اسٹڈی سرکل اور تنقیدی شعور

پائندخان خروٹی

معاشرے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں، ادبی اکیڈمیز اور علمی مراکز کی موجودگی کے باوجود اگر ہمارے ابھرتے ہوئے انٹلیکچولز اپنی علمی تشنگی اور فکری رہنمائی کیلئے اسٹڈی سرکل کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے ہیں تو یہ مندرجہ بالا اداروں اور مراکز کے وجود اور فراہم کردہ فنڈز پر نہ صرف ایک بہت بڑا سوال ہے بلکہ یہ ہمارے سماج میں پائے جانے والے ایک بہت بڑے فکری بحران کی نشاندہی بھی ہے۔ کسی بھی بحران اور تعطل کو نافذالعمل نظام کے تناظر میں بہتر طور پر سمجھا اور جانچا جا سکتا ہے۔

بہرحال آج ہمارا موضوع تعلیمی اداروں اور علمی و تحقیقی مراکز کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور نوجوان نسل کی ان پر بےاعتمادی نہیں ہے بلکہ آپ کے زیر مطالعہ اس چھوٹی سی کاوش کا مقصد معاشرے میں اسٹڈی سرکل کی ضرورت اور افادیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یقیناً اسٹڈی سرکل سے متعلق تلاش اور جستجو کے جذبے سے سرشار بعض لوگوں کے اذہان میں یہ سوالات ابھرتے ہوں گے کہ اسٹڈی سرکل کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کورم، دورانیہ اور طریقہ کار کیا ہے؟ دنیا میں باقاعدہ جدید اسٹڈی سرکل کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ ڈائیلاگ کے عمل میں پورے سماج کو مشغول رکھنے، لوگوں کو اظہار ذات کے مواقع فراہم کرانے، نوجوانوں کی خوابیدہ صلاحیتوں اجاگر کرنے، نیا سوال اٹھانے کی جرآت دینے اور تنقیدی شعور کو فروغ دینے میں اسٹڈی سرکل کتنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ ۔

یہ بات بھی دلچسپی کے باعث ہے کہ سردست پوری دنیا کے کس ملک میں سب سے زیادہ اسٹڈی سرکلز منعقد کرنے کا رحجان عام ہے؟ اس کے علاوہ اسٹڈی سرکل کے انعقاد کے علمی، سیاسی اور تحقیقی سطح پر کیا فوائد ہیں؟ اور کس طرح ہم اسٹڈی سرکل کے ذریعے اپنے جوانوں کا کتاب کے ساتھ تعلق پیدا کرکے ان کو صاحب کتاب بنانے کیلئے راہ ہموار کر سکتے ہیں؟ ذہن نشین رہے کہ اسٹڈی سرکل میں سرکاری نصاب اور مذہبی مدارس کا کورس نہیں پڑھایا جاتا جہاں سوال، تنقید، انکار اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اسٹڈی سرکل میں استاد اور شاگرد کا روایتی طریقہ کار بھی اختیار نہیں کیا جاتا جس میں استاد پر تنقید یا ان کے لیکچر کا تنقیدی جائزہ لینے کو شاگرد کی بدتمیزی اور نافرمانی سے تعبیر کی جاتا ہے۔ علمی مکالمہ اور فکری نشستوں میں حصہ لینے والے سیکھتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی۔ یہاں ہر شخص بیک وقت استاد اور شاگرد دونوں کا کردار ادا کرتا ہے۔ ماسٹرجی کے ڈنڈے ہانکنا نہیں ہوتا بلکہ ایک سہولت کار کے ذریعے سب کی رضاکارانہ شرکت و شمولیت کو یقینی بنا کر سلسلہ کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا جاتا ہے۔

آزادانہ مکالموں کو رواج دیکر ہی احساس قبولیت، نظم وضبط، بردباری، اختلاف رائے کا احترام اور بالخصوص حُب دانش کے اوصاف پروان چڑھ سکتے ہیں۔ اسٹڈی سرکل میں تمام شرکاء ٹیبل فتح کرنے کی بجائے کچھ سیکھنے کی غرض سے متحرک رہتے ہیں۔ علم ومعلومات کی ترسیل میں کسی کو نفسیاتی طور نیچا دکھانے کی بجائے پیش کی گئی دلیل کے مقابلے میں نئی دلیل قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بحث میں دوسروں کے حوالے دینے سے اپنی ذاتی رائے پیش کرنے کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ میرے لئے ڈائیلاگ کے نتیجے میں شرکاء کی جانی بوجھی باتوں سے زیادہ ان سنی اور ان کہی باتوں کی تلاش میں لگ جانے کا پہلو پسند ہے۔

