یورپ میں مذہبی انتہا پسندی

خالد تھتھال۔ناروے

میں ایک آڑا ترچھا، نیم خواندہ، ، سوڈو ،انتہا پسند اور لنڈے کا لبرل ہوں۔میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے مغرب کو اسلامی ممالک میں ڈھلتے دیکھا ہے۔ وہ مغرب جہاں کبھی والٹیر کے پیروکاروں کے نزدیک آزادی اظہار ایک انتہائی مقدس اصول تھا، اب وہاں کوئی نیا سلمان رشدی شیطانی آیات لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، اور اگر کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی تو اُسے باقی ماندہ زندگی پولیس کی حفاظت میں گزارنا ہو گی۔ اب کوئی ولیم نیگور شیطانی آیات کا نارویجن ترجمہ کر کے قاتلانہ حملے کا رسک نہیں لیتا۔کیونکہ اب یورپ وہ نہیں رہا جو آج سے پچاس سال پہلے تھا۔ اب مذہبی رواداری، کثیر الثقافتی معاشرے کے نام پر بہت کچھ بدل چکا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میرے کالج کے زمانے میں جب انگلینڈ پلٹ لوگ پہلی بار واپس آئے تو ہم انھیں کس عقیدت سے دیکھتے تھے، اُن سے مغرب کے قصے سن کر ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے، کیونکہ ہر انگلینڈ پلٹ کی تان اسی فقرے پر ٹوٹتی تھی کہ گورے لوگ اگر کلمہ پڑھ لیں تو اُن سے اچھا مسلمان کوئی نہیں ہے۔ لیکن اب ان برطانیہ یا یورپ پلٹ لوگوں کے لیے اختیار کردہ معاشرے یا ممالک پہلی جیسی عقیدت کھو چکے ہیں۔ اب ہماری اگلی نسل کا مقصد حیات ان معاشروں کو اسلامی معاشروں میں ڈھالنا مقصد بن چکا ہے۔ اب ہمارے آئیڈیل مقامی گورے اور اُن کے اصولنہیں بلکہ پاکستان مدرسوںمیں درس نظامی پڑھنے والے مولوی ہیں، جو ہمیں جنت اور بہتر حوروں کی خوشخبری سناتے ہیں۔

اب ہماری اگلی نسلیں جوان ہو چکی ہیں، وہ مقامی زبانوں سے بھی آشنا ہیں، مقامی تعلیمی اداروں سے بھی تعلیم حاصل کر کے اعلی ملازمتوں اور عہدوں پر فائز ہیں۔ اب ہماری نئی نسل ان معاشروں کو اسلامی بنانے میں بہت مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادیکے تحت ہم نے یورپ میں نقاب، برقعہ ، حجاب نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اسے مقامی معاشرے سے قبول بھی کروایا ہے۔

کافی سال پرانی بات ہے کہ ، ناروے میں ایک پاکستانی لڑکی نے فرنیچر کی ایک بہت بڑی دوکان میں کاؤنٹر پر کام کرنا شروع کیا۔شروع کے چند ماہ آزمائشی ہوتے ہیں، تب آپ کا آجر آپ کو صرف یہ کہہ کر نکال سکتا ہے کہ میں آپ کے کام سے مطمئن نہیں ہوں۔ اور اُس کے اس فیصلے کومزدور یونین یا عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ کاؤنٹر پر کام کرنےوالی خواتین اصل میں سٹور کا چہرہ ہوتی ہیں۔ وہ پاکستانی لڑکی مغربی لباس پہن کر کام پر جاتی رہی۔ جوں ہی وہ آزمائشی وقت ختم ہوا، اُس لڑکی نے سر پر حجاب اوڑھ لیا۔ منع کرنے پر بھی باز نہ آئی، آجر نے نکال دیا تو بہت بڑا سکینڈل بن گیا اور آجر کو اُسے واپس رکھنا پڑا۔

