کیوبا: پرانے گھروں اور نئے خیالات کا دیس

بیرسٹر حمید باشانی

گزشتہ دنوں میں نے پاکستان میں تعلیم اور صحت کے مسائل اور ان کے حل کے تناظر میں کیوبا کی ان شاندار کامیابیوں کا ذکر کیا تھا، جو اس نے ان شعبوں میں حاصل کی ہیں۔ کیوبا میں خواندگی کی شرح سوفیصد کے قریب ہے، اور اس ملک میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں، جس کو صحت کی تمام سہولیات میسر نہ ہوں۔اس سے پہلےمیں نے کیوبا کے سفر کے دوران اس ملک کے نظام صحت اور تعلیم پر اپنے ذا تی تاثرات و مشاہدات پیش کیے تھے۔ میری گائیڈ ایلیسا کو جن چیزوں میں گہری دلچسپی ہے، ان میں ایک تاریخ بھی ہے۔

آج ہم نے کیوبا کا سب سے قدیم ترین تاریخی گھر دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ گھر سولہویں صدی میں کیوبا کے پہلے گورنر کی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا،یہاں تک ہم نے دو بسیں بدل کر جانا تھا۔پہلی بس نے ہمیں اس مقام سے کافی دور اتار دیا۔ یہاں سے ہمیں آگے جانے کے لیے ایک دوسری بس لینی تھی۔ میں نے ایلسیسا کو تجویز دی کہ اتنے اچھے موسم میں بس میں بیٹھنے کے بجائے اگر ہم پیدل چلیں تو ہم موسم کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں، اور شہر کا یہ حصہ بھی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایلیسیا نے میری بات سے اتفاق کیا، اور ہم خراماں خراماں اپنی مطلوبہ عمارت کی طرف چل پڑے۔

اس چہل قدمی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ایلیسیا نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کیوبا کی تاریخ کا ایک جامع خاکہ میرے سامنے پیش کردیا۔ ایلیسیا نے بتایا کہ کیوبا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح بر اعظم امریکہ کے مقامی باشندے جنوبی امریکہ سے کیوبا آنا شروع ہوئے۔ کیوبا میں یہ لوگ زیادہ تر زراعت سے وابستہ رہے۔زراعت میں مکئی، تمباکو اور کاٹن ان کی پسندیدہ ہ کاشت رہی ہے۔اس کے علاوہ ان لوگوں کا انحصار مچھلی پکڑنے اور جنگلی جانوروں کا شکار بھی رہا۔ یورپ کے ساتھ کیوبا کے تعلق کا آغاز سن1492 میں کرسٹوفر کولمبس کی آمد اور اس کے بعد ہسپانوی حملے سے ہوا۔اس سے پہلے اس دھرتی کے اصل باشندے ہی اس جزیرہ پر آباد تھے۔

لیکن کیوبا پر ہسپانوی قبضے کے بعد یہ لوگ تیزی سے ختم ہو تے گئے۔ مقامی باشندوں کے تیزی سے ختم ہونے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک وجہ بیماریاں تھیں۔ حملہ آور اپنے ساتھ جو بیماریاں لائے تھے، مقامی باشندے ان بیماریوں سے نا واقف تھے، اور ان کے خلاف ان میں قدرتی قوت مدافعت نہیں تھی۔ چنانچہ ان پر جب ان بیماریوں کا حملہ ہوا تو وہ بڑی تعداد میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان کا اس دھرتی سے نام و نشان مٹنے کی دوسری وجہ اپنی دھرتی پر قبضے کا دکھ اور صدمہ تھا۔ نسبتاً بہتر ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں ہسپانوی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان لوگوں کو بڑے پیمانے پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا دیا گیا۔ چنانچہ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد صدمے کی کیفیت میں چل گئی، اور اس حالت میں موت کا شکار ہو گئی۔

جب ہسپانوی کیوبا میں فتح کا جشن منا رہے تھے، مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود کشی اور صدمےاور دکھ سے مر رہے تھے۔ اس تباہی ،بربادی اور نسل کشی کے بعد کیوبا کے معاشرے پر ان مقامی باشندوں کا اثر محدود ہوتا گیا، اور ہسپانوی ثقافت، ادارے، زبان اور مذہب غالب ہوتے گئے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں اس جزیرے پر نوآبادیاتی تسلط کے بعد نوآبادیاتی معاشرہ آہستہ آہستہ تیار ہوا۔زراعت نے معیشت کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔ فتح کے بعد پہلی تین صدیوں تک، یہ جزیرہ ہسپانوی بحری بیڑوں کے لیے پڑاو کا کام کرتا رہا، یہ بحری بیڑے نئی دریافت شدہ دنیا کا دورہ کرتے اور براعظم امریکہ کی معدنی دولت کے ساتھ اسپین واپس لوٹ جاتے۔

