افغانستان میں طالبان برداشت نہیں کرتے اور پاکستان میں پولیس

اسد اللہ (فرضی نام) افغان گلوکار ہیں، ان کی عمر 25 سال ہے اور وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پشاور آ گئے تھے۔ان کے دو بھائی بھی ان کے ہمراہ ہیں جبکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد افغانستان میں رہ گئے ہیں۔

اسد اللہ کہتے ہیں یہاں مقامی فنکاروں کے ساتھ تھوڑا بہت کام مل جاتا ہے جس سے کچھ آمدن ہوتی ہے جس کا بیشتر حصہ افغانستان گھر والوں کو بھیج دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے تو یہ زمین تنگ کر دی گئی ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہاں جائیں، یہاں ان دنوں پولیس نے سختی شروع کر دی ہے اور گرفتاریاں کی جا رہی ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر روٹی کھانے کے لیے نکلتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کارڈ دکھاؤ، پاسپورٹ دکھاؤ، یہاں تک کہ ہم نے ایک عمارت میں جو کمرہ لے رکھا ہے وہاں بھی پولیس آ جاتی ہے۔ہمیں کچہری لے جانے کی دھمکی دیتے ہیں، کہتے ہیں تم مہاجر ہو اور یہاں ایسے ہی رہ رہے ہو۔ تمھارے پاس کارڈ نہیں ہے، ہم کہتے ہیں ہم مہاجر ہیں، انسان ہیں، مشکل حالات میں ہیں کوئی مجرم تو نہیں ہیں‘۔

اسد اللہ نے کہا کہ ’ہم پولیس کو اپنا تعارف کروا دیتے ہیں کہ ہم گلوکار ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ گلوکار ہو تو کیا تم سے گانے نہیں سنیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ان کے بھائی یا بیٹوں کی شادیوں یا خوشیوں میں گانے گائے جاتے ہوں گے لیکن ہماری کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔‘

پشاور پریس کلب کے سامنے سوموار کی صبح افغان اور پاکستانی فنکاروں نے ایک انوکھا احتجاج کیا ہے اور اس دوران ہارمونیئم اور ڈھول کے ساتھ احتجاج کیا گیا ہے۔ یہ احتجاج چار افغان فنکاروں کی گرفتاری کے بعد شروع کیا گیا ہے۔مظاہرین نے گرفتار فنکاروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ’انھیں کوئی ایسی دستاویز یا کارڈ دیا جائے جس سے پولیس انھیں تنگ نہ کرے۔‘

پشاور پریس کلب کے بعد مظاہرین جلوس کی صورت میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے سامنے پہنچے تاکہ ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچا سکیں۔ریلی میں شامل مظاہرین موسیقی پر پشتو کا روایتی اتنڑ یعنی رقص کرتے رہے۔ ریلی کو راستے میں پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پُرامن ہیں اور اپنا مدعا ارباب اختیار تک پہنچانے جا رہے ہیں۔ان مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں مطالبات لکھے ہوئے تھے، اس میں کہا گیا تھا کہ یہ احتجاج موسیقی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ایک پلے کارڈ پر درج تھا کہ ’آپ ہمیں بھیڑیوں کے سامنے نہیں پھینک سکتے۔‘

پاکستان کے مقامی فنکار راشد احمد خان ان افغان فنکاروں کی حمایت میں ان کے ساتھ یہاں کھڑے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک غیر انسانی رویہ ہے کہ ان افغان فنکاروں کو گرفتار کر کے افغانستان میں طالبان یعنی طالبان حکومت کے حوالے کیا جائے۔‘افغانستان میں موسیقی اور فن کاروں کی سرگرمیوں پر پابندی ہے اور یہاں ان فنکاروں کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں اگر ان فنکاروں کو بھیج دیا گیا تو ان فنکاروں کی جانوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ گرفتاریاں فارن ایکٹ کے تحت کی جا رہی ہیں۔ پشاور میں افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور ایسے افغان پناہ گزین جن کے پاس یہاں رہنے کے لیے دستاویز نہیں ہیں انھیں گرفتار کر کے واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔

پشاور کے سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس ہارون رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس فلیٹ میں یہ لوگ رہتے ہیں وہاں سے مکینوں نے پولیس کو شکایت کی تھی کہ ساری رات موسیقی کا شور ہوتا ہے اور انھیں سکون نہیں ہے جس پر پولیس نے کارروائی کی اور معلومات پر پتا چلا کہ یہ افغان ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کے کوئی سفری دستاویز نہیں ہے اور یہ ایک جرم ہے جس پر پولیس کارروائی کرتی رہتی ہے‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’پشاور اور قریبی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور اس سے پہلے مسجد میں دھماکے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن کیا جاتا ہے اور کسی کو بھی سفری دستاویز کے بغیر رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘۔پولیس حکام نے بتایا کہ ’وہ موسیقی یا موسیقاروں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس پر پولیس ضرور حرکت میں آتی ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور اب عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہو گا‘۔

افغانستان میں گذشتہ سال اگست میں جو طالبان کی پیش قدمی جاری تھی اور یہ توقع نہیں تھی کہ یہ اتنی تیز رفتاری سے کابل کو فتح کر لیں گے۔اسد اللہ نے بتایا کہ وہ رات کو سوئے تو اشرف غنی کی حکومت تھی اور صبح اٹھے تو معلوم ہوا کہ امارات اسلامی قائم ہو چکی ہے اور طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’افغانستان سے پاکستان آنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا خاص طور پر ان کے لیے جو معاشی حوالے سے کمزور تھے جبکہ جن کے پاس رقم تھی وہ یورپی مماک اور امریکہ چلے گئِے ہیں‘۔

افغانستان میں حکومت کی نظر میں موسیقی، فن اور فنکار کو اب اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لیے بڑی تعداد میں افغان فنکار موسیقار اور دیگر فنون سے تعلق رکھنے والے افراد فرار ہو گئے ہیں۔اسد اللہ نے بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق افغانستان سے کوئی پانچ سو کے قریب فن سے وابستہ افراد پاکستان آئے ہیں لیکن وہ کہاں رہ رہے ہیں اس کا انھیں علم نہیں ہے۔

پشتو موسیقی کے نامور گلوکار گلزار عالم نے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ افغان اور پاکستان کے پشتون فنکار ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ جب افغانستان نقل مکانی کر گئے تھے تو وہاں افغان فنکاروں نے ان کی مدد کی تھی اس لیے جب افغان فنکار مشکل میں ہوتے ہیں تو پاکستان میں فنکار ان کی مدد کرتے ہیں۔پشاور میں اکثر فنکار ان افغان گلوکاروں اور موسیقاروں کو ساتھ رکھتے ہیں جس سے ان کا گزر بسر ہو جاتا ہے۔

bbc.com/urdu

Comments are closed.