آزاد سوچ اور اظہار کے حق پر حملہ

بیرسٹر حمید باشانی

جناب ایاز امیر پر حملہ افسوسناک ہے۔ یہ پاکستان میں آزاد سوچ رکھنے والے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے طویل سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ یہ عقل، دانش اور اظہار رائے کے حق پر حملہ ہے۔ یہ حملہ اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ اس سماج میں سچ کا اظہار آج بھی بہت بڑا چیلنج ہے، اور سچ بولنے والا غیر محفوظ ہے۔

 اظہار کی آزادی کے سوال پر پاکستان کا آئین بلکہ واضح ہے۔ یہ آئین اظہار کی آزادی کی ضما نت دیتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر شہری کو اظہار اور تقریر کی آزادی ہے۔ آئین میں پریس کی آزاد ی کی بھی ضمانت ہے۔ گو کہ یہ آزادی چند ایک باتوں سے مشروط ہے۔ ان میں کوئی ایسا بیان، جو اسلام کی عظمت یا پاکستان کی سالمیت و تحفظ کے خلاف ہو، ایسی بات جس کے اظہار سے کسی دوسری ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہو، کوئی ایسا بیان جس سے امن عامہ میں خلل پڑتا ہو، کوئی بات جو عام اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف ہو، ایسی بات جس سے توہین عدالت ہوتی ہو، یا کسی کو کسی جرم کے ارتکاب کے لیے اکسایا گیا ہو۔

ان چند باتوں کے علاوہ ایک شہری کو اپنی ہر بات کہنے سننے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے ۔ اظہار رائے کے باب میں آئین پاکستان کے اس دفعہ انیس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ملک کا ہر شہری اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ وہ یہ اظہار تحریر و تقریر، پیٹینگ، اشارے کنائے سمیت ہر ذریعے سے کر سکتا ہے۔ اس اظہار کے حق پر صرف وہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جو معقول ہوں، اور قانون کے مطابق ہوں۔اور ارباب اختیار قانون و انصاف کی عدالت میں اس پابندی کی جوا زیت ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔

اگر صرف آئین میں جو لکھا ہے اس کو دیکھا جائے تو پاکستان کے شہریوں کو بظاہر اظہار کے باب میں تقریباً وہی حقوق حاصل ہیں، جو دنیا کی مستند اور مسلمہ جمہو ریتوں کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے باب میں کینیڈا امریکہ، آسٹریلیا، جیسے ممالک کے آئین میں بھی اسی طرح کے الفاظ شامل ہیں، اور حکومتوں اور ریاستوں کا ان حقوق پر پابندی کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ جب پابندی معقول ہو، اور اس کی معقولیت کو کسی عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہو۔ ان ممالک کے آئین میں البتہ ملکی سلامتی ، سالمیت، توہین عدالت اور مذہبی عظمت کے الفاظ شامل نہیں ہیں، بلکہ اس کی جگہ ایسی پابندی کا ذکر ہے، جو معقول ہوں اور اسے عدالت میں جائز ثابت کیا جا سکتا ہو۔

مگر اس قصے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ آئین میں کیا لکھا ہے۔ کوئی بھی پارلیمان صرف ایک اجلاس میں دنیا کا بہترین آئین لکھ سکتی ہے۔ بلکہ برطانیہ جیسے قانون و آئین کی حکمرانی والے ملک میں تو تحریری آئین بھی نہیں ہے۔ اصل چیلنج جو کسی حکومت یا ریاست کو در پیش ہوتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے، جس میں اس کے شہری آئین کے تحت حاصل شدہ حقوق کا عملی استعمال کر سکیں۔

اگر کسی ملک کے آئین میں دنیا کی اعلی ترین باتیں لکھی ہوئی ہوں ، لیکن ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو، شہریوں کو اپنی بات کہنے سننے کے لیے مناسب و محفوظ ماحول ہی میسر نہ ہو۔ ملک میں غنڈا گردی اور لا قانونیت کا راج ہو۔ خوف و ہراس کا ماحول ہو۔ اور خیالات کا اظہار کرنے والے شخص کو عملی طور اپنی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ ہو، تو اس صورت میں آئین میں لکھے ہوئے تمام حقوق، خواہ وہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں، اپنے نتائج کے اعتبار سے بےکار ثابت ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے اس وقت یہی صورت حال پاکستان میں مروج ہے۔ اور یہ صرف آج کا المیہ نہیں ہے، بلکہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ملک میں آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے لوگوں کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