اب لباس کے انتخاب کی آزادی کے تحت ہر جگہ آپ کو حجاب نظر آئیں گے، جس کے دفاع کے لیے عجیب و غریب دلائل سننے کا ملتے ہیں، مثلاً کیا چرچ کی ننز (راہبائیں) سر پر کپڑا نہیں اوڑھتیں ، پھر مسلمان لڑکیاں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں۔ دلیل خاصی متاثر کن لگتی ہے، لیکن ایک حجابی لڑکی اور ایک نن میں یہ فرق واضح نظر آتا ہے کہ ایک تو نن کا ادارہ ختم ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے، اگر کوئی نن باقی بچی بھی ہے تو وہ چرچ کے اندر ہی موجود ہو گی، وہ آپ کومیکڈانلڈ کے کاؤنٹر پر کھڑی جاب کرتی نظر نہیں آئے گی۔

حجاب کے حوالے سے عجیب کنفیوژن ہے، ایک طرف تو حجابی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ حجاب اُن کا ذاتی انتخاب ہے، لیکن پھر دوسرے ہی لمحے اسے اپنے مذہبی حقوق سے جوڑ دیتی ہیں، اگر یہ ذاتی انتخاب ہے تو مذہبی حقوق کا سہار الینے کی کیا تک ہے اور اگر یہ آپ کا مذہبی حق ہے، آپ کو آپ کے خالق نے اسے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر یہ آپ کا ذاتی انتخاب کا دعویٰ چہ معنی دارد۔

ویسے جہاں تک میں لباس کے متعلق جان سکا ہوں، اس کا بنیادی مقصد آپ کو موسم کی سختیوں سے بچانا ہے۔ آپ کی آب و ہوا اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ نے کون سا لباس پہننا ہے۔ گرم ملکوں کے لباس کھلے کھلے ہوتے ہیں تاکہ اُن میں ہوا کا گزر ہو اور گرمی کم لگے۔ سرد ملکوں کے لباس تنگ ہوتے ہیں تاکہ اُن میں سردی کا کم گزر ہو سکے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ہمارے لباس تہبند، دھوتی اور ساڑھی وغیرہ ہیں ( یاد رہے کہ شلوار ہمارا لباس نہیں ہے، یہ ترکوں کا لباس ہے ، بلکہ شلوار کا لفظ بھی ترکی زبان کا ہے، ترک دیہات میں اب بھی کچھ لوگ شلوار پہنتے ہیں)، اور یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ ہمارے ہاں انڈر ویئر،بنیان، جرابیں وغیر ہ ایجادنہیں ہوئیں۔کیونکہ ہمارے موسم کے لیے یہ مناسب نہیں ہیں۔

پگڑی کا استعمال کسی مذہبی کتاب میں بعد میں آیا ہو گا، لیکن اس کے استعمال کی بنیادی اور پہلی وجہ سر کو کڑکتی ہوئی دھوپ سے بچانا ہے۔ اور یہی حال خواتین کے سر پر رکھے کپڑے کا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں انسانی اعضا کو بھی کم تر اور برتر حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔ سر افضل ہے،پاؤں گھٹیا ہیں، چنانچہ سر کا پہناوے کو بھی پاؤں کے پہناوے پر فضیلت حاصل ہے۔ پگڑی اور دوپٹہ یا دوپٹہ نما چیز عزت کی علامت ہے۔چنانچہ کسی مرد کی پگڑی کو پاؤں تلے روندنا یا کسی خاتون کا دوپٹہ کھینچ لینے کو بے عزتی انتہا سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے سر کے پہناوے سے مذہب برآمد کرنا بہت بعد کی باتیں ہیں۔

کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ سر پر رکھا چیتھڑا جسے حجاب کا نام دیا جاتا ہے یہ اصل میں اخوان المسلمین کی زینب الغزالی کی ایجاد ہے، اور ایک وقت میں اس کا اوڑھنے کا مقصد یہ احساس دلانا تھا کہ آپ اخوان المسلمین کی ممبر ہیں۔ لیکن بھلا ہو امام خمینی کا کہ اُس نے ایران میں اس کا استعمال لازمی قرار دیا اور پھر اخوان المسلمین نے مغرب میں مقیم مسلمانوں کی تنظیموں کی مدد سے اسے اسلامی لباس اور اسلامی شناخت کا درجہ دلوا دیا۔ اب اگر حجاب اسلام کا حصہ ہے تو پھر ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے مائیں، نانیاں ،دادیا ں حالت کفر میں مری ہیں۔

