اپوزیشن و ایم کیو ایم معاہدہ۔۔۔ایک طائرانہ نظر

بصیر نوید

میں یہ سب اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ہم اردو بولنے والوں کاجنہوں نے کئی دہائیوں سے سندھ کو دیس بنایا ہوا ہے المیہ ہے کہ ہمیں سنیں بغیر ہمیں ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈال کر اہل اختیار مطمئن ہوجاتے ہیں کہ جو فیصلے ایم کیو ایم سے کئے گئے  ہیں اسکا اطلاق من حیث الکمیونٹی  تمام اردو بولنے والوں پر ہوتا ہے۔ دو تین اضلاع کی محدود نمائندگی کو تمام اردو بولنے والوں پر ٹھونسنے سے ہی مسائل پیدا ہوئے ہیں اس وجہ سندھ کے مستقل باشندے سندھ کی آمدنی سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ خیر آئیے کچھ مذکورہ بالا عنوان پر گفتگو کریں۔

 گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ایک سمجھوتےپر دستخط کئے گئے جس پر دونوں پارٹیوں کے علاوہ حزب اختلاف کی دیگر پارٹیوں کے رہنماوں کے نام کے ساتھ دستخط ہیں جو ضامن کے طور پر ہیں۔ اس معاہدہ کا عنوان چارٹر آف رائٹس رکھا گیا ہے۔  اسی طرح ایک اور سمجھوتے پر بھی دستخط کئے گئے جسکا تعلق سندھ میں دونوں پارٹیوں کی باہمی ورکنگ سے ہے اسکا عنوان چارٹر آف رائٹس فار پیپلز آف سندھ رکھا گیا۔ اس پر بھی اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہان کے دستخط ہیں۔

دیگر پارٹی سربراہان سے ضمانتیوں کے طور پر دستخط لینے کا مقصد واضح ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے سے عہد و پیماں پر بھروسہ نہیں۔ دونوں سمجھوتوں کے اپنے مسودے سے ہی واضح ہے کہ یہ مسودے ایم کیو ایم نے تحریر کئے ہیں تاکہ اپنے سات عدد ووٹوں کے عوض ایک مضبوط عہد کرایا جائے۔ سارے مطالبات ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہ شہری علاقوں کے مطالبات سے تعبیر کرتے ہیں۔  چارٹر آف رائٹس کا تعلق وفاق سے ہے جس میں سندھ کی سلامتی اور وحدانیت سے چھیڑ خوانی کی کوشش کی گئی  اور تمام پارٹیوں کی سندھ کی تقسیم کی خواہشات کو پورا کیا گیا اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔ جبکہ چارٹر آف رائٹس فار پیپلز آف سندھ کا تعلق صرف سندھ سے ہے جس میں ایم کیو ایم نے اپنے مطالبات ڈال دیئے لیکن سندھ کے مجموعی رائٹس کے بارے ایسا کوئی عہد نہیں کیا جس کے ذریعے کوشش کی جس کے کہ سندھ میں ایک پائیدار امن ہوسکے۔ مثال کے طور پر وفاق نے سندھ کے جن وسائل پر قبضہ کیا ان کے حصول کے لئے مشترکہ طور پر جدوجہد کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

سندھ سے متعلق چارٹر کو سمجھوتے کا نام دینا میرے لئے حیران کن ہے کیونک جن نکات کا ذکر کیا گیا ان پر ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے متعدد بار ان پر عمل در آمد کے احکامات دیئے لیکن سندھ حکومت ان پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرتی رہی خاص کر لوکل گرنمنٹ کے مسئلے پر سپریم کورٹ کی سرزنش کے باوجود عمل نہیں کیا گیا لیکن صرف سات ووٹوں کی خاطر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق عمل کرنا قبول کرلیا۔ ملازمتوں میں دونوں آبادیوں کی منصفانہ بھرتی، کوٹہ سسٹم پر مکمل عمل کرنے، مقامی پولیس کی بھرتیاں، جعلی ڈومیسائل کا خاتمہ، شہری و دیہی علاقں میں ترقیاتی کاموں کا تعین کرنا، ماسٹر پلان اور سندھ کے شہروں میں بے ترتیب آبادیوں کا خاتمہ، ٹرانسپورٹ کے نظام کو آپ گریڈ کرنا، سیف سٹی کا قیام، گھریلو صنعتیں لگانا، صحت اور تعلیم پر توجہ دینے کا عہد، حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیامیہ تو وہ اقدامات ہیں جن پر کسی سمجھوتے کی ضرورت ہی نہیں تھی تو سندھ حکومت کو خود کرنا تھا جو کہ اسکا فریضہ ہے مگر سمجھوتہ کرنے کا مقصد اپنی کوتاہیوں و خراب کارکردگی کا اعتراف بھی ہے اور یہ تسلیم بھی کرنا ہے کہ وہ سندھ کے عام مسائل سے لاعلم ہیں۔

