لبرل اور روشن خیالی کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے

محمد شعیب عادل

لبرل اور روشن خیالی کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بنیاد پرستوں کے ساتھ ساتھ لبرل اور روشن خیالی کا دعوی کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد جنم لے چکی ہے۔الحاد کا پرچار کرنا، مذہب اور اس کے پیروکاروں پر فقرہ بازی کرنے کو بھی روشن خیالی یا لبرل ازم سمجھ لیا گیا ہے۔اب ضروری نہیں کہ روشن خیالی اور لبرل ہونے کے دعویدار فرد کا کوئی تاریخی شعور بھی ہو۔

لیفٹ کی تانگہ پارٹیوں سمیت لبرل اور روشن خیالوں کے متعلق ایک اور غلط فہمی بھی ہے کہ وہ سیاسیات کا علم بھی رکھتے ہیں یا ان کا سیاسی شعور بہت بلند ہے ۔ ڈاکٹر تیمور رحمن یا ڈاکٹر عمار جان کے سیاسی شعور سے تو ہم سب واقف ہیں ہی ۔یہ جمہوریت دشمن ہیں۔ بلکہ پاکستان میں غیر سیاسی سوچ کو فروغ دینے میں ان کی بہت زیادہ کنٹری بیوشن ہے۔ خونی انقلاب کے حامی ہیں اور جمہوریت کو صرف بحالت مجبوری قبول کیے بیٹھے ہیں ۔

پاکستان اور بیرون ملک ایسے کئی لبرل اور روشن خیال دوست ہیں جو پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔

لاہور میں افضل ملک، آرکیٹیکٹ ، ہمارے دوست ہیں۔ انتہائی لبرل اور روشن خیال ۔ جیسے آج کل اسلام آباد میں بلیک ہول نامی ہال میں خرد افروزی پر میٹنگز ہوتی ہیں ۔اسی طرح افضل ملک لاہور کینٹ میں واقع اپنےوسیع وعریض گھر کے بیسمنٹ میں بنے ہال میں خرد افروزی پر کئی سال تک میٹنگز کا انعقاد اور بائیں بازو اور روشن خیال سیاسی کارکنوں کا اکٹھ کرتے رہے اور اپنے پلے سے خاطر مدارت کرتے اور کھانے کھلاتے رہے ۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ وہ پی ٹی آئی کو پاکستان کا نجات دہندہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔حتیٰ کہ طارق علی جیسا بین الاقوامی مارکسسٹ جو کہ لبرل اور روشن خیال ہے ، اس نے بھی2014 میں عمران خان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دیا تھا۔

ہمارے کئی لبرل اور روشن خیالی کا دعوی کرنے والے دوست مسلم لیگ اور نواز شریف کے بھی کٹڑ حامی ہیں۔ میں جب ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ ایک روشن خیال معاشرے کی خواہش کرتے ہیں لیکن نواز شریف تو بنیاد پرستوں کا ترجمان ہے اور اس نے جو بھی قانون سازی کی ہے وہ بنیاد پرستی کو ہی فروغ دیتی ہے۔اور جب بھی کسی نے ضیا الحق کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے تو ان کا جواب بھی پی ٹی آئی کے فالورز جیسا ہی ہوتا ہے۔

اچھا امریکہ میں جو بلوچ دوست ہیں جو امریکہ میں آزادی اظہار رائے کے اصول کے تحت پاکستان کے ریاستی اداروں کے مظالم کی آواز اٹھاتے ہیں وہ صدر ٹرمپ کے کٹڑ حامی ہیں جو جمہوریت دشمن اور امریکہ میں بنیاد پرستی کو فروغ دیتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاست اور سیاسی اداروں پر تنقید توروٹین ہے ہی ۔ سوشل میڈیا کی بدولت پاکستان اب بہت روشن خیال اور لبرل ہو چکا ہے۔ آپ کھل کر مذہبی انتہا پسندی پر بات کر سکتے ہیں، معیار تعلیم کی گراوٹ کا رونا بھی رو سکتے ہیں ۔اقلیتوں پر مظالم کی بات بھی ہوتی ہے، رقص و موسیقی، پر بات کرسکتےہیں۔ لیکن آپ ریاستی اداروں کے مظالم پر بات نہیں کر سکتے اور نہ ہی ریاستی اداروں کے ان کے اخراجات پر میڈیا میں سوال اٹھا سکتے ہیں جس کی بدولت پاکستان، دنیا میں ہر وقت جھولی پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔

Comments are closed.