مذہبی کارڈ اور توہین مذہب کا مقدمہ

بیرسٹر حمید باشانی

نئی حکومت سے عوام کو ہمیشہ نئے انداز حکمرانی کی توقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد عوام کو بھی یہی توقع تھی۔ لیکن اس باب میں ان کے ابتدائی اقدامات نے ہی عوام کو مایوس کیا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے حکمران اشرافیہ ماضی کے تلخ تجربات اور غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتی۔

 حال ہی میں حکومت نے حزب مخالف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ کام کیا ہے۔ یہ ایک مایوس کن خبر ہے۔ اس مایوسی کی وجہ طویل تلخ تجربات ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اظہار ہے کہ ماضی کے ان تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ یہ مایوسی خصوصاً ہماری نسل کے ان لوگوں کے لیے جو اوائل جوانی میں اس باب میں بہت پر امید تھے، اور خوش کن نقطہ نظر رکھتے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے ہاں تعلیم اور خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہاں علم و شعور کی کمی ہے۔ علم و شعور میں کمی کی وجہ سے لوگ ان لوگوں کو بھی برداشت کر جاتے ہیں، اور بعض صورتوں میں ان کا ساتھ دیتے ہیں، جو سیاسی یا ذا تی مقاصد کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

اس وقت سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال دو طریقوں سے ہوتا تھا۔ ایک حکمران طبقات کی طرف سے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے مذہب کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جنرل ضیا کے دور میں جس پیمانے پر مذہبی کارڈ کھیلا گیا، اور حکمران طبقات نے جس بے رحمی سے مذہب کا استعمال کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جنرل ضیا کی حکمرانی کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔ مکمل مارشل لاء سے لیکر پارلیمنٹ کے نام پر مجلس شوری جیسے نمائشی ادارے کے قیام تک یہ آمریت مختلف روپ دھارتی رہی، لیکن ان سب شکلوں میں ضیا الحق کا اوڑھنا بچھونا نظام اسلام یا نفاذ شریعت کا نعرہ رہا ہے۔

اس دور میں اسلام کے نام پر پاکستان کے عوام کے ساتھ جتنے جھوٹ بولے گئے، جتنی وعدہ خلافیاں ہوئیں، اور جس قدر دھوکے دئیے گئے اس کی مثال بھی کسی اور دور میں نہیں ملتی۔ اس دور کا آغاز ہی مقدس کتاب کی طویل تلاوت کے بعد اس جھوٹ اور جھوٹے وعدے سے کیا گیا کہ نوے دن کے اندر انتخابات کروا کر اقتدار ملک کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ پھر ہر بار کلام پاک کی تلاوت کے بعد کوئی نہ کوئی جھوٹا وعدہ ہوتا اور ٹوٹتا رہا۔ مذہب اور شریعت کے نام پر ایک عشرے تک عوام سے فریب مسلسل ہوتا رہا۔ مذہب کے نام پر ہی ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب ہوتا رہا، جن کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے منتخب وزیر اعظم  کو بندوق کی نوک پر اقتدار سے ہٹایا گیا۔ پھر فریب و جبر سے کام لیتے ہوئے اس وزیر اعظم کی پھانسی کے لیے عدالتوں سے ایسا فیصلہ لیا گیا، جس پر آج تک پاکستان کا ہر صاحب ضمیر قانون دان شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ملک میں جمہوریت کا قتل عام کیا گیا۔ سیاسی کارکنوں پر جیلوں اور عقوبت خانوں میں تشدد کیا گیا۔ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، اور ان کے کپڑے پھاڑے گیے۔

خارجہ محاذ پر اسلام کے نام پر اس سے بھی گھناؤنے جرم کا ارتکاب ہوا۔ پاکستان کو عالمی سامراجی لڑائی میں جھونک دیا گیا۔ اسلام کے نام پر سوویت یونین کے خلاف محاذ کھولا گیا، اور امریکی ڈالر کے زور پر لاکھوں لوگوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ شریعت اور اسلام کے نام پر ایک عفریت تخلیق کیا گیا۔ پاکستان کے لوگ دہشت گردی کی شکل میں اس عفریت کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے، اور آج تک اس کی تباہ کاریوں کی کوئی نہ کوئی شکل نظر آتی ہے۔ یہ ایک حکمران کی طرف سے مذہب کا فریب کارانہ اور کھلا استعمال تھا۔ لیکن یہ کوئی واحد حکمران نہیں تھا، جس نے ایسا کیا۔ دیگر حکمران بھی اپنی ضروریات اور مفادات کے لیے گاہے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جو حکمران اپنے آپ کو سیکولر تصور کرتے تھے انہوں نے بھی وقت پڑنے پر مذہب کے بے دریغ استعمال سے گریز نہیں کیا۔