اگر اس صورت حال کا دنیا سے تقابل کیا جائے تو سن2020 کی پریس فریڈم انڈکس کے مطابق اظہار رائے کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان ایک سو اسی ملکوں میں سے ایک سو پینتالیس نمبر پر آیا تھا۔ یہ رپورٹ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرزنے تیار کی تھی۔ یہ صحافیوں کی ایک خود ٘مختار عالمی تنظیم ہے، جو سن2002 سے دنیا میں پریس کی آزادی کا ریکارڈ سامنے رکھ کریہ انڈکس بناتی ہے۔ 2020 کی اس رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان کا ماضی کی نسبت پریس کی آزادی کے انڈکس میں مزید نیچے جانے کی کئی ایک وجوہات تھیں۔ ان میں سر فہرست وجہ حالیہ چند برسوں کے دوران حکومت کی طرف سے میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کا عمل تھا۔

میڈیا پر پابندی کا یہ عمل روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہوا، مگر اس کا سب سے سخت اور نمایاں اظہار سوشل میڈیا کے حوالے سے ہوا۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے ایسی قانون سازی کی یا اقدامات کیے جن کی وجہ سے پاکستان میں فریڈم آف پریس کے انڈکس اور فہرست میں اس کا نمبر بہت نیچے چلا گیا، اس بات کا اظہار رپورٹرز ود آوٹ باڈرز کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بار بار اپنی  رپورٹوں  میں بھی کیا۔ لیکن پاکستان میں ارباب اختیار کا رد عمل اس پر بڑا افسوسناک رہا ہے۔ ان رپورٹوں کو غلط قرار دے کر رد کیا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے دورہ نیو یارک کے دوران اس رپورٹ کو مذاق قرار دیا تھا۔

اس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ نیچے جانے کی دوسری وجہ یہ عام الزام تھا کہ پاکستان میں حکومت اشتہارات کو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ اس میں ایسی مثالیں دی گئی، جن میں کئی میڈیا ہاوسز کو اشتہارات نہ دینے یا اشتہارات بند کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اس رپورٹ کی تیسری وجہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات تھیں۔ عالمی سطح پر ہرا ساں کرنا ایک وسیع اصطلاح ہے، جس میں بہت کچھ آ جاتا ہے۔ یہ طاقت ور لوگوں کی طرف سےایک رویے اور طرز عمل کا نام ہے۔ یہ رویہ کسی شخص سے بد تمیزی کرنے، اسے شرمندہ کرنے یا ذلیل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے کا اظہار بسا اوقات ایسے صحافی کے خلاف دکھائی دیتا ہے، جو سچ بولتا ہے یا طاقت ور لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ 

اس رپورٹ کی ایک وجہ حکومت کا وہ طرز عمل بھی تھا، جو آزاد جرنلزم کے تقاضوں سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ پاکستان کے کچھ صحافیوں کے ساتھ اغوا، تشدد اور ان کے خلاف پرچے درج کرانے یا عدالتوں میں مقدمے دائر کرنے جیسے واقعات بھی رونما ہوئیے ، جن کی وجہ سے مجموعی طور پر پاکستان کی عالمی رینکنگ پر فرق پڑا۔ پاکستان میں ایسے واقعات بھی ہوئے، جن میں صحافیو ں پر حملے یا تشدد کے و ڈیوز موجود ہونے کے باوجود اس عمل میں مصروف لوگوں کو نہ تو گرفتار کیا گیا ، اور نہ ہی ان کو بر وقت قرار واقعی سزا دی گئی۔ ایاز امیر کا واقعہ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ہے۔ یہ ارباب اختیار کی طرف سے قانونی کی حکمرانی کے قیام اور اپنے شہریوں کو اظہار رائے کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے میں ناکامی کی واضح مثال ہے۔

Comments are closed.