مغرب میں بے چارے مظلوم مسلمانوں پر کیا بیتتی ہے، اُس کے حوالے سے چند باتیں بتانا چاہوں گا۔ اب مغربی ممالک میں کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکر پراذان دینےکی اجازت دی جائے۔ سویڈن کے ایک قصبے میں ایسی اجازت دی جا چکی ہے۔ شائد کینیڈا کے کسی شہر میں بھی جمعے کے روز لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی اجازت مل چکی ہے۔ ابھی ناروے وغیرہ میں کوشش کی جا رہی ہے اور انشاء اللہ مسلمان اس میں کامیاب رہیں گے۔کیونکہ اذان کو لاؤڈ سپیکر پر دینے کے حق میں بہت اچھی دلیل یہ ہے کہ اگر اتوار کے روز چرچ کی گھنٹیاں بجائی جا سکتی ہیں تو لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔

ناروے کا ایک چٹپٹا واقعہ سن لیں۔چند سال پہلے کی بات ہے کہ شام کے پانچ بجے کے لگ بھگ ایک سیلون میں ایک حجابی کٹوانے یا رنگ کروانے کے لیے داخل ہوئی، اب شائد وقت کم تھا یا وہ خاتون اس حجابی کا کام نہیں کرنا چاہتی تھی، اُس نے انکار کر دیا۔ حجابی نے مقدمہ کر دیا کہ میرے حجاب کی وجہ سے میرے ساتھ امتیازی سلوک ہوا ہے، حجابی خاتون جیت گئی اور سیلون کی مالکہ کو بہت زیادہ جرمانہ ہوا۔ ایک دو سال بعد خبر آئی کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا، اور لڑکی کو اُس سیلون میں اسی مقصد کی خاطر بھیجا گیا تھا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ حجابی ایک کنورٹ تھی، جو بعد میں اسلام چھوڑ گئی اور اُس کی کئی نیم عریاںتصاویر اُس کے فیس بک پیج پر موجود تھیں۔

امریکہ کا ایک واقعہ سنیں۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جس کا بہت زیادہ ذکر ہوا تھا۔ امریکہ کا کسی شہر میں مقیم ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورنے کچھ عرصہ بعد یونیفارم کی بجائے شلوار قمیض پہننا شروع کر دی۔جب اُسے تنبیہ کی گئی تو بھی باز نہ آیا۔ نتیجتاً کام سے نکال دیا گیا۔ اُس پاکستانی نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا کہ میرے مذہبی حقوق سلب ہو رہے ہیں میں اپنا مذہبی لباس پہننا چاہتا ہوں جس کی مجھے اجازت نہیں دی جا رہی۔ یقین مانیں وہ پاکستانی مقدمہ جیت گیا اور اُس ٹیکسی فرم کو بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔

جو کچھ کرناٹک میں ہوا، یہ شائد کچھ لوگوں کے لیے مسلمانوں پر بھارت میں ہونے والے مظالم کی ایک مثال ہو ، لیکن میں اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھ چکا ہوں، مغربی ممالک جہاں ہم اپنی بھوک مٹانے کی خاطر آئے تھے وہاں ہماری نئی نسل کیا کر رہی ہے۔ اور جو مغرب میں مسلمان کر رہے ہیں، یہی وہ ہر غیر مسلم معاشرے میں کرتے ہیں۔ یہ مقامی قوانین کے ساتھ کھلواڑ کر کے اپنے مسل دکھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک کسی بھی ملکی قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر اہمیت ہے تو ان کے مولویوں کے فتوؤں کی ہے۔ چنانچہ یہ اگر کسی بھی سکول یا جائے ملازمت کے یونیفارم کو مذہبی بنیادوں پر رد کریں تو یہ معمول کی بات ہے۔ اور مصیبت یہ ہے کہ ہمارے لوگ کل والے واقعے سے بھی انقلاب برآمد کر رہے ہیں، اصلی اور جعلی لبرلوں کی نئی صف بندیاں کر رہے ہیں۔ اُس لڑکی کے اللہ اکبر کے نعروں کو جرأت کی سنہری مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں

Comments are closed.