بلوچستان کے محنت کش نظر انداز کیوں؟

پائندخان خروٹی

عرصہ دراز سے بین الاقوامی اور قومی سطح پر مزدوروں اور کسانوں کے حقوق، اختیارات اور مطالبات کے حوالے سے جانکاری میں میری ذاتی دلچسپی رہتی ہے اور یہاں قومی اور صوبائی سطح پر مزدوروں کے حقوق واختیارات کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی شعوری کوشش کرتا آرہا ہوں۔ اپنی تحریروں اور تقریروں میں پرولتاری غلبہ قائم کرنے کیلئے نئی امیدیں بھی جگاتا رہتا ہوں اس کے باوجود میں بلوچستان کے مزدوروں، ماہی گیروں، مالداروں اور کسانوں سے متعلق منعقدہ پروگراموں اور ریلیوں سے مطمئن ہرگز نہیں ہوں۔

میرا ذاتی مشاہدہ و تجربہ رہا ہے کہ محنت کشوں اور سرمایہ کاروں سے متعلق جب اور جدھر بھی پروگرام یا سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے اس میں پرانے اور نئے سوالات تو اٹھائے جاتے ہیں مگر مناسب اور معقول جوابات دیئے بغیر پروگرام اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ زیارکشوں کی انتھک محنت کو تو لائقِ تحسین قرار دیا جاتا ہے مگر بہت غیرمحسوس انداز میں ان کی محنت کے بدلے ذلت اٹھانے پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ محنت کشوں کو عزت کی روٹی کمانے کے مواقع فراہم کرنے پر اتفاق تو کیا جاتا ہے مگر عزت کے بدلے بےعزتی سے بچانے کیلئے کوئی جامع حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی۔

سرکار اور سرمایہ کار کو تو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر ٹھیکیدار اور مزدور یونین لیڈرز کی خفیہ ڈیل کو پھر شعوری طور پر چھپایا جاتا ہے۔ محنت کشوں سے اور زیادہ کام لینے کیلئے جدید مشینری کو تو زیر بحث لائی جاتی ہے مگر معاشی خودمختاری کی پاسداری کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی۔ سرکار اور سرمایہ کار سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کی اپیل تو کی جاتی ہے مگر اقوام متحدہ اور دیگر انٹرنیشنل اداروں سے بلوچستان کے محنت کشوں کی حالت زار بہتر بنانے کے حوالے سے خصوصی تعاون اور مالی معاونت حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں معدنیات، زراعت، فِشریز اور لائیو سٹاک کے شعبوں سے وابستہ، مزدوروں، کسانوں، ماہی گیروں اور مالداروں کو درپیش مسائل ومشکلات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کی آسودہ معاشی زندگی کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کیلئے سرکار، سرمایہ کار، ٹھیکیدار اور یونین لیڈر کی ذمہ داریوں کو علیحدہ علیحدہ پرکھنا اور جانچنا ہوگا تاکہ مزدوروں کے حقوق کی پامالی واضح ہو سکیں۔ بلوچستان کے محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری، جدید تربیت کی فراہمی اور مالی معاونت کے فقدان کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں پر بھی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس طرح ہم استحصال سے پاک معاشرہ کی تشکیل دینے کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

پولیٹکل اکانومی کے اہمیت اور ارتقاء کی مناسبت سے یہ بات سمجھنا اور اس کا اطلاق کرنا ضروری ہے ک سرمایہ دارانہ نظام بیک وقت انقلابی بھی ہے اور استحصالی بھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عوام دوست انقلابی کردار کو بڑھانے اور تقسیم کے اعتبار سے استحصالی پہلو کو کم کرنے کے حوالے سے مارکسی دانشوروں کی رہنمائی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ بہرحال فرسودہ قبائلی و جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور خرافات وتوہمات سے نجات حاصل کرنے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کا برپا ہونا اولین شرط ہے۔

دنیا میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور خاص طور پر بلوچستان میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک گرنے کے باعث زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بلوچستان کا معاشی مستقبل مائنز اینڈ منرلز، بارڈرٹریڈ اور فشریز سے منسلک ہے۔ سردست سرکار اور سیاسی تنظیموں کی ذمہ داری ہے وہ صنعتکاروں اور تاجروں کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کریں، جدید کارخانوں اور صنعتوں کے قیام میں ان کو تعاون فراہم کریں۔ مستقبل کے تقاضوں اور انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک وصوبے میں تجارتی و صنعتی ترقی اور لوگوں کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کی بھرپور حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت ہی تمام سرمایہ کاروں کو ہر قسم کے جانی و مالی آئینی تحفظ کا ضامن ہے۔

واضح رہے کہ حکومت ہی قانون کے ذریعے سرمایہ کاروں کو مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کا پابند بنانے کا ذمہ دار ہے۔ ان انتظامات کے نتیجے میں ہم بلوچستان میں بھی مجموعی طور پر معیار زندگی بلند کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور دھیرے دھیرے زیارکش طبقہ کی دن رات انتھک محنت سے قومی پیداوار میں اضافہ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ سوچ کو بدلو ستارے بدل جائیں گے نظر کو بدلو نظارے بدل جائیں گے کشتیاں بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نشاوں کو بدلو گے تو کنارے بدل جائیں گے۔

