کیا پاکستانی ریاست ناکام ہوچکی ہے؟

دنیا بھر میں قدرتی آفات کو ٹالا نہیں جا سکتا لیکن اس کی شدت اور نقصان کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اس قابل ہیں کہ قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی شدت کو کم سے کم کیاجائے ۔ جس کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر اور اس کو تعمیر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نقصان کی صورت میں مکمل نہ سہی مگر بہت حد تک تلافی بھی کی جاتی ہے ۔

بدقسمتی سے پاکستانی ریاست نے اپنے قیام سے ہی ایسی کسی بھی منصوبہ بندی کی بجائے تمام وسائل ہتھیاروں کے ڈھیر اکٹھے کرنے پر ضائع کر دیئے ہیں۔ ماضی میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے لیے کچھ نہ کچھ وسائل ضرور ہوتے تھے اور ریاستی ادارے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ پیدا کردیا ہے، ریاست اور ریاستی ادارے عوام کی مدد کے اہل نہیں جس کی بنیادی وجہ وسائل کا نہ ہونا ہے۔

دنیا نے پاکستان کو دہشت گرد وں کا ساتھی ہونے پر تمام مالی امداد بند رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو امداد پاکستانی عوام کی بھلائی کے لیے دی جاتی ہے وہ تمام کی تمام پاکستان کے سیکیورٹی ادارے اپنی مہم جوئیوں پر صرف کردیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیلاب کی تباہی کے جو مناظر نظر آرہے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک ہیں ۔ پنجاب، پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان میں لاشیں تیر رہی ہیں۔ مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ لٹے پٹے عوام اپنے بچوں کو کندھوں پر اٹھائے کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں ۔

لٹے پٹے عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہےہیں۔ اس مشکل گھڑی میں صرف سندھ حکومت اپنے عوام کے درمیان موجود ہے ۔ باقی تین صوبوں کی حکومتیں اقتدار کے کھیل میں مصروف ہیں۔ اگر حکومت کے پاس وسائل نہیں تو نجی شعبہ کو ساتھ ملا کر امدادی کام کیا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر ایک صارف لکھتے ہیں کہ رحیم یار خان میں 70 سے زائد فلور ملز، پانچ شوگر ملز، دو سو سے زیادہ بیج کمپنیاں اور کوکا کولا سمیت کئی فیکٹریاں ہیں مگر ایک ٹرک سیلاب زدگان کے لیے نہیں گیا۔

پاکستانی ریاست ایک بار پھر سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بیرونی امداد کی درخواست کررہی ہے۔ اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بیرونی امداد کا 80 فیصد ریاستی اہلکاروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے کے نام کا جو ادارہ بنایا گیا ہے اسے فی الفور ختم کردیا جائے اور امداد تمام صوبوں کو تقسیم کی جائے اور پاک فوج کو اس امداد سے دور رکھا جائے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ریاست کو دوچار تازہ المیے اور تباہی و بربادی میں پاکستانی میڈیا اور ان کے نام نہاد ترقی پسند اینکر و صحافی بھی برابر کے حصہ دار ہیں جو ہمیشہ اقتدار کی سیاست میں مصروف چلے آر ہے ہیں ۔ میڈیا میں عوام کے حقیقی مسائل پر کبھی کوئی بات نہیں کی گئی بلکہ موجودہ المیہ پر بھی کوئی بات کرنے یا ریاست سے سوال اٹھانے کی بجائے اقتدار میں حصہ لینے کے لالچ میں ، اقتدار کی جنگ میں حصہ بنے ہوئے ہے۔

ایڈیٹر

Comments are closed.