آزادی کا جشن کس کے لیے منائیں۔۔ ؟

بیرسٹر حمید باشانی

 گزشتہ ہفتےپاکستان اور ہندوستان نےاپنی اپنی آزادی کا جشن منایا ہے۔ یہ جشن گزشتہ پچھہتربرسوں سے ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سا تھ جوش و خروش میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر تقریبات سرکاری سرپرستی میں ہوتی ہیں، اور شہری علاقوں تک محدود ہوتی ہیں۔ گاہے غیر سرکاری تقریبات بھی ہوتی ہیں، جن میں زیادہ کاروباری اور تجارت پیشہ لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دیگر تقریبات کی طرح ان تقریبات کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایک اچھا موقع تصور کرتے ہیں۔اس طرح کچھ دوسرے لوگ اور گروپ بھی ان تقریبات میں متحرک ہوتے ہیں، جو ان تقریبات کو سوشل نیٹ ورکنگ، اپنے کسی فن کے اظہار، شاعری اور ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے عام لوگوں کی بہت بڑی اکثریت شہروں سے باہر دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں میں رہتی ہے، جن کو ان ملکوں کے عوام کہا جاتا ہے۔ان پسماندہ اور بچھڑے ہوئے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ ان علاقوں میں آباد لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد پینے کے صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔صحت و تعلیم کی جن سہولیات کو اب دنیا میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق تصور کیا جاتا ہے ، وہ ان لوگوں کو میسر نہیں۔ان علاقوں میں اعداد و شمار کے برعکس حقیقی زندگی میں شرح خواندگی بھی بہت کم ہے۔

کمیونیکیشن اور ابلاغ کے ذرائع تک بھی لوگوں کی رسائی بہت کم ہے۔ چنانچہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا آزادی کا جشن بنانے اور ایسی دیگر سرگرمیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ ان کو ریڈیو ، ٹی وی یا دوسرے ذرائع ابلاغ سے اس جشن کی خبر مل جاتی ہے۔ان ملکوں کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بسلسلہ روزگار ملک سے باہر دیگر ممالک میں آباد ہے۔بیرونی ممالک میں تارکیں وطن کی مختلف تنظیموں اور انجمنوں کے زیر اہتمام یہ جشن اندرون ملک کی نسبت کئی زیادہ زور و شور سے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایک شہر میں دس دس تقریبات ہوتی ہیں۔اس میں سرکاری سرپرستی زیادہ ہوتی ہے، اور سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی کئی تقریات ہوتی ہیں۔

یہ جشن آزادی اور ایسے دیگر جشن اپنی جگہ بالکل بجا، مگر یہ جشن مناتے ہوئے ان دونوں ملکوں میں اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ جس آزادی کا ہم جشن منا رہے ہیں وہ کیا واقعی ہمیں حاصل ہے ؟ اور ظاہر ہے اس سے پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ آزادی ہوتی کیا ہے ؟ کیا آزادی کا مطلب صرف غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہے ؟ یعنی انگریزوں کا بر صغیر سے نکل جانے اور اقتدار کی باگ ڈور پاکستان و بھارت کے مقامی حکمرانوں کو منتقل ہونے کے عمل کو آزادی کہا جا سکتا ہے ؟

اس بات پر باشعور حلقوں میں دو رائے نہیں ہیں کہ کسی بھی ملک سے غیر ملکی قبضے کے خاتمے کو اس ملک کے عوام کی آزادی نہیں کہا جا سکتا ۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جب غیر ملکی تسلط کے خاتمے کے بعد مقامی قوتوں نے عوام پر ایسے نظام مسلط کیے، جو غیر ملکی تسلط سے کہیں زیادہ، ظالمانہ یا وحشیانہ تھے۔ چنانچہ کسی ملک کا کسی غیر ملکی تسلط سے چھٹکارہ ہی آزادی نہیں، بلکہ اس ملک کے عوام کا معاشی، سیاسی، سماجی اور فکری طور پر اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے اختیار کو آزادی کہا جا سکتا ہے۔