بلوچستان کے محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری، وسائل و معدنیات میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار مزدوروں کو سرکار کی طرف سے مقرر کردہ تنخواہ، حفاظتی انتظامات، رہائش اور علاج معالجہ کی دیگر ضروری سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں مگر بدبختانہ مزدوروں کے حقوق کی فراہمی میں سرکار اور سرمایہ کار بری طرح ناکام ہیں۔ جس کی وجہ سے صوبہ بھر کا محنت کش طبقہ اس وقت گوں نا گوں مشکلات سے دوچار ہے۔ مقرر کردہ رقم، مناسب تربیت، حفاظتی انتظامات اور ضروری سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے محنت کش سخت معاشی تنگدستی کا شکار ہے۔معاشی بدحالی کے حوالے سے کوئلے کے مزدور اور ماہی گیر سرفہرست ہیں۔ ہر سال کوئلے کے سینکڑوں مزدور بدانتظامی اور حفاظتی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ مزدوروں یا مزدور تنظیموں پر ٹھیکیداری اور جمعداری نظام کو مسلط کرنے سے مزدوروں کے استحصال کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مائنز اینڈ منرلز بالخصوص کول مائنز کے مالکان پورے سال میں ایک دفعہ بھی مائن پر جانے کی زحمت نہیں کرتے۔ ٹھیکیدار، پیٹی ٹھیکیدار، جمعدار اور یونین لیڈر کی باہمی کشمکش میں نقصان مزدور ہی کا ہوتا ہے۔ میرے لیے اس بات کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہے کہ مزدور لیڈرز مزدوروں کیلئے کام کرتے کرتے سرمایہ دار کیوں اور کیسے بن جاتے ہیں؟ اکثر اوقات مزدور رہنماء نظریاتی اور تنظیمی جدوجہد کی بجائے مصلحتوں، مفاہمتوں اور سمجھوتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

عام طور پر مزدور لیڈرز مزدوروں کو استحصال سے چھٹکارا دلانے کی بجائے وہ خود استحصالی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ شاندار ہوٹلوں اور عالیشان عمارتوں میں مزدوروں، کسانوں، مالداروں اور ماہی گیروں کے نام پر رنگین مخلوط پروگراموں کے انعقاد پر خصوصی انعامات و مراعات وصول کرتے ہیں۔ مزدوروں کے کندھوں کو سیڑھی بنا کر نیشنل اور انٹرنیشنل دوروں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ یونین لیڈرز کی طرح نام نہاد لیفٹیسٹوں اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز بھی لوگوں کی کم علمی سے اسطرح اکرامات اور مراعات بٹورتے ہیں ۔

معاشرے کی عظیم اکثریت کی تمام معاشی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت اور شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں انقلابی جدوجہد کرنی ہوگی مگر بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہی سب سے اہم مسئلہ رہا ہے جس نے روز اول سے پاکستان کے عام آدمی کو امور مملکت اور حکومت سے دور رکھا ہے۔ غیرسنجیدگی، لاپرواہی اور مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی یہ حالت ہے کہ بلوچستان میں کسی کے ساتھ مائنز اینڈ منرلز، کوئلہ اور ماہی گیری کے شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی درست اور قابل اعتماد معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

یہ بات تحقیق طلب اور توجہ طلب ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں انتہائی چالاکی سے پورے ملک کے مزدوروں کی مرکزیت کو ختم ان کو مزید کمزور کر دیا۔ کسی سیاسی یا مزدور تنظیم نے بروقت اسکی نشاندہی نہیں کی۔ دنیا بھر کے مزدور نظریاتی بنیادوں پر بھائی بھائی ہیں۔ مزدور کو مذہب، نسل، جغرافیہ اور صوبہ کے نام پر تقسیم کرنا، مزدور یونین پر پابندی لگانا اور ان کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنا سراسر زیادتی ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے دورافتادہ علاقوں میں خاص کر مزدور، کاشتکار اور پشتون بلوچ خانہ بدوش قبائل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر حکومتی ذرائع سے فراہم کی جانے والی مالی معاونت سے بھی محروم ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ نادرا ان کے تمام ضروری ڈاکومنٹس تیار کرانے میں ان کی خصوصی مدد اور رہنمائی فراہم کریں۔ یہ پیغام قومی اور بین الاقوامی سیاست و معیشت پر مسلط سامراجی و استحصالی عناصر تک پہنچانا ضروری ہے کہ جب زیارکش طبقہ جاگتا ہے تو تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے۔ جب اور جدھر ظلم و استحصال بڑھتا ہے تو انقلاب فرانس، بالشویک انقلاب اور افغان ثور انقلاب کا دیا ہوا درس بھی دہرایا جاتا ہے۔ پھر وہ زبان زبان نہیں رہتی جو جابر حکمران کے سامنے حق گوئی نہ کریں، وہ سر سر نہیں رہتا جو اپنے جیسے دوسرے انسان کی دہلیز پر جھکتا ہے اور وہ ہاتھ چومنے کی بجائے خاردار تار سے باندھے جاتے ہیں جو استحصال اور بےانصافی کے خلاف نہیں اٹھتے لہٰذا تمام اہل زر و زور کو یہ پیغام ہے کہ سدھر جاو ورنہ ظلم و استحصال کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے شش محل کو زمین بوس سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

مقدس ناموں، خوش نما نعروں اور روایتی چوغوں میں ملبوس استحصالی عناصر کو بےنقاب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ انسان تاریخ گواہ ہے کہ ارتقاء و ترقی کے پُرخار اور پُرخطر سفر میں دنیا کی تعمیر و تخلیق محنت کش طبقہ کی محنت، خدمت اور قربانی کے باعث ہے۔ معیشت کا پہیہ محنت کشوں کے خون اور پسینہ سے ہی رواں دواں ہے۔ مائنز آنرز مزدوروں کے بغیر اپنے سرمایہ میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں گل باچا الفت نے بجا فرمایا ہے کہ معاشرے کے تمام سرمایہ دار اور جاگیردار دراصل تمام کسانوں اور زیارکشوں کے قرض دار ہیں۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ قرضہ اپنی مرضی سے دیتے ہیں یا محنت کش ان کے ہاتھ مروڑ کر واپس ان سے چھینتے ہیں۔۔۔؟


Comments are closed.