خان صاحب کو دیکھ کر تو نظریہ ارتقاء سے بھی ایمان اٹھنے لگتا ہے

عمران خان کے سیاسی مقاصد میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی ’پارٹنرشپ‘ توڑنا شامل تھا۔ لیکن اس سیاسی پارٹنر شپ کو توڑنے میں ان کی ”جدوجہد“ سے زیادہ کردار ’امپائر کی انگلی‘ نے ادا کیا ہے۔

یہ جو تیس سال سے چور اور ڈاکو قابض تھے، یہ زردای اور نواز شریف کی پارٹیوں نے باریاں لگا رکھی تھیں، تیس سال سے ملک لوٹنے والوں کے خلاف میں جہاد کرنے نکلا ہوںجیسے بہت سے جملے عمران خان کا ٹریڈ مارک بن چکے ہیں۔ خان صاحب اس یقین کے ساتھ یہ جملے دہراتے ہیں جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو حالانکہ نوے کی دہائی میں امپائر نے یکسوئی کے ساتھ کوئی فریضہ سر انجام دیا تو وہ یہی تھا۔ تب خان صاحب کی ٹیم ابھی زیر تعمیر‘ تھی سو کھیل کا اسلوب ذرا مختلف تھا، امپائر کی ٹیم پاکستان مسلم لیگ بمقابلہ سیکورٹی رسک‘ پاکستان پیپلز پارٹی۔ 

سنہ1988 میں تمام تر کوششوں کے باوجود امپائر کے لیے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا ممکن نہ رہا تو پہلے صدر اسحاق خان اور صاحبزادہ یعقوب علی خان  کا پہرہ بٹھایا گیا اور دو سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ انگلی کھڑی کر دی گئی۔ امپائر نے بڑی امیدوں کے ساتھ 1990 میں اپنا دست شفقت نواز شریف پر رکھا جو 1993 تک انگلی میں بدل چکا تھا۔ اسمبلی توڑ دی گئی اور نئی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی بنی جو 1996 میں چلتی کر دی گئی۔ اس کے بعد نواز شریف کو ملنے والی دوتہائی اکثریت کا انجام امپائر کے ”میرے عزیر ہم وطنو‘‘ سے ہوا۔ 

نوے کی دہائی میں بطور حکمران امپائر کے کھلاڑی‘ میاں نواز شریف تھے جب کہ نظریاتی سرحدوں پر فیلڈنگ کی ذمہ داری مذہبی جماعتوں نے اٹھا رکھی تھی۔ اس دوران نواز شریف کا سب سے بڑا جرم ”ضیاالحق کا مشن پورا کر کے رہوں گاسے ”ڈکٹیشن نہیں لوں گاثابت ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو پہلے دن سے ناقابل اعتبار تھی۔ سو امپائر جنرل حمید گل کی کوچنگ میں ایک نئی ٹیم کی تیاری کا ڈول ڈال چکے تھے۔ 

سنہ1995 میں ہیرالڈ کے لیے عمران خان اور ان کے سرپرست جنرل حمید گل کا انٹرویو کرنے والے سینئر صحافی ضیغم خان اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ضیاالحق کے طویل مارشل لا کے بعد پہلی مرتبہ جمہوری عمل شروع ہوا تھا جسے غیر جمہوری قوتیں پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ شہری طبقے کو جمہوریت سے ہمیشہ ایک بیر رہا۔ وہ سیاستدانوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔۔

حسین حقانی کی کتاب پاکستان فوج اور ملا ‘ کے درمیان اپنے موضوع پر ایک عمدہ دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ ان کے بقول نوے کی دہائی میں بے نظیر کا جرم ”پاکستانی عوام کو مذہب کے بجائے جمہوریت کے رشتے میں باندھنے کی کوششکرنا تھا۔

سنہ2008 سے پاکستان کی جمہوری ثقافت میں نئی اننگز کا آغاز ہوا۔ 2010  میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیم منظور کروائی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ بھی اس گناہ‘ میں برابر کی شریک تھی۔ 66 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سلجھے ہوئے سیاسی رویے کے حوالے سے ضیغم خان کہتے ہیں، ”ہم نے 1973 میں آئین تو بنا لیا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کھیل کے اصول کیا ہوں گے۔ اصول و ضوابط طے نہ ہونے کا اثر نوے کی دہائی میں ظاہر ہوا جب دونوں جماعتیں ذاتی دشمنوں کی طرح آپس میں لڑ رہی تھیں۔ میثاقِ جمہوریت نے کھیل کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ دس سال تک پاکستان میں مختلف طرح کی سیاست ہوئی۔ ایسے میں عمران خان سامنے آئے جو اسٹیبلشمنٹ کا 1996 سے خواب تھا، ایک ایسا بندہ جو ہمارا اپنا ہو۔

سنہ 2011 میں ایسٹیبلشمنٹ نے ”اپنا بندہ” لاہور کے جلسے میں پوری طرح لانچ کیااور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان تحریک انصاف سونامی میں ڈھل گئی۔اقتدار میں آنے سے پہلے دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے سونامی امپائر کے حق میں بھرپور قسم کے پریشر گروپ کا کردار ادا کرتی رہی۔

