چانکیہ کون تھا؟

لیا قت علی

چانکیہ چار صدیاں قبل از مسیح کا ایک بڑا استاد، سیاسی اور حربی حکمت عملی کا ماہر،اکنامسٹ اور ماہر قانون تھا۔اس نے اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئےارتھ شاستر جیسی لکھی تھی جسے پولٹیکل سائنس پر اپنے عہد کی عظیم ترین کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ وہ تکشیلا یونیورسٹی ( ٹیکسلا) میں استاد تھا۔ اسے موریہ سلطنت کا ریاستی نظریہ داں کہا جاتا ہے۔

تکشیلا یونیورسٹی میں اُس دور میں 63 کے قریب مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں وید، فلکیات، فلسفہ،جراحی موسیقی اور اورپولٹیکل سائنس شامل تھے۔ چانکیہ کو کوٹلیہ اور وشنو گپتا بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستان کا قیام چونکہ اس خطے کے ماضی کی نفی کرکے قائم ہوا تھا اس لئے ہر وہ شخصیت اور تہذیبی و ثقافتی عنصر جس کا تعلق کمپوزٹ کلچر سے تھا اس کو نہ صرف مسترد کردیا گیا بلکہ اس کی موقع بموقع مذمت بھی کی گئی۔ یہی وہ طرز عمل تھا جس کی بنا پر پاکستان کو شدید شناختی بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پاکستان کا دانشور اپنے ارد گرد ہر چیز کو اسلام اور مسلمان کی نظر سے شناخت کرنےاور اسے معنی دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے وہ تاریخی تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے محروم ہوکر اپنی شناخت کھودیتا ہے اور ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے۔

چانکیہ کو پاکستان میں مجسم دھوکہ دہی فریب جھوٹ اور کمینگی ثابت کیا جاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چانکیہ کی شخصیت اور اس کے نظریات کا اس کے عہد کی سیاست،معاشرت اور ثقافت کے تناظر مین مطالعہ اور جائزہ لیا جاتا ہے لیکن ہمارےہاں اسے ہندو مہاسبھا کا نظریہ داں بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

چانکیہ کی سیاست اور طرز حکمرانی بارے کتاب ارتھ شاستر کا اردو ترجمہ تو ہوا لیکن اس کو ایک گھٹیا کتاب کے طورپر پیش کیا گیا۔ مترجم نے ارتھ شاستر کے ترجمے پر جو طویل دیباچہ لکھا اس میں دنیا کی ہربرائی چانکیہ کے سر تھوپ دی تھی۔

چانکیہ بارے ہمارے ہاں علمی کام بالکل نہیں ہوا اور اگر کچھ ہوا ہے تو اس کا معیار انتہائی سطحی ہے جس کی مثال یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(بنوں کے پی کے) اور سرگودھا یونیورسٹی(لاہور کیمس)سے وابستہ ڈاکٹر عبدالقدوس اور ڈاکٹر شمس العارفین کا مشترکہ ریسرچورک ہے جس کا عنوان ہے: تصور برداشت عظیم دانشور کوٹلیہ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقابلی جائزہ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوٹلیہ تو ظہور اسلام سے سینکڑوں سال قبل پیدا ہوا تھا اور اس نے قبل از مسیح اپنے نظریات کو مرتب کیا تھا اس کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تقابلی جائزے کا کیا تک بنتا ہے۔ یہ تقابل سرے سے بے بنیاد اور سطحی ہے لیکن ہمارے ہاں ہر علمی کام میں مذہب کا حوالہ ضروری ہے۔ لہذا ایک شخصیت جو اسلام سے بھی سینکڑوں سال قبل کے دور سے تعلق رکھتی ہے اس کو بھی مشرف بہ اسلامکرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔

Comments are closed.