کیا بر صغیر سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہاں کے عوام کو یہ اختیار مل گیاہے؟ان کو حق ملکیت اور حق حکمرانی حاصل ہو گئی ہے۔ وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کرتے ہیں ؟ کوئی با شعور اور دیانت دار شخص اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا۔ نہ ہندوستان میں، نہ پاکستان میں۔دونوں ملکوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر ، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیںوالی بات پر اتفاق ہے۔

اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی کچھ بنیادی شرائظ ہیں۔ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ انسان معاشی طور پر آزاد ہو۔ معاشی طور پر آزاد ہوئے بغیر انسان سیاسی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہو سکتا۔ اور ایک منصفانہ معاشی نطام قائم کے بغیر کچھ مراعات یافتہ طبقات اپنے آپ کو آزاد تو کہہ سکتے ہیں ، مگر عوام معاشی طور پر آزاد نہیں ہو سکتے۔ صرف ایک منصفانہ معاشی نطام ہی عوام کو بلا رشوت، سفارش، لالچ اور خوف کے روزگار کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس ضمانت کے بعد انسان محتاجی اور لاچارگی سے باہر نکلتا ہے۔ اپنے پاوں کے نیچے زمین محسوس کر سکتا ہے۔ اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

معاشی طور پر آزاد ہونے کے بعد انسان سیاسی طور پر آزاد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر اور پسند کے مطابق ووٹ دیتا ہے۔ کوئی اسے دھونس، دھاندلی جبر یا لالچ کے ذریعے ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس آزادانہ رائے کے اظہار کے نتیجے میں سماج میں سیاسی آزادیاں آتی ہیں۔ شہری آزادیاں آتی ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ ملتا ہے۔ جبر سے پاک ایک آزاد سیاسی نطام قائم ہوتا ہے۔ معاشی اور سیاسی آزادیوں کے بعد انسان فکری طور پر آزاد ہوتا ہے۔ وہ خوف اور لالچ سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا شروع کرتا ہے۔ا پنی فکر کا آزادانہ اظہار کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ مذہب اور فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اسے یہ خوف نہیں رہتا کہ الگ طریقے سے سوچنے کی پاداش میں اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔فرقہ واریت کے نام پر اسےکافر قرار دے دیا جائے گا۔ یا پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔

اس طرح سماجی آزادی کا سوال بھی بڑا اہم سوال ہے۔ ہمارا معاشرہ سماجی فرسودگی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ غربت اور پسماندگی کا شکار لوگ طرح طرح کی سماجی پابندیوں اور فرسودہ رسم و رواج کا شکار ہیں۔سماج کے اندر کئی ایسے رسم و رواج موجود ہیں ، جن کی بنیاد امتیازی سوچ پر مبنی ہے۔طبقاتی، نسلی اور مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک عام سی بات ہے۔ چنانچہ عوام کی ایک بڑی اکثریت معاشی، سیاسی اور فکری ازادی کے تصورات کے مطابق زندگی گزارنے سے بہت دور ہے، جس کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں ۔

پاکستان و بھارت میں بے شک جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں۔ مگر انتخابات میں عوام کو اپنی مرضی کے آزادانہ اظہار کا موقع نہیں ملتا۔ وہ کئی دیکھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ان کا ووٹ اس علاقے کے طاقت ور اور مراعات یافتہ طبقات کی مرضی کے مطابق کاسٹ ہوتا ہے۔ جمہوریت کی مشق کے باوجود ان ممالک میں ابھی تک منصفانہ معاشی نظام نہیں ہے۔عوام کی ایک عظیم اکثریت غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ سماج میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ رشوت اور اقربا پروری ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا چلن ہے۔ ظلم و ناانصافی ہے۔ طبقاتی تقسیم اور لوٹ کھسوٹ ہے۔ ایسے سماجوں میں عام آدمی اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر سکتا۔

اورجب تک یہ عام آدمی آزاد نہیں ہو جاتا اس وقت تک آزادی کا جشن بے معنی ہے۔ چنانچہ آزادی کا جشن بنانے والوں کو یہ جشن بناتے وقت اپنے ملکوں میں معاشی و سماجی انصاف کی بات بھی کرنی چاہیے۔عام آدمی کو اس جشن میں شامل کرنے کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔

Comments are closed.