علی بھٹو اپنے موقف پر قائم رہے، اور انہوں نے کہا کہ پاکستانی اپنا تمام مال، یہاں تک کہ اپنے خاندانی ورثے تک فروخت کر دیں گے ، تاکہ بھارتی جارحیت کو پسپا کرنے اور کشمیریوں کے حقوق کے قیام تک جدوجہد جاری رکھنے کے ذرائع حاصل کیے جا سکیں۔

 نوستمبر کو ایک بار پھر امریکی سفیر نے غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز کے ساتھ بھٹو سے ملاقات کی۔ بھٹو نے تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جنگ بندی کی کسی بھی تجویز کو کشمیر میں رائے شماری سے جوڑا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کو مسئلہ کشمیر کے حتمی تصفیے کا حصہ بنانا چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان علاقہ خالی کریں، اقوام متحدہ کی انتظامیہ تقریباً چھ ماہ کے لیے امن و امان قائم کرے، مقررہ وقت کے اندر رائے شماری کرے۔ اس کے بغیر کوئی حل نہیں نکل سکتا ۔ میں نے بھٹو کو بتایا کہ بھارت اس سے اتفاق نہیں کر سکتا ، بھٹو نے جواب دیا، تو پھر وہ پاکستان کو تباہ کر دیں ۔بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے عوام کو تنہا فیصلہ کرنا ہے، اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے اظہار کے بغیر کوئی بھی حل مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ ہمیں یا تو بطور قوم ذلیل ہونا چاہیے یا غالب آنا چاہیے۔

 دوسری طرف شاستری کا یہ دوٹوک موقف تھا کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں ہو سکتی اور رائے شماری کا مطالبہ کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح پاکستان اور بھارت اپنے اپنے موقف پر قائم تھے، جن میں بہت بڑا فرق تھا، اور کوئی درمیانی صورت بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ دوسری طرف جب امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں کی فوجی اور مالی امداد بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تو صورت حال بدلنی شروع ہو گئی۔

  بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے امریکی صدر لنڈن جانسن کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے امریکی قیادت کو مطلع کیا کہ نئی دہلی غیر مشروط جنگ بندی پر راضی ہے۔ انہوں نے16 ستمبر 65 کے اپنے خط میں کشمیر میں استصواب رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی1948 کی قرارداد اب قابل قبول نہیں ہے۔

 امریکی صدر لنڈن جانسن کے نام اپنے خط میں لال بہادر شاستری نے لکھا، ’’میں واضح طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کا پتہ لگانے کے لیے رائے شماری کا مزید کوئی سوال نہیں ہوسکتا‘‘۔

اپنے خط میں شاستری نے وضاحت کی کہ کیوں ہندوستان 1948 میں کشمیر میں رائے شماری پر راضی ہوا تھا، اور یہ اب کوئی آپشن نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ جب 1947 میں ہم پہلی بار پاکستان کے خلاف جارحیت کی شکایت لے کر سلامتی کونسل میں گئے تو ہم نے ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا یکطرفہ وعدہ کیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ریاست کشمیر میں انگریزوں کے زمانے کے ایک مہاراجے کی حکومت تھی،جس کی وجہ سے وہاں جمہوریت نہیں تھی، اور ہم خود کو مطمئن کرنے کے لیے بے چین تھے کہ کیاریاست کے لوگ حکمران سے الگ، حقیقی طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حق میں تھے یا نہیں ؟

جب سے ریاست کا الحاق ہوا ہے، ہم جمہوری اداروں کی تعمیر کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد یہاں تین عام انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہندوستان میں اپنی جگہ کو قبول کر لیا ہے۔

انہوں نے لکھا، ’’میں واضح طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کا پتہ لگانے کے لیے کسی بھی رائے شماری کا مزید سوال نہیں ہو سکتا‘‘۔

اگر صدر ایوب کو لگتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر حملہ کر کے وہ ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی حصے پر قبضہ کرنے کے لیے ہم پر دباؤ ڈالیں گے، تو میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔ اگرچہ ہم امن سے محبت کرتے ہیں۔ ، مگر ہم اپنا علاقہ بیچ کر امن نہیں خریدیں گے،۔

بظاہر شاستری نے غیر مشروط جنگ بندی کی پیشکش کی تھی، مگر کشمیر میں رائے شماری سے انکار کی جو شرط انہوں نے رکھی، وہ ایک کڑی شرط تھی، اور اسی پر پاکستان کا پورا مقدمہ کھڑا تھا۔ آگے چل کر حالات نے جو رخ اختیار کیا، اس کا احوال پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔

Comments are closed.