آدھے سچ اور سفید جھوٹ


تحریر: شنکر رے  ۔۔۔انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود

شنکر رے لکھتے ہیں کہ جو لوگ گاندھی پر بھگت سنگھ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ تاریخ نویسی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کے مجرم ہیں۔27 ستمبرکو بھگت سنگھ کے صد سالہ یومِ پیدائش ، اس الزام کا جائزہ لینے کا ایک موقع ہے کہ لاہور سازش کیس(1929 )ان کی پھانسی گاندھی ارون معاہدے کا نتیجہ تھی۔ ہندوستان کی تحریک ِ آزادی کی تاریخ کا غیر جانبدارانہ مطالعہ، کسی بھی قسم کے تعصب سے آزادی پر مبنی ہوگا جو تاریخ نویسی کی ابتدائی شرط ہے۔

ھیگل کے نزدیک تاریخ ایک مذبح خانہ ہے کیونکہ اس میں کسی کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے مسلح انقلابیوں اورکمیونسٹوں کو نوآبادیاتی استعمار کے خلاف عدم تشدد پر یقین نہیں تھا۔ اور نہ ہی انہوں نے آئین پرستی اور ’’ڈومینئین اسٹیٹس‘‘ کی توثیق کی تھی۔ انہیں شبہ ہے کہ ’’گاندھی ارون‘‘ معاہدے میں راج گرو، سکھدیو اور بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کی مفاہمت موجود تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے معاہدے کے چھ نکات میں سے ایک کو کچھ زیادہ ہی پڑھ لیا ہے،’’ تشدد میں ملوث افراد کے علاوہ دیگر تمام جرائم میں مقدمات کی واپسی‘‘ گویا اس کا یہ مطلب تھا کہ راج کو ہٹانے کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والے افراد کی سزائے موت پرکوئی اعتراض نہ تھا۔اب تک جو شواہد اور دستاویزات دستیاب ہیں ، اُن کی روشنی میں گاندھی اور لارڈ ارون کے درمیان کسی قسم کی خفیہ ڈیل کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

اس کے برعکس،پھانسی کے چھ دن بعد، گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے کراچی اجلاس کے دوران اعتراف کیا تھا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جان بچانے کی کوششیں بے سود تھیں۔ لیکن گاندھی جی نے زور دے کر کہا کہ ان شہادتوں نے ہماری آزادی جیتنے کی طاقت کو بڑھا دیا ہے۔ ان بہادر سپوتوں نے موت کے خوف پر فتح پائی تھی۔ آئیے ان کی بہادری کو ہزار بار سر جھکا کر سلام پیش کریں۔ خود مہاتما عدم تشدد کے اصول سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے۔اور کہا،’’ کہ ہمیں ان کے عمل کی نقل نہیں کرنی چاہئیے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری اس سر زمین میں لاکھوں بے سہارا اور اپاہج لوگوں کی موجودگی میں اگر ہم قتل کے ذریعے انصاف کے حصول کی مشق کریں گے تو وسیع پیمانے پر خوفناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ ہمارے غریب لوگ ہی ہمارے مظالم کا نشانہ بن جائیں گے۔

جب ہم پھانسی کے دن، گاندھی کے وائسرائے کو لکھے 330 الفاظ پر مشتمل خط پڑھتے ہیں، تو خفیہ معاہدے کے مواد کی سچائی پر شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے وائسرائے کو پھانسی کے خلاف عوامی رائے ردِ عمل کی طرف توجہ دلائی تھی،جو غلط یا صحیح طور پر سزا میں تخفیف اور تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ گاندھی نے مزید لکھا کہ پھانسی ایک ناقابل ِتلافی عمل ہے۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ فیصلے میں کسی معمولی غلطی کا بھی امکان ہے تو میں درخواست کروں گا کہ مزید نظر ثانی کے لئے پھانسی کو معطل کر دیں۔کیونکہ پھانسی کی سزا ناقابلِ واپسی عمل ہے ۔

