حجاب کی آڑ میں کہیں کچھ اور کھیل تو نہیں ہے

سید خرم رضا

حجاب معاملے پر جواب دے کر اپنے عقل مند ہونے کا مظاہرہ نہ کریں، بلکہ خاموش رہ کر دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت میں جواب کے لئے سب سے مؤثر ہتھیار ووٹ ہے اس لئے اس کا صحیح استعمال کریں۔


سوگندھ رام کی کھاتے ہیں، ہم مندر وہیں بنائیں گے‘

یہ وہ نعرہ جو تقریباً 35 سال پہلے شمالی ہندوستان کے ہر شہر میں سنا جاتا تھا اور یہ وہ نعرہ تھا جس نے بی جے پی کو ہر نئے دن کے ساتھ سیاسی طور پر مضبوط کیا اور سال 2014 میں پہلی مرتبہ بی جے پی پوری اکثریت کےساتھ اقتدار میں آئی۔ مودی وزیر اعظم بنے اور ان کی قیادت میں پارٹی نے خوب ترقی کی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس اقتدار کے لئے سنگھ کی سرپرستی میں بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے دن رات بہت محنت کی تھی اور ان کی اس محنت میں اس نعرے اور اس سے جڑی تحریک کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔

رام مندر کی تعمیر کے لئے لال کرشن اڈوانی نے جب تحریک شروع کی تھی تو اس وقت بظاہر لوگوں نے اس کو منڈل کے جواب کے طور پر پیش کیا تھا، لیکن دراصل یہ شمالی ہندوستان میں ہندوؤں کے آپسی تنازعات ختم کر کے ہندو راشٹر کی بنیاد ڈالنے کی شروعات تھی۔ اسی ہندو راشٹر کی تشکیل کے لئے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم سنگھ کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔

جب یہ تحریک شروع ہوئی تو اس وقت جگہ جگہ ہندوؤں کے عزت اور وقار کی باتیں عام ہونے لگیں۔ اخباروں میں جہاں مندر اور بابری مسجد کے حق میں اور مخالفت میں دلائل شائع کئے جانے لگے، وہیں لوگوں نے اخبار میں شائع ان دلائل میں جس کو جو اس کے نظریہ کے حساب سے اچھا لگا اس نے ان دلائل کو اپنے بحث مباحثوں میں پیش کرنا شروع کر دیا، پہلے اس نے پیش کیا اور پھر وہ ان کے لئے لڑنے لگا، دھیرے دھیرے سماج تقسیم ہونا شروع ہو گیا۔

بی جے پی کو تقسیم کے اس شجر سے پھل ملنے میں تھوڑی تاخیر ہوئی اور اس تاخیر کی وجہ مرکز میں سیکولر قوتوں کا اقتدار میں ہونا تھا، ساتھ میں بائیں محاذ کی آزاد خیالی نے اس میں رخنہ ڈالا۔ لیکن قوم پرستی کی لہر پر سوار ہو کر بی جے پی کو سال 2014 میں اپنے مقصد میں کامیابی مل گئی۔

بی جے پی کے اس سیاسی سفر میں ملک کی اقلیتوں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ پر بحث عام تھی جس میں ایک طبقہ یہ کہتا تھا کہ اقلیتوں کو بابری مسجد سے دست بردار ہو جانا چاہئے اور اسے ہندوؤں کو مندر تعمیر کرنے کے لئے اپنی جانب سے دے دینا چاہئے، کچھ کی یہ رائے تھی کہ یہاں پر نہ بابری مسجد تعمیر کی جائے نہ رام مندر بلکہ ایک اسپتال یا اسکول قائم کر دیا جائے۔