یہ بات ہم سب پر عیاں ہے کہ انسانی عقل کی بالادستی کو یقینی بنانے اور خرافات وتوہمات سے نجات حاصل کرنے کیلئے معاشرے میں علمی مکالمہ، تنقیدی مباحثہ اور شعوری مجادلہ کی افزائش ضروری ہے تاکہ تمام علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں معقول دلائل، ٹھوس شواہد، تنقیدی شعور، نئے سوال اٹھانے کی جرآت، درست تفہیم اور صحیح سمت اختیار کرنے کیلئے راہ ہموار ہوسکے۔ پچھلے کئی عشروں سے ہمارا پورا خطہ مذہبی جنونیت، ثقافتی گھٹن، دہشت و وحشت پر مبنی ذہنیت اور معاشی استحصالی کی لپیٹ میں ہے لہٰذا سماج میں ڈائیلاگ کے فروغ اور لاجک اور ارگومینٹیشن کو لوگوں کے رویوں کا لازمی حصہ بنانے کیلئے آزادانہ بحث و تمحیص کی عمومی فضاء کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔

اندھی تقلید اور بےجا تکرار سے بچنے کا واحد حل پورے سماج کو سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت اور ڈائیلاگ اینڈ ڈیبیٹ کا ماحول مہیا کرنے میں ہے۔ اس سلسلے میں کریٹکل گروپ ڈسکشن پچھلے کئی سالوں سے نوجوانوں میں مثبت، تعمیری اور تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے میں فعال کردار ادا کرتا ارہا ہے۔ نوجوانوں کو اپنی قابلیت منوانے کیلئے ایک کھلا پبلک پلٹ فارم فراہم کیا ہے جس نے اب تک تقریباً دو سو کے قریب سٹڈی سرکلز منعقد کیے ہیں۔

عرصہ دراز سے یہ سٹڈی سرکل کوئٹہ کے ایک عام سے ہوٹل کے باہر ایک بڑے توت کے درخت کے نیچے باقاعدگی سے منعقد ہوتا آرہا ہے۔ اس کا اہم مقصد نوجوانوں کو صحتمند سرگرمیوں خاص طور سے علمی، سیاسی اور ادبی مباحث میں شریک کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ہم نوجوانوں کو محض مستقبل کا معمار تصور نہیں کرتے بلکہ انھیں حال میں سرگرم اور متعلق بنانا چاہتے ہیں۔ پروفیشنل کونسلنگ اور مقابلے کے امتحانات کی تیاری کیلئے بھی ان کو مدد اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ ان شعبوں سے متعلق مواد نصابی کتابوں کے مقابلے میں نصاب سے باہر کتب میں کئی گنا زاہد ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی فکری اور علمی نشوونما میں غیر روایتی جدید علوم کو زیر بحث لانا زیادہ مفید ہوتا ہے اور کریٹکل گروپ ڈسکشن اس جانب خصوصی توجہ دے رہا ہے۔

اس کے علاوہ آج کل مطالعہ کی نسبت مشاہدہ، تقلید کی بجائے تنقید اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے لینے کی بجائے فلسفہ تشکیک کے اظہار کو زیادہ معتبر سجھا جاتا ہے۔ مذکورہ سٹڈی گروپ میں شریک ہونے اور دلچسپی لینے والے متعدد ایسی افراد ہیں جو مختلف زبانوں میں ادب پارے تیار کر رہے ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں صوبے کے مختلف علاقوں میں روشن فکر اور ترقی پسند افراد بھی سی جی ڈی گروپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قریہ قریہ نوجوانوں کو اکٹھا کرنے، انھیں صحت مند سرگرمیوں کی طرف متوجہ کرنے اور علمی و سیاسی مباحث کو فروغ دینے کیلئے از خود پیش قدمی کریں۔ اس ضمن میں سی جی ڈی کا باشعور ارکان اپنے علم و تجربے کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں ۔

معاشرے کا سب سے فعال، توانائی اور خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کو علمی اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف اور مشغول رکھنے کی ہر کوشش لائق تحسین ہے اس ضمن میں سنجیدہ اور فہمیدہ افراد اپنی شعوری کاوشوں سے نئے تنقیدی اور تخلیقی ذہنوں کو پیدا کر سکتے ہیں۔مذہبی جنونیت، خرافات اور توہمات کا مکمل خاتمہ آزادانہ ڈائیلاگ کو فروغ دینے اور سائنسی طرز فکر اختیار کرنے سے مشروط ہے۔ پشتون معاشرے میں علمی مکالمہ، سیاسی شعور اور صحافتی مشن کے حوالے سے پیر رومان سے لیکر پشتو ادب کے بابائے تنقید کاکاجی صنوبرحسین مومند تک، باچاخان سے لیکر خان شهید عبدالصمد خان اچکزئی تک اور ویش زلمیان سے لیکر خلقی قائدین تک ہمارے لئے مثال بھی ہیں اور مشعل بھی۔

دنیا میں جدید سیاسی اسٹڈی سرکل کی بنیاد رکھنے کا اعزاز انقلابی قائد جوزیف اسٹالن کو حاصل ہے جو بالشویک انقلاب کے برپا ہونے کے بعد ہر سیاسی تنظیم کا لازمی جز بن گیا۔ اس کے علاوہ دیگر علمی اور سیاسی شخصیات کے ترقی پسند افکار اور خیالات سے بھی بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ سٹڈی سرکلز منعقد کرنے کا رحجان براعظم یورپ کے ملک سویڈن میں پایا جاتا ہے اور ایسے سٹڈی گروپوں سے بجٹ سازی اور دیگر اہم پالیسی معاملات میں مدد بھی لی جاتی ہے۔

Comments are closed.