اس کے علاوہ، اکتوبر 1930 میں اس تاریک دن سے پانچ ہفتے پہلے، گاندھی نے اپنی قانونی حکمت عملی سے لیس ، ارون کو بے گناہوں کو سزائے موت دینے کے خطرات سے خبردار کیا تھا جو کہ قانون کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ سزائے موت کی برائی ہے کہ وہ ایسے آدمی کو اصلاح کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتی۔(کالیکٹد ورکس آف گاندھی جلد 45 صفحہ 200 )۔ ارون نے بھی امن کی بحالی کے لئے گاندھی کی درخواست کی تصدیق کی تھی۔ اس سے چار مہینے قبل گاندھی نے مقدمے میں تاخیر پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے کہا، کہ قانون میں تاخیر مارشل لاء کی خفیہ شکل ہے۔صفحہ 391 ۔

افسوسناک بات ہے کہ اے جی نورانی جیسے علمی تجزیہ نگار نے بھی اپنی کتاب،’’ ٹرائل آف بھگت سنگھ‘‘ میں اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ 23 مارچ 1931 کے خط کو چھوڑ کر ، گاندھی کی کوششیں،پھانسی سے چند گھنٹے پہلے، مختلف سمت میں تھیں۔ انگریزوں کے ساتھ معاہدے کی جعل سازی اور اس پر عمل درآمد میں گاندھی کے کردار پر نفرت کی عکاسی کی تھی۔ تاہم گاندھی کا صبر کے ساتھ مطالعہ (1915-1948گاندھی پیس فائونڈیشن) اس من گھڑت کہانی کی تردید کرتا ہے۔برطانوی وزیرِ داخلہ ای ڈبلیو ایمرسن کے ساتھ گاندھی کے تبادلہ خیال بارے نورانی کی تشریح موضوعیت کا شکار ہے بالخصوص ان کا یہ تاثر کہ گاندھی نے پھانسی کے فوری بعد کی صورت حال پر برطانوی حکومت کو انتظامات کا مشورہ دیا تھا۔

جب ھوم سیکرٹری نے 20 مارچ1931 کو گاندھی کو خط لکھا(اس معاملے پر بات چیت کے اگلے دن) جس میں کلکتہ میں سبھاش چندر بوس کے احتجاجی جلسے میں اشتعال انگیز تقریروں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ جلسے حکومت کو قبل از وقت ایکشن پر مجبور کر سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے فوری جواب دیا کہ میں تجویز کرتا ہوں کہ پولیس کی طاقت کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئیے اور جلسے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے۔(بحوالہ کمپلیٹ ورکس صفحہ 316,446 )۔

بھگت سنگھ کے کامریڈ اور ساتھی قیدی اجوئے گھوش ،غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے آخری جنرل سیکرٹری نے بھی گاندھی کے کردار پر شک کیا تھا۔یہ معاہدہ ، انڈین نیشنل کانگریس کی آئین پرستی کی جنون کی حد تک پاسداری میں رہتے ہوئے ،بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی استعماری حکمرانی سے مکمل نجات کے برعکس ،عالمی رائے عامہ کے زیرِ اثر،سزائے موت کی تخفیف اور تبدیلی کے لئے تھا۔

اجوئے گھوش 1962 میں قبل از وقت وفات پا گئے اور 1969 میں شائع ہونے والی گاندھی کی مکمل تحریوں کے مطالعہ کے لئے زندہ نہیں تھے۔

سوویت کمیونسٹ نظریہ دان بورس پونوماریف نے،اجوئے گھوش کو کامنٹرن عہد کے شاندار لیڈروں ،ہوچی من، موریس تھوریز، رجنی پالم دت اور پالمیرو توگلی آتی کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔گھوش ایک منفرد جدلیاتی ذہن رکھتے تھے اور عین ممکن تھا کہ وہ اپنی رائے درست کر لیتے جیسا کہ وہ اکثر کیا کرتے تھے۔

بشکریہ: ہندوستان ٹائمز

Comments are closed.