پاکستان میں اقوام متحدہ کی اہلکار سے سکیورٹی گارڈ کی مبینہ جنسی زیادتی

اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی ایک سویڈش خاتون کو مبینہ طور پر ان کے سکیورٹی گارڈ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا۔

پولیس اہلکار منیر احمد کا نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مبینہ جنسی زیادتی کا یہ واقعہ سویڈش خاتون کی رہائش گاہ پر پیش آیا۔ اس خاتون نے اپنے بیان میں کہا، سکیورٹی گارڈ رات کو میرے بیڈ روم میں داخل ہوا، اس نے میرا سانس بند کرنے کی کوشش کی، جس سے میں بے ہوش ہو گئی اور پھر اس نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘۔

اس کیس کی تفتیش کرنے والے افسر عظمت بھٹی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی گارڈ فرار ہو چکا ہے اور اسے پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے جنسی جرائم کے خصوصی تحقیقاتی یونٹ‘ (ایس ایس او آئی یو) کے افسران کے مطابق سویڈش خاتون نے رواں برس جنوری میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا اور وہ اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر ہے۔

اقوام متحدہ کی متعلقہ ایجنسی اور اسلام آباد میں واقع سویڈن کے سفارت خانے نے اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

سویڈن کی اس خاتون کی جانب سے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ الزام ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ایک ہفتہ قبل ہی ایک پاکستانی خاتون کو ایک ٹرین کے عملے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پاکستان بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ ایسے واقعات اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان میں 14 ہزار سے زائد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے لیکن سزائیں صرف تین فیصد کیسز میں ہی سنائی گئیں۔ پاکستان کا عدالتی اور تفتیشی نظام انتہائی کمزور ہیں، جن کی وجہ سے زیادہ تر ملزمان سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نیشنل بیورو آف پولیس کے ایک بیان کے مطابق جنسی زیادتی کے یہ واقعات اصل میں کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر کیسز پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ پاکستان میں عمومی معاشرتی رویہ بھی ایسا ہے کہ ایسے کیسز میں عزت کے نام‘ پر خواتین کو خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

پاکستانی پارلیمان نے گزشتہ برس ہی ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت جنسی زیادتی کے کچھ کیسز میں ملزمان کو کیمیائی طریقے سے نامرد بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن اس سخت قانون سازی کے باوجود حالات میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ یہ قانون اس واقعے کے بعد منظور کیا گیا تھا، جب موٹروے پر ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

dw.com/urdu

Comments are closed.