اس طرح تین صدیوں تک خواب خرگوش میں رہنے والا کیوبا انیسویں صدی میں ڈرامائی طور پر بیدار ہوا۔ اس بیداری کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما تھے۔ اس میں ایک بڑا عنصر ایک آزاد قوم کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ترقی اور بطور طاقت اس کا ابھار تھا ۔دوسرا عنصر ہیٹی کا بحران تھا۔اس خطے میں چینی پیدا کرنے والی ایک بڑی کالونی کے طور پر ہیٹی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہسپانوی اور کیوبا کے کاروباری طبقے اس جزیرے پر شوگر انقلاب برپا کرنے کے لیے یکجا ہو گئے۔ تھوڑے ہی سالوں میں، کیوبا ایک سوتے ہوئے، غیر اہم جزیرے سے دنیا کے بڑے چینی پیدا کرنے والے ملک میں تبدیل ہو گیا۔جوں جوں گنے کی کاشت اور چینی سے جڑے کاروبار میں اضافہ ہوتا گیا۔غلاموں کی تعداد بڑھتی گئی۔ بڑی جاگیریں چھوٹی جاگیروں کو نگلنے لگیں۔غربت کی جگہ خوشحالی نے لے لی۔ان عوامل نے انیسویں صدی کے اوائل میں آزادی کی طرف پیش قدمی میں تاخیر کی۔ اور عین اس وقت جب لاطینی امریکہ کا بیشتر حصہ اسپین سے آزاد ہو رہا تھا، کیوبا سپین کی نو آبا دیاتی وفا داری پر قائم رہا۔

 انیسویں صدی کے آخر میں ہسپانوی استبداد ، ٹیکسوں میں اضافہ، اور کیوبا کی قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے نتیجے میں کیوبا کی سامراجی وفا داری تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ دس سال تک اسپین کے خلاف لڑی گئی، لیکن اس جنگ سے کیوبا آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔1895 میں دوسری جنگ آزادی کے آغاز میں، کیوبا کی آزادی کے رہنما ہوزے مارٹی کو قتل کر دیا گیا۔ اسپین اور ریاست ہائے متحدہ کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کے نتیجے میں، امریکی 1898 میں اسپین کیوبا تنازعہ میں شامل ہو گئے ۔ دسمبر 1898 میں، پیرس معاہدے کے تحت امریکہ اس جنگ میں فاتح طاقت کے طور پر ابھرا، اس طرح کیوبا سے اسپین کے اخراج اور کیوبا کے معاملات پر امریکی بالا دستی کا آغاز ہوا۔

اسپین سے آزادی اور انقلاب کے درمیان کیوبا کی حکومتوں کو ریاستہائے متحدہ کی کلائنٹ ریاستوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ 1902 سے 1932 تک کیوبا اور ریاست ہائے متحدہ کے قانون میں پلاٹ ترمیم شامل تھی، جس نے کیوبا میں امریکی مداخلت کے حق کی ضمانت دی اور کیوبا کے خارجہ تعلقات پر پابندیاں عائد کیں۔ 1934 میں، کیوبا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تعلقات کے معاہدے پر دستخط کیے، جس میں کیوبا کو امریکی معیشت کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنے کا پابند کیا گیا تھا، اس کے بدلے میں، امریکہ نے کیوبا کو امریکی چینی مارکیٹ کا 22 فیصد حصہ دیا جو بعد میں 49 فیصد کیا گیا۔ یہ صورت حال کیوبا کے انقلاب تک جاری رہی۔

گفتگو کے دوران ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ کیوبا کا یہ قدیم ترین گھر پہلے گورنر کے نام سے ہی موسوم ہے، اور اسے سپینش میں کاسا دے ڈیگو والیزکے کہا جاتا ہے۔ سولہویں صدی کے اس گھر کو بڑی مہارت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کو ایک تاریخی میوزیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس میں قدیم تاریخی فرنیچر اور سجاوٹ کا سامان رکھا گیا ہے۔ یہ سامان سولہویں صدی سے لیکر انیسویں صدی تک کے تاریخی فرنیچر اور ڈیکوریشن کے سامان پر مشتمل ہے۔ گھر کی حالت دیکھ کر کسی طرح بھی نہیں لگتا کہ یہ پانچ سو سال پرانا گھر ہے۔ کیوبا میں اس طرح کی بے شمار پرانی عمارتیں ہیں، اور یہ لوگ اس عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ کیوبا کو پرانی عمارتوں کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرانے گھر اور نئے خیالات رکھنے والا ملک ہے۔

Comments are closed.