تحریک انصاف کو بیس لاکھ پونڈ کی ممنوعہ فنڈنگ

تنویر شہزاد

پاکستان تحریک انصاف کو برطانیہ سے ہونے والی ممنوعہ فنڈنگ کے تازہ الزامات نے پاکستان کی سیاست میں ایک ارتعاش سا پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ الزامات عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے بہت منفی اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے پر کہا ہے کہ معتبر عالمی ادارے فنانشل ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ عمران نیازی کے خلاف سنگین چارج شیٹ ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ فنانشل ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ نے پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ اورغیرقانونی بھاری رقوم کی ترسیل کے حقائق بے نقاب کر دیے ہیں۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ میں عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فنانشل ٹائمز کے خلاف فرد جرم عائد کرنے پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کریں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس سے ایک بار پھر ثابت ہو جائے گا کہ وہ کتنی ڈھٹائی سے پاکستانی عوام سے جھوٹ بول رہے ہیں اور انہیں دھوکہ دے رہے ہیں۔

برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف پر ایک غیر ملکی شخصیت، کی طرف سے بیس لاکھ ڈالر حاصل کرنے کا انکشاف کیا تھا۔ اخبار کے مطابق ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن (جو کہ یو  اے ای کے ایک وزیر بھی ہیں) نے یہ فنڈنگ عمران خان کے دوست عارف نقوی کی کمپنی کے ذریعے پاکستان منتقل کی۔ یاد رہے پاکستان کے قانون کے مطابق پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر غیر ملکی شہریوں اور غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے فنڈنگ وصول کرنے پر پابندی ہے لیکن پھر بھی فنانشل ٹائمز کی طرف سے دیکھی گئی دستاویزات کے مطابق پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں کی طرف سے بھیجے گئے لاکھوں ڈالر تحریک انصاف کے لیے پاکستان منتقل کیے گئے۔

سوشل میڈیا سائیٹس پر کئی لوگ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں پی ٹی آئی پر عائد کردہ ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات کی تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی پچھلے سات سالوں سے پی ٹی آئی کی فنڈنگ کی تحقیقات کر رہا ہے۔ جنوری میں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سکروٹنی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ ملی اور اس پارٹی پر فنڈز کی کم رپورٹنگ اور درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپانے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

جمعے کی شام لاہور میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ خصوصی بات چیت میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں فواد چوہدری اور فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پر لگنے والے ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات درست نہیں ہیں۔ سابق وزیر قانون اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فنانشل ٹائمز کی سٹوری میں پرانی باتیں رپورٹ ہوئیں لیکن اس اسٹوری کی اینگلنگ‘ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے خیراتی رقوم تحریک انصاف کو منتقل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی پر ایسے الزامات سے شوکت خانم جیسے فلاحی منصوبوں کو ملنے والی فنڈنگ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اس خبر میں 2008سے لیکر2013تک کے اکاؤنٹس کی بات کی گئی ہے اور ہم اس ضمن میں تمام تفصیلات پاکستان الیکشن کمیشن کو پہلے ہی فراہم کر چکے ہیں‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے اوپر لگنے والے الزامات  پر فنانشل ٹائمز کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلے ہم اس اسٹوری کے جواب میں اپنا وضاحتی موقف اخبار کو بھجوائیں گے اور پھر اخبار کے رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔  

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے برطانیہ سے اپنے ایجنٹ کے ذریعے بھجوائی جانے والی رقوم قانونی طور پر وصول کیں اور ان کے بارے میں پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی مطلع کیا۔ لیکن یہ پیسے کس کس نے دئیے ہیں اس بارے میں ہم نہیں جانتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم یا کوئی مافیا اپنے مذموم مقاصد کے لئے بڑی بھاری رقوم بیرون ملک سے پاکستان تحریک انصاف کو بھجوائے تو اس بارے میں کیا پارٹی کو جانچ نہیں کرنی چاہیے۔ اس پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کوئی انویسٹی گیشن کا ادارہ نہیں ہے یہ کام حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے کرنے کے ہیں۔ ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ رقوم درست چینل سے قانونی طور پر پاکستان پہنچی ہیں یا نہیں۔

اس موقع پر فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی واحد جماعت ہے جس کو پبلک فنڈنگ ملتی ہے باقی سیاسی جماعتوں کے پاس تو فنڈنگ انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے۔ فواد چوہدری نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ پر نگاہ رکھنی چاہیے لیکن ان کے بقول پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس یہ کام کرنے کی کپیسٹی ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک چارٹر اکاؤنٹنٹ کو کنٹریکٹ پر ڈائریکٹر بھرتی کیا ہے۔‘‘۔

فرخ حبیب نے اس موقعے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فنانشل ٹائمز کی خبر کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور لگتا ہے کہ اسے جان بوجھ کر پلیان کیا گیا ہے۔ ان کے بقول اس خبر کے پیچھے موجود لوگوں کا جلد پتہ لگ جائے گا۔

پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فارن فنڈنگ کے الزامات ثابت ہونے پر نہ صرف ان فنڈز کی ضبطی عمل میں آ سکتی ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو جاری کیے گئے انتخابی نشان کی واپسی کے ساتھ ساتھ پارٹی کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن بھی منسوخ ہو سکتی ہے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.