پوائنٹ سترہ میں مقبوضہ متروک املاک/زمین کے مسئلہ پر باہمی سمجھوتے کے ذریعے ایک کمیشن کی تشکیل کا کہا گیا ہے۔ یہ ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے جو املاک کے قبضوں اور جھگڑوں کا سبب بنے گا چونکہ مسلسل کئی سالوں سے کہا جاتا ہے کہ ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر آئے ہیں لہذا یہ ہمارا حق ہے۔ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک سندھ کے ہاریوں کا متروکہ املاک و زمینوں پر ان کو انکے حق سے محروم رکھا گیا جو 3 جون 1947 کی سندھ اسمبلی کی قرارداد کے مطابق ان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ پوائنٹ مقامی لوگوں کے حقوق پر براہ راست ڈاکہ ہے۔

اسی طرح وفاق سے متعلق سمجھوتے میں سندھ کے شہری علاقوں کی ایک بڑی اسٹیک ہولڈر  یعنی حصہ دار اور نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جسکا بظاہر یہ مطلب نکلتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں اب کوئی اور نہیں صرف ایم کیو ایم پاکستان۔ کسی اور کو اب یہحق حاصل نہیں کہ شہری علاقوں کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔

اس سمجھوتے سے یہیہ فارمولا ثابت ہوگیا کہ پہلے تقسیم کرو پھر آپس میں ملانے کی بات کرو اور بار بار سمجھوتے کئے جائیں۔ سندھ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیایعنی شہری سندھ اور دیہی سندھ۔۔ جو کام گزشتہ 36 سالوں خون خرابے، ہڑتالوں، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے جو حاصل نہ ہوسکے وہ فریضہ ایم کیو ایم پاکستان نے صرف سات سیٹوں کے عوض حاصل کرلیا۔

وفاق سے متعلق سمجھوتے میں پوائنٹ 17 بہت متنازع ہے جس کے مطابق پاکستان بھر میں نئے انتظامی یو نٹوں کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے نیز  نئے انتظامی یونٹس (صوبوں) کی تشکیل میں ایم کیو ایم سمیت تمام حصہ داروں سے مشاورت کے وقت کا تعین کیا جائے۔اسکا واضح مطلب ہے کہ ملک میں نئے صوبے بنائے جائیں۔ اسی میں 18 ویں شق بھی ہے جو کراچی کے لحاظ سے بہت اچھا ہے مگر ان دونوں سمجھوتوں کے تسلسل میں دیکھیں تو اس میں کراچی کو پورے صوبے سے الگ کرکے ایک نہایت خصوصی درجہ ڈیکر صوبے سے بالا تر علاقہ قرار دیا گیا ہے۔

ان سمجھوتوں میں اور بھی بہت سارے نکات ایسے ہیں جو انسانوں اور علاقوں کی تقسیم بنانے کیلئے بیان کئے گئے ہیں لیکن جو اصل نکات تمام سیاسی جماعتوں اور خاص کر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے چاہئے تھے وہ شامل نہیں ہیں بلکہ ایسے عہد و پیماں بھی نہیں کئے گئے کہ فریقین سندھ کے وسیع تر مفاد میں کیا کیا ذمہ داریاں لیں گے۔ مثال کے طور پر سندھ میں آبادی کے دباؤ کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں گے اور آنے والی ابادی کا کیا اسٹیٹس ہوگا؟ سندھی زبان کو پھر سے اسکولوں میں رائج کرنے کے کیا اقدامات خاص طور پر کراچی کیلئے اختیار کئے جائیں گے۔؟

کیا سندھ حکومت اور ایم کیو ایم این ایف سی ایوارڈ کیلئے بھی مشترکہ طور پر وفاق سے لڑیں گے۔ کیا پنجاب اور پختون خواہ سے دریائے سندھ کے پانی کو استعمال کرنے سے روکنے کیلئے مشترکہ  کوششیں کریں گے؟ کیا دریائے سندھ پر بنائے جانے والے ڈیمز کی مخالفت میں اتحاد قائم رکھا جائے گا؟ کیا سندھ سے وسیع تر زمینداری کیخلاف ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی متحد رہے گی اور سندھ و وفاقی سطح پر موثر قانونی سازی کرے گی؟ کیا دریائے  سندھ کے پانی کو سمندر میں جانے دیا جائے گا تاکہ نہ صرف ماہی گیروں کا روزگار بحال ہو بلکہ 44 ملیں ایکڑ زمین کاشتکاری کے قابل ہوسکے؟ ا پھر تحریک عدم اعتماد کے بعد پھر وہی رات دن؟

Comments are closed.