ایوب خان اس سلسلے کی ایک سبق آموز مثال تھے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں انہوں نے امریکی پالیسیوں کے مطابق کمیونزم کے خلاف مذہب کا استعمال کیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ کچھ مذہبی شخصیات کا سہارا لیا گیا، جنہوں نے اشتراکیت کے خلاف فتوے دیے۔ اسی تناظر میں کمیونزم کے خلاف امریکی جنگ کے دوران بعض مذہبی شخصیات کے تعاون سے اس جنگ کوا سلام اور کفر کی جنگ قرار دیا۔ حالانکہ اس جنگ کا کوئی تعلق اسلام یا کفر سے بنتا نہیں تھا۔ اور نہ ہی اسلام اور اشتراکیت کا کوئی براہ راست تصادم یا ٹکراو بنتا تھا۔

پاکستان کے کچھ علما نے اس نقطے کو واضح کرنے کی کوشش کی ، مگر ان کی بات کو مروجہ جنون کے ماحول میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔ ایوب خان نے انتخابات کے دوران بھی مذہبی کارڈ کھیلا۔ انہوں نے فاطمہ جناح کے خلاف بعض نام نہاد علما سے فتوے دلوائیے، اور عورت کی حکمرانی کے خلاف ان سے تقاریر بھی کروائیں۔اس باب میں پاکستان کے حکمران اشرافیہ کا ریکارڈ اتنا افسوس ناک رہا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو جیسا سیکولر اور ترقی پسند حکمران بھی مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے باز نہ رہ سکا۔ مذہبی طبقات کو خوش کرنے اور خاموش کرانے کے لیے انہوں نے اپنے دور میں کئی ایسے اقدامات کیے، جو براہ راست ان کی پارٹی کے بنیادی نظریات سے متصادم تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان سے پہلے بھی کئی حکمرانوں کا مذہبی کارڈ کھیلا۔ اس عمل کا آغاز شروع میں ہی ہو چکا تھا، جب قائد اعظم کی پالیسیوں سے واضح انحراف کا عمل شروع ہوا۔ حکمران طبقات نے تو مذہب کا استعمال اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے کیا، لیکن ایسی شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کی بھی کمی نہیں ، جنہوں نے اسلام کے تقدس اور سادہ لوح عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ کچھ  نیم مذہبی اور نیم سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور نفاذ شریعت کے نام پر جنرل ضیا جیسے طالع آزماؤں اور آمریت پسندوں کا ساتھ دیا۔ اسلام کے نام پر جہاد اور دہشت گردی میں بھی کئی گروہ اور جماعتیں شامل رہیں ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل موجود ہے، اور وقتاً فوقتا اس کے مظاہر مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔

گزشتہ تین سالوں کے دوران بھی سیاست میں اسلام کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوا۔ ریاست مدینہ اور اسلامی فلاحی ریاست کے تصورات کے نام پر عوام کو سہانے خواب دکھا ئے گئے۔حال ہی میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی اس پارٹی نے یہ روش برقرار کھی ہوئی ہے، اسلام کے نام پر عوام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش اور کوشش جاری ہے۔ مگر نئی حکومت نے اس سلسلہ میں جو اقدامات کیے ہیں، وہ مایوس کن ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر حزب مخا لف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا اندراج ایک افسوسناک عمل ہے، جس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کے بڑے درد ناک واقعات ہوتے رہے ہیں۔ عام طور پر ان واقعات کی بنیاد مذہبی منافرت اور فرقہ واریت رہی ہے۔ یا پھر کبھی کبھار ذا تی دشمنی اور مفادات کی بنیاد پر بھی کچھ جھوٹے مقدمات قائم ہوئیے ہیں۔ مگر سیاسی سطح پر اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی مخالفین کے خلاف اس قانون کی استعمال کی یہ پہلی مثال ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور انتقامی سیاست کا اظہار ہے۔ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی اس روایت کو آگے بڑھانے کے بجائے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.