سرد جنگ کی باتیں جو آج بھی جاری ہیں۔۔۔



محمد شعیب عادل

سرد جنگ کے دور میں لیفٹسٹوں نے سرمایہ دار ملکوں کے خلاف ایک اصطلاحسامراج کی وضع کی تھی ۔ مغرب کے تمام ممالک سامراجی قرار پائے اور ان کا سرغنہ امریکہ ، سب سے بڑا سامراج تھا( اور بدستور موجود ہے) جو دنیا کے ہر ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کہا گیا کہ ان ممالک میں عوام کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے اور غریبوں کا خون تک چوس لیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے سامراجی ملکوں کا رخ ہی کرتی رہی ہے۔

اگر کوئی لکھاری ، دانشور یا سیاسی کارکن ،ان ممالک کی تعریف کرتا یا دوستی کا دعوی کرتا تو اسے سامراج کے ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا اور ابھی بھی دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا غریب ملک، روس کی شہ پر ان سامراجی ممالک کو چیلنج کرتا تو وہ ہمارا ہیرو قرار پاتاتھا ۔ آج بھی یہی صورتحال ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سامراج کو چیلنج کرنے والے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سربراہ خود بدترین آمر ہوتے تھے۔ اسی لیے ایک انتہائی پسماندہ ملک کیوبا آج بھی ہمارا ہیرو ہے جہاں کے عوام پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے آمریت تلے پس رہے ہیں ۔

سامراجی ممالک اگر کسی غریب ملک کی مدد کرنے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ فراہم کرتے تو کہا جاتا کہ سامراج انہیں اپنے چنگل میں پھنسا رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کے لیفٹسٹ ملک کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار عالمی مالیاتی اداروں کو قرار دیتے ہیں ۔ درحقیقت لیفٹسٹوں نے یہ حقیقت منوا لی ہے کہ پاکستان کی تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار پہلے برطانوی لوٹ مار اور پھر امریکہ اور عالمی سامراجی ادارے ہیں ۔ اور اس بیانیے کو پاکستانی ریاست کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ آج کے دور کے پاکستان کے عظیم لیفٹسٹ رہنما تیمور رحمان اور عمار جان،سامراجی ممالک سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں لے کر پاکستان میں پرولتاری حکومت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں اورشمالی کوریا ، چین اور روس کے گن گاتے ہیں۔

دوسری طرف روس جہاں کمیونزم کے نام پر بدترین آمریت نافذ تھی یا ابھی بھی ہے ،کو ایک انسان دوست ملک کے طور پر پیش کیا جاتا تھا جو ہمیشہ غریبوں کی مدد کے لیے تیاررہتا ہے۔ روس یا چین کی جارحیت کو جارحیت نہیں بلکہ پرولتاریہ یعنی غریب اور مزدور کی دل کی آواز قرار دیا جاتا تھا اور دیا جاتا ہے ۔لیفٹسٹوں نے اس جارحیت کو جائز قراردینے کے لیے دنیا کے تمام مزدورو ایک ہوجاؤ کا نعرہ وضع کیا ۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا روس کے نظام پر تنقید کرتا ، وہاں موجود خرابیوں کا ذکر کرتایا وہاں جاری ریاستی ظلم و ستم پر بات کرتا تو اسے سامراجی ملکوں کا پراپیگنڈہ قرار دیا جاتا ۔اگر روس کسی ملک میں کمیونزم کے نام پر مقامی کمیونسٹ رہنماؤں کو نوازتا تو اسے پرولتاری نظام کی طرف ایک قدم قرار دیاجاتا تھا۔

کمیونسٹ پارٹی میں فیصلے کیسے ہوتے تھے اس کی ہلکی سی جھلک ممتاز صحافی احمد بشیر اور پھر اشفاق سلیم مرزا نے اپنی یاداشتوں میں بیان کی ہے۔

احمد بشیر لکھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی میٹنگ سے پہلے سب کے کانوں میں یہ بات ڈال دی جاتی تھی کہ بنے بھائی(سجاد ظہیر) نے یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمیں اس کی تائید کرنی ہے۔ اشفاق سلیم مرزا نے لکھا ہے کہ ایک بار کمیونسٹ پارٹی کی میٹنگ ہورہی تھی تو سٹیج سے ایک تجویز پیش ہوئی تو میں نے کھڑے ہو کر اس تجویز کے خلاف اپنے دلائل دیئے تو سٹیج سے آواز آئی، اشفاق تمھار ے لہجے سے بغاوت کی بو آرہی ہے۔ تو اشفا ق سلیم مرزا لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میں خوف کے مارے دبک کر بیٹھ گیا اور دوبارہ کسی تجویز پر تنقید کرنے کی جرات نہ ہوئی۔

نیا زمانہ کی ڈائری سے ایک اقتباس

Comments are closed.