فرائیڈے ٹائمز میں نجم سیٹھی نے 2014 کے دوران زیرو یا ہیرو کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا، ”عمران خان کا خلائی مخلوق‘ کے ساتھ تعلق تحقیق کا ایک اور دلچسپ موضوع ہے۔ جب بھی وہ سویلین حکومتوں کے ساتھ پنجہ آزما ہوئے عمران خان نے ہمیشہ عوامی جذبات کو ان کے حق میں استوار کیا۔نجم سیٹھی نے چند مثالیں پیش کرتے ہوئے رحمان ملک کی آئی ایس آئی کو اپنے ماتحت لانے کی کوشش، کیری لوگر بل، اسامہ بن لادن کی ہلاکت، میمو گیٹ، اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ریاست کے اندر ریاست‘ کے بیان وغیرہ کی مثالیں پیش کی ہیں۔  

کسی بھی پریشر گروپ کی طرح عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اکٹھا کرنا تھا۔ طالبان کے حمایتی عمران خان کے لیے یہ مشکل احمد اعجاز کے بقول دہشت گردی کی لہر‘ نے آسان کر دی۔ پی ٹی وی الیکشن سیل کے انچارج احمد اعجاز ڈی بلیو اردو سے بات کرتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں، ”اسٹیبلشمنٹ الیکٹیبلز کو تو کسی جماعت کی طرف دھکیل سکتی ہے لیکن لوگوں کو گھروں سے نکال کر جلسے میں نہیں پہنچا سکتی۔ دراصل دہشت گردی کی لہر بری طرح دوسری سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔ یہاں تک کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی ان کے حملے سے محفوظ نہ رہ سکی۔

بازار اور تفریحی پارک بند ہو کر رہ گئے تھے۔ یہاں تک کہ جشن بہاراں کے ثقافتی میلے بھی تعطل کا شکار ہو چکے تھے۔ ان حالات میں نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تفریحی سرگرمیوں کا فقدان تھا۔ پی ٹی آئی کے جلسے میں جا کر وہ ناچ گانے سے لطف اندوز ہو سکتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی زندگی محفوظ تھی۔یہ نوجوان عمران خان کا فین کلب بنتا گیا۔ کیوں کہ یہ نوجوان شہری علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اس لیے سوشل میڈیا کا بہتر استعمال تحریک انصاف کی پروپیگنڈہ مہم اور ٹرینڈ سازی میں سودمند ثابت ہوا۔ 

لیکن عمران خان کا فین کلب کبھی بھی سیاسی ورکر نہ بن سکا۔ سیاسی ورکر جمہوریت اور دلیل پر یقین رکھتا ہے جبکہ کپتان کے پرستار اپنے لیڈر کی طرح آمرانہ مزاج اور زعم پارسائی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔  

نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور اسٹیبلشمنٹ کا سب سے موثر گروہ دفاع پاکستان کونسل میں اکھٹا ہونے کے باوجود رنگ نہ جما سکا کیونکہ دائیں بازو کا نیا ووٹر ثقافتی سطح پر ویسا رجعت پسند نہیں تھا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑنے کے باوجود جلسے میں تھرکتے ہوئے نغموں پر ٹھمکے لگانا چاہتا تھا۔ پی ٹی آئی نے یہ سہولت وافر مقدار میں مہیا کی۔ مقامی سیاست میں متحرک مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے بہت سے سیاست دان عمران خان کو پیارے ہو گئے۔ نواز شریف کی عدلیہ کے ذریعے رخصتی کے باوجود ان کا راستہ صاف نہیں تھا۔ بہرحال 25 جولائی 2018 کو عمران خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی پارٹنر شپ‘ توڑنے میں کامیاب رہے جس کا جشن وتعز من تشاء و تزل من تشاء کی ٹویٹ سے منایا گیا۔ 

آج یہ سوال بے سود ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پارلیمانی سیاست میں اتنی بڑی قوت بن کر نہ ابھرتی تو دوجماعتی سیاسی عمل کہاں تک پہنچا ہوتا؟ البتہ اس سوال کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی جائے گی کہ پی ٹی آئی نے ہمارے سیاسی کلچر کو کیا دیا؟

ضیغم خان کہتے ہیں، ”اگر عمران خان حقیقی مڈل کلاس سپرٹ کی نمائندگی کرتے جو قانون کی حکمرانی، مضبوط معیشت اور بہتر طرز حکومت چاہتے ہیں تو اس سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دو جماعتوں پر دباؤ بڑھتا اور وہ معاملات بہتر ہو سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے کسی دعوے کو سچ نہ کر سکے اور بدترین طرز حکمرانی کی مثال بن گئے۔

پاکستان سٹڈی سرکل جامعہ کراچی کے سابق صدر، ڈاکٹر جعفر احمد کا دکھ ذرا مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”پی ٹی آئی نے بدزبانی کے جس کلچر کو فروغ دیا وہ افسوس ناک ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات ایک بہت بڑی تعداد کا اسے قبول کرنا ہے۔

سنہ1995 میں کپتان نے ضیغم خان سے کہا تھا، ”جو شخص بھٹو کو پسند کرتا ہے وہ غدار ہے۔چھبیس برس بعد بھی وہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ خان صاحب کو دیکھ کر تو نظریہ ارتقاء سے بھی ایمان اٹھنے لگتا ہے۔ 

dw.com/urdu

Comments are closed.