کیا سوشل میڈیا انتہا پسندی پھیلا رہا ہے؟

بیرسٹر حمید باشانی

سوشل میڈیا ایک تحفہ ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے آواز لوگوں کی توانا آواز بنتا جا رہا ہے۔ یہ ایک عظیم نعمت ہے۔ لیکن بعض حالات میں یہ نعمت ایسے خوفناک نتائج دے رہی ہے، جس کی توقع کوئی نہیں کر رہا تھا۔ یہ حالات وہ ہیں، جن میں سوشل میڈیا دائیں بازو کی انتہا پسندی کے ہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار بن کر سامنے آیا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور رجعت پسندی میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ یہ دنیا کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں بھی ہوا ہے، جن میں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک شامل ہیں۔

امریکہ پوری دنیا میں انتہا پسندی کے خلاف اگلے مورچے پر لڑائی لڑنے کا دعوے دار ہے۔ اس مقصد کے لیے ناصرف امریکہ کی طرف سے تقاریر اور اعلانات ہوتے ہیں۔ بلکہ گاہے ارباب اختیار عملی ااقدامات بھی اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان اقدامات میں عالمی سطح پر انتہا پسندی اور د ہشت گردی کو روکنے کے لیے فنڈز مختص کرنے سے لیکر کئی ممالک میں فوجی مداخلت تک کے اقدامات شامل ہیں۔

دوسری طرف بہت سارے امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ خود امریکی معاشرے میں انتہا پسندی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، اور اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو انتہا پسندی عام دھارے کی سیاست میں غالب حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔

حال ہی میں ایک امریکی دانشور سنتھیا ملر نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو امریکی ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ وہ اس سے پہلے اپنے دیس میں نفرتکے عنوان سے نئے عالمی دائیں بازو کی سیاست پر ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔ سنتھیا ملر لکھتی ہیں کہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ مہینوں پہلے اور بعد میں، لاکھوں امریکیوں نے غلط معلومات کے آن لائن سیلاب سے متاثر ہو کر جھوٹ پر مبنی رائے قائم کی۔ اس جھوٹ میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جانے والایہ جھوٹ بھی شامل ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر فراڈ کے ذریعے جو بائیڈن نے یہ انتخابات چوری کرلیے ورنہ صدر بننا ڈونلڈ ٹرمپ کا حق تھا۔

چھ جنوری 2021 کو، اس دھوکے اور فریب پر یقین رکھنے والے ہزاروں ٹرمپ کے حامیوں نے بائیڈن کی فتح کو روکنے کے ارادے سے امریکی دارالحکومت پر حملہ کیا، اور دارلحکومت کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ اہم رجحانات کی عکاسی کرتا ہے، جو آنے والے سالوں میں امریکی سیاست کی تشکیل کرتے رہیں گے۔ پہلا رحجان دائیں بازو کی انتہا پسندی کو مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ فسادیوں کی اکثریت اب تک عام امریکیوں کی تھی، جنہوں نے حال ہی میں بنیاد پرست نظریات کو اپنایا تھا۔ان کی طرف سے سیاسی تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی نظریہ یا مخصوص گروہوں کے ساتھ وابستگی نہیں تھی، بلکہ اس کی بجائے ایک پروپیگنڈہ مہم تھی، جس نے دائیں بازو کی سیاست کے مکمل طور پر لپیٹ میں لے لیا تھا۔

اس مہم مہں ریپبلکن منتخب عہدیداروں، ممتاز قدامت پسند مبصرین، سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے افراد،بنیاد پرست تنظیموں اور انتہائی دائیں بازو کے میڈیا  گروپوں نے حصہ لیا تھا۔ ٹرمپ کے عروج سے پہلے ہی، یہ قوتیں برسوں سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر طاقت حاصل کر رہی تھیں ۔ گیارہ ستمبر کے بعد کا دور دائیں بازو کے انتہا پسند لوگوں کے لیے زرخیز تھا، جب قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس سروسز نے تقریباً صرف جہادی خطرے پر توجہ مرکوز کی تھی۔ جبکہ اس سے فائدہ اٹھا کر مسلم دہشت گردوں کا خوف،سفید فام بالادستی کے حامی اور عیسائی قوم پرستوں کے ہاتھ میں ایک طاقت ور ہتھیار بن گیا تھا۔

