بلوچستان ،مسخ شدہ لاشیں اور پاکستانی میڈیا

ذوالفقار علی زلفی

پاکستانی میڈیا نے زیارت میں ہونے والے جعلی مقابلے کو فوجی آپریشن قرار دے کر تمام مقتولین کو عسکریت پسند ظاہر کیا ۔اس قتلِ عام کے خلاف بلوچ ردعمل آیا۔ سردار اختر مینگل نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ زیارت واقعے کی جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کرائی جائے ۔ پاکستانی میڈیا نے اس ردعمل اور سردار اختر مینگل کے مطالبے کا مکمل بلیک آؤٹ کردیا۔ صرف حامد میر نے اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں اختر مینگل کے مطالبے کا ذکر کیا۔

بلوچ نے سوشل میڈیا کو ذریعہِ اظہار بنایا۔ اس دوران کوئٹہ اور گوادر میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے ۔ کوئٹہ میں مظاہرین کو پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستانی میڈیا نے مظاہروں و پولیس تشدد کی خبریں بھی سینسر کردیں ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے جب بلوچ ردعمل کو کوریج دینا شروع کیا تو پاکستانی میڈیا نے باقاعدہ فریق بن کر کاؤنٹر پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا ۔

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا نیٹ ورک “جیو نیوز” نے ایک ویڈیو چلا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زیارت میں فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے سالم بلوچ جبری گمشدہ نہیں بلکہ بی ایل اے کے فعال رکن تھے۔ اسس کے ساتھ ساتھ جیو نے زیارت کے دوسرے مقتول شہزاد دہوار کے قبر کی فوٹیج دکھائی اور اس قبر پر لگے پرچم کو بی ایل اے کا جھنڈا قرار دے کر اپنے تئیں یہ منوانے کی کوشش کی کہ شہزاد دہوار ان کا عسکریت پسند تھا۔ یاد رہے کہ بی ایل اے کی ویڈیو اور شہزاد دہوار کے قبر کی فوٹیج جیو نے آزاد صحافت سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ انہیں پاکستانی فوج کی جانب سے فراہم کی گئی تھی اور اس نے اسے یک طرفہ طور پر چلا دیا۔

ویڈیو میں جس نوجوان کو فائرنگ کرتے دکھا کر سلیم بلوچ قرار دیا گیا ہے اس کا چہرہ واضح نہیں ہے ۔ اب کوئی ماہر محقق ہی فیکٹ چیک کرکے بتا سکتا ہے کہ ویڈیو بی ایل اے کی ہے یا کسی اور تنظیم کی۔ البتہ ویڈیو سے ایسا ضرور لگ رہا ہے کہ یہ کسی بلوچ مسلح تنظیم کے وار پروپیگنڈے کی ویڈیو ہے جو وہ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ ان پروپیگنڈہ ویڈیوز میں وہ اپنے عسکریت پسند کا چہرہ واضح نہیں کرتے جیسے کہ اس ویڈیو میں بھی انہوں نے نہیں کیا۔ جیو نیوز کے پاس ایسی کونسی پراسرار طاقت ہے جس کے ذریعے اس نے ایک غیر واضح چہرے کو سالم بلوچ کی صورت شناخت کرلیا؟ اس کا جواب جیو کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

شہزاد دہوار کی قبر پر لگے پرچم کے بارے میں بھی کذب بیانی کی گئی اور بلوچ معاملات سے بے خبر پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ شہزاد بلوچ کی قبر پر ترنگا لگایا گیا ہے۔ سبز، سرخ اور نیلے رنگ پر مشتمل پرچم درحقیقت آزاد بلوچستان کا پرچم ہے جس میں ہر شہید اور قومی رہنما کی میت کو لپیٹا جاتا ہے ۔ تدفین کے بعد یہ پرچم ان کے مقابر پر چڑھایا جاتا ہے ۔

نواب خیر بخش مری، پروفیسر صبا دشتیاری، غلام محمد بلوچ اور بانک کریمہ بلوچ جیسے سرکردہ آزادی پسند سیاسی رہنما ہوں یا مسخ شدہ لاشوں میں تبدیل ہونے والے طلبا و سیاسی کارکن یا آزادی پسند مسلح سرمچار؛ یہ پرچم بلاتخصیص ہر قبر کی زینت بنتی آرہا ہے تو کیا یہ سب بی ایل اے کے عسکریت پسند تھے؟۔بانک کریمہ بلوچ کی قبر کی تصویر دیکھ لیں جس میں یہی پرچم نظر آرہا ہے ۔

بلوچ تنظیموں میں جلاوطن بلوچ رہنما حیر بیار مری کی تنظیم “فری بلوچستان موومنٹ” اور “بی ایل اے” اس ترنگے کو معمولی فرق کے ساتھ اپنے تنظیمی پرچم کی صورت استعمال کرتے ہیں ۔یہ پرچم دراصل ریاستِ قلات کے دو رنگی پرچم سبز اور سرخ کی تبدیل شدہ شکل ہے جس میں بلوچ ساحل کو نمائندگی دینے کے لئے نیلے رنگ کا اضافہ اور سیکولر تشخص دینے کے لئے قلات کے پرچم پر لگے مذہبی علامتوں کو حذف کیا گیا ہے۔ ریاست قلات کے پرچم کو بھی کمنٹ سیکشن میں دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ پرچم آج بھی بلوچستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کی دیواروں پر پینٹ ملے گا۔ پہلے تو اس پرچم کی ہر جگہ بھرمار ہوتی تھی بعد میں پاکستانی فوج نے اسے مٹانے کا وسیع آپریشن کرکے اسے محدود کردیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے لیاری میں آٹھ چوک اور کلری کی دوکانوں پر طویل عرصے تک یہ پرچم لہراتے رہے ہیں ۔

پاکستانی میڈیا پروپیگنڈہ کرکے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو عسکریت پسند ثابت کرنے کی لاکھ کوشش کرے لیکن وہ سورج کو انگلیوں سے چھپا نہ پائے گا ۔ پ اکستانی فریم ورک کے اندر اختر مینگل کا مطالبہ منطقی ہے۔ حکومت پاکستان جوڈیشل انکوائری کرکے تمام فیکٹ پبلک کرکے ثابت کرے کہ یہ مقابلہ جعلی نہیں اصلی تھا ۔ دوسری صورت میں بلوچ خواتین بلوچستان کی سڑکوں پر اصلی مقابلہ کرتی رہیں گی اور انہیں دبانے کی ہر کوشش اسی طرح جگ ہنسائی کا باعث بنتی رہے گی ۔

Comments are closed.