کچھ کی دلیل یہ تھی کہ بات صرف بابری مسجد سے دست برداری کی نہیں ہے بلکہ جب ایک بار دست بردار ہو گئے تو پھر کئی مذہبی مقامات کے لئے آوازیں بلند ہونی شروع ہو جائیں گی۔ اسی سب کے بیچ جہاں عدالت میں اس مسئلہ پر جرح ہوتی رہی، وہیں سیاسی میدان میں سیاسی پارٹیاں اس کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔ اس دوران جہاں کئی اقلیت کے رہنماؤں پر یہ انگلی اٹھتی رہی کہ وہ فلاں سیاسی پارٹی کے لئے کام کر رہے ہیں، وہیں سیاسی قائدین کے اوپر بھی طرح طرح کے الزامات لگتے رہے۔

کرناٹک میں حجاب کے تعلق سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بابری مسجد تنازعہ کی بہت مشابہت نظر آ تی ہے۔ جیسے اس وقت اس تحریک کو منڈل کے توڑ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، اسی طرح حجاب کے اس مسئلہ کو بھی کرناٹک بی جے پی کی اندرونی لڑائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جس طرح اس وقت ہر عمل کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا کچھ ویسا ہی آج بھی نظر آ رہا ہے۔ اڈوپی کی طالبہ مسکان کو جہاں ایک گروپ کے ذریعہ شیرنی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہیں دوسرا گروپ اس کے جوابی نعرے اور اس کے اس وقت کالج میں اپنے اسائنمنٹ جمع کرنے کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

ایسا بابری مسجد تنازعہ کے وقت بھی سامنے آیا تھا۔ اقلیت سے جڑی کچھ مخصوص شخصیات اور تنظیموں کے عمل پر بھی سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان کیوں دیا، انہوں نے خواتین کا اجتماع کیوں کیا اور اس طالبہ کو انعام دینےکی کیا ضرورت تھی اور پھر ایک بڑا سوال کیا جانے لگا کہ کیا ایسا کرکے وہ ایک خاص نظریہ والی سیاسی جماعت کی پیچھے سے حمایت کر رہے ہیں، کیا تقسیم کرنے والے اس نظریہ کے ساتھ کوئی سانٹھ گانٹھ ہے۔ ایسے ہی کچھ سوال کچھ مخصوص شخصیات اور تنظیموں کے تعلق سے بابری مسجد تنازعہ کے دوران بھی اٹھائے گئے تھے۔

سب سے بڑا سوال حجاب کے مسئلہ پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے وقت کو لے کر ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت میڈیا کی زینت بنا جب اتر پردیش جیسی ریاست میں پہلے مرحلہ کے لئے ووٹنگ ہونے جا رہی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اتر پردیش میں پہلے اور دوسرے مرحلہ کے لئے جن نشستوں پر ووٹنگ ہے وہ فرقہ وارانہ طور پر زیادہ حساس نشستیں ہیں۔ حجاب پر جو بحث ہو رہی ہے اس میں لوگ اپنے اپنے حساب سے خواتین کی آزادی اور حجاب سے متعلق شریعت کی تشریح کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اس وقت بابری مسجد کے تعلق سے اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس مسئلہ کا بھی فائدہ ملک کی ایک خاص نظریہ والی سیاسی جماعت کو ہوا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔

اس سارے مسئلہ میں تقسیم کرنے والے عناصر کو شکست دینے کا واحد حل یہ ہے کہ اقلیت سمیت ملک کا سمجھدار طبقہ اس معاملہ پر خاموشی کا روزہ رکھ لیں۔ ان کا جواب اور اس معاملہ پر بحث اس عناصر کو قووت بخشے گی اور خاموشی اس کو اپنی موت مرنے پر مجبور کر دے گی۔ جواب دے کر اپنے عقل مند ہونے کا مظاہرہ نہ کریں، بلکہ خاموش رہ کر دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت میں جواب کے لئے سب سے مؤثر ہتھیار ووٹ ہے اس لئے اس کا صحیح استعمال کریں۔ یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ حجاب کی آ ڑ میں کہیں بابری مسجد جیسا کو ئی کھیل تو نہیں ہے؟

روزنامہ قومی آواز ،نئی دہلی

Comments are closed.