ٹرمپ نے اپنی2016 کی انتخابی مہم میں بھی ان چیزوں کا فائدہ اٹھایا تھا۔ ان کے اقتدار میں آنے تک، ایسے خیالات جو طویل عرصے سے امریکی معاشرے کے کونوں کھدروں تک محدود تھے،وہ ملک کے سیاسی نظام میں تیزی سے مرکزی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ انتہا پسندی کو مرکزی دھارے میں آنے کے بعد انتہا پسند گروہوں اور نظریات کو تقویت ملی۔ایسا صرف 2020 کےانتخابات کے بارے میں غلط معلومات کی بدولت نہیں ہوا، بلکہ وبائی امراض اور بلیک لائیوز میٹر کے مظاہروں سے پیدا ہونے والی پولرائزیشن کا بھی اس میں بہت بڑا کردار تھا۔

چھ جنوری کے وہ فسادی جن کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے قابل شناخت گروپوں سے تھا، عجیب و غریب اتحاد قائم کرنے کے عادی ہو چکے تھے، ان میں سازشی تھیورسٹ ، ویکسین کے مخالف صحت مندیکے حامی، ماسک مینڈیٹ کے مخالف آزادی پسند، بندوق رکھنے کے حق کے حامی احتجاج کرنے والے اور امریکہ کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام کے پرتشدد خاتمے کی کوشش کرنے والے لوگ شامل تھے۔ امریکہ کی سیاسی و سماجی زندگی میں یہ ایک نئی حقیقت ہے۔ حکمرانوں کے لیے اس نئی حقیقت کو قبول کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی مرکزی دھارے میں آگئی ہے۔ لہذا اس سے نمٹنے کے لیے مرکزی دھارے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

پرتشدد تحریکیں جب مرکزی دھارے میں شامل ہوتی ہیں تو وہ تزویراتی اور نامیاتی دونوں طریقوں سے تبدیل ہوتی ہیں ۔ ایک طرف تبدیلی کا نتیجہ انتہاپسندانہ خیالات کی اپیل کو وسیع کرنے کے لیے ہوتا ہے، جس کوشاید عام حالات میں مرکزی دھارے میں شامل نہ کیا جا سکتا ہو۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب لوگ ایک وسیع اور ہمیشہ پھیلتے آن لائن ماحول کی وجہ سے بنیاد پرستی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

سٹریٹیجک تبدیلیاں عام طور پر وسیع تر سامعین تک پہنچنے اوران کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوششوں سے جڑی ہوتی ہیں،مثال کے طور پر، انتہائی دائیں بازو نے تاریخی طور پر خاندانی نظام کے حوالے سے روایتی اصولوں کا دفاع کیا ہے اور ہم جنس شادی جیسی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے۔ لیکن کچھ انتہائی دائیں بازو کے گروہ اب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو لوگوں کے حقوق بنیادی مغربی اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بنیاد پرست قوم پرستوں نے بھی اپنے ایجنڈے کو نئے سرے سے ترتیب دیا ہے تاکہ ان لوگوں کو متاثر کیا جا سکے جو ماحولیاتی مسائل کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کو یہ دلیل دی جائے کہ سرحدوں کی بندش یا نقل مکانی اور امیگریشن پر پابندی سے سے آلودگی میں کمی آئے گی، اور قلیل وسائل کو محفوظ رکھا جائے گا۔

جب عام افراد ان خیالات کا سامنا کرتے ہیں، چاہےایسا پروپیگنڈے کے ذریعے ہو، سوشل میڈیا کے ذریعے ہو یا نچلی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے، وہ انہیں اپنے ذاتی عقائد کے نظام میں شامل کر لیتے ہیں۔ یہ بنیاد پرستی کے روایتی ماڈلز سے ہٹ کر بات ہے جس میں لوگ بتدریج ایک قابل شناخت گروپ کے نظریاتی فریم ورک کو اپناتے ہیں — جیسے کہ فاشزم یا نیو نازی ازم کی شکل میں ہوا تھا، جو مشترکہ دشمن کے خلاف پرتشدد حل کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان مربوط اقدامات میں ابتدائی رسومات، منشور، رہنما، اور حکم کا ایک سلسلہ شامل ہے جو عقائد اور اعمال کی رہنمائی کرتا ہے۔

لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو انہتا پسند گروہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ سیاسی اور مذہبی گروہوں کی طرف سے ایسا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے زریعے جھوٹ یا آدھے سچ پر مبنی معلومات پھیلا کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں قصور سوشل میڈیا کا نہیں بلکہ ان قوتوں کا ہے، جو اس کے غلط اور گمراہ کن استعمال پر بضد ہیں۔

Comments are closed.