پاکستانی ریاست ایک بلیک ہول ہے


مصر میں کوپ 27 کے نام سے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی کانفرنس سے وزیر اعظم شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر پاکستان جیسے غریب ملک کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ غیر معمولی بارشوں اور پھر سیلاب کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اس نقصان سے نبٹنے کے لیے پاکستان کو 30 بلین ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی اس کانفرنس کے موقع پر اس کے متوازی سول سوسائٹی کی ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی کانفرنس بھی ہوتی ہے اور وہ اپنی سفارشات مرتب کرکے ترقی یافتہ ملکوں کے حکمرانوں کو پیش کرتی ہیں۔ پاکستان سے این جی او کے ماہر ماحولیات کامریڈ فاروق طارق نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور حسب عادت کانفرنس ہال کے باہر مظاہرین کے سامنےمطالبہ کیا کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضے معاف کیے جائیں اورقرضے کی یہ رقم سیلاب زدگان کی امداد اور ان کی بحالی پر خرچ کی جائے۔

تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پاکستانی حکمران اور سول سوسائٹی کے نمائندے دونوں اپنی اپنی جگہ پر کشکول اٹھائے بھیک مانگ رہے ہیں۔پاکستانی ریاست اپنے قیام سے ہی کشکول اٹھائے کھڑی ہے۔ کبھی روس کا ڈراوا کبھی بھارت کا ، کبھی مذہبی انتہا پسندوں کا اور جب یہ سب پٹ گئے تو انھیں اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے نام پر مانگنا شروع کردیا ہے۔ اگر قرضے معاف ہوجائیں اور 30 بلین ڈالر مل بھی جائے تو کیا پاکستانی قوم کی حالت سنور جائے گی؟ تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ پاکستانی ریاست ایک بلیک ہول ہے جس میں سب کچھ غائب ہوجاتا ہے۔

دنیا اب پاکستان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سیلاب کی تباہ کاریاں دکھانے کے لیے ان کا وزٹ بھی کروایا اور انھوں نے فنڈز کی اپیل بھی کی لیکن ابھی تک ان فنڈز کا ایک تہائی ہی پاکستان کو مل پایا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو ایک تہائی ملا وہ کہاں گیا؟ یہ رقم این ڈی ایم اے کو جاتی ہے جس کے سربراہ ایک جرنیل ہیں ۔ پاکستان کے آزاد میڈیا میں تو اتنی جرات نہیں کہ وہ این ڈی ایم اے کی کارگردگی پر سوال اٹھا سکے اور آڈٹ کا مطالبہ کرے۔سندھ کے وزیراعلی نے ایک پریس کانفرنس میں گلہ بھی کیا تھا کہ این ڈی ایم اے کی طرف سے سندھ کو کچھ نہیں ملا۔ بلکہ سندھ حکومت اپنے وسائل سے اس تباہی سے نمٹ رہی ہے۔

بے شک ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستانی عوام شدید ترین بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے تباہی کا شکار ہوئے ہیں ۔ لیکن اس تباہی کی ذمہ دار پاکستان کی ریاست بھی ہے جس نے ہتھیاروں پر رقم ضائع کرنے کی بجائے انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر کوئی رقم خرچ کی ہوتی تو ان غیر معمولی بارشوں کے اثرات کم سے کم ہوتے۔

قرضوں کی معافی کا بیانیہ بھی دراصل ایسٹیبشلمنٹ کے حق میں جاتا ہے اور دفاعی اخراجات جیسے جرائم چھپ جاتے ہیں ۔ قرضے معاف کرانے والوں کو چاہیے کہ خواب دیکھنے کی بجائے حقیقی زندگی کا سامنا کریں۔ وہ پاکستان کےدفاعی اخراجات کو کم سے کم کرنے کا مطالبہ کریں۔ جب پاکستانی معیشت ایک پیداواری معیشت بنے گی تو قرضے بھی ختم ہوجائیں گے اور عوام بھی خوشحال ہوں گے۔

شعیب عادل

 

Comments are closed.