آزاد دنیا اور انسانی حقوق

بیرسٹر حمید باشانی

 گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ1954  میں امریکہ کے  ساتھ فوجی اتحاد کے معاہدے کا اعلان پاکستان میں ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا گیا۔ اس وقت کی حکمران اشرافیہ نے اس بات پر جشن منایا کہ انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد بالآخر امریکہ سے اتحاد کر کے بھارت کے مقابلے میں سیکیورٹی کے میدان میں ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ جشن سیکیورٹی کے باب میں ان کی اپنی جمع تفریق کا نتیجہ تھا۔ لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف تھے۔

ان حقائق کا اصل ادراک1954 میں پاک امریکہ اتحاد کا اعلان ہونے سے لے کر1960  تک امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو دی جانے والی امداد کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ ان حقائق کا ایک عکس یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف کامرس، بیورو آف سینسس کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ان چار سالوں میں پاکستان نے امریکہ سے معاشی اور تیکنیکی امداد کی مد میں750,000,000 جبکہ بھارت نے اس عرصے میں 717,000,000 ڈالرز کی امداد وصول کی۔ جب کہ دوسری طرف  عین اسی وقت اس عرصے میں پاکستان کو سویت بلاک سے 300,000 جبکہ بھارت کو 930,000,000 امداد ملی۔

یعنی معا ہدہ کرنے کے فورا بعد امریکہ نے جنوبی ایشیا میں توازن کی پالیسی اپنانے کی کوشش شروع کر دی۔ آگے چل کر صدر کینیڈی اور صدر جانسن کے دور میں بھارت کے معاملے میں امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ، اور ان ادوار میں بھارت نے امریکہ سے پاکستان کے مقابلے میں دگنا امداد وصول کی۔ جیمز ڈبلیو ہیچمین نے  ورلڈ ریویو میں آئزن ہاور: سوویت یونین اور انڈیاکے عنوان سے اس صورت حال کا جائزہ لیا ہے، اور اس حوالے سے امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو دی جانے والی معاشی اور فوجی امداد کے بارے میں اعداد و  شمار پیش کیے ہیں ۔

پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بعد امریکہ اور بھارت کے درمیان  بڑی تیز رفتاری سے تعلقات میں گرم جوشی آئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آئزن ہاور کو طویل مشق کے بعد دو چیزوں کا یقین ہو گیا تھا۔ ایک یہ کہ پنڈت جواہر لال نہرو کسی صورت میں امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اور دوسرا یہ کہ امریکہ کی معاشی اور تکنیکی مدد بھارت کو سوویت یونین کے دور رکھنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پنڈت نہرو کے ساتھ ذا تی دوستی کا رشتہ بھی بنایا، اور بہت سارے لوگوں کو حیرت میں ڈالتے ہوئے کھلے عام کئی بار نہرو کی غیر جانب دار تحریک اور سوشلسٹ پالیسیوں کا دفاع بھی کیا۔

پنڈت نہرو کی غیر جانب دار تحریک کا دفاع کرتے ہوئے اس نے یہ دلیل دی کہ یہ بات طے ہے کہ بھارت کسی صورت میں امریکہ کے بلاک میں نہیں آ سکتا۔ اس حقیقت کے پیش نظر ایک نیوٹرل انڈیا سوویت اتحادی انڈیا سے بہتر ہو گا۔ ان حقائق کی روشنی میں آئزن ہاور نے  بھارت کے ساتھ تعلقات کو جس حد تک ممکن تھا نارمل سطح پر لانے اور پاکستان کے ساتھ فوجی اتحاد کی وجہ سے ہونے والے رد عمل اور نقصان پر کامیابی سے قابو پانے کی کوشش کی۔ اس طرح امریکہ نے ایک طرف تو اسلحہ اور مالی مدد دے کر پاکستان کو امریکہ کے فولڈ میں لانے کی کوشش کی اور دوسری طرف اس کے ضرر رساں اثرات سے بچنے کے لیے امریکہ بھارت تعلقات پر خصوصی توجہ دی۔

کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ صدر آئزن ہاور کی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے بارے میں پالیسی مکمل طور ناکام پالیسی تھی۔ کچھ نے اس پالیسی کو جعلی، اور شارٹ ٹرم  قرار دیا۔ صدر آئزن ہاور اور سیکریٹری آف سٹیٹ جان ڈولس جو بیانات پبلک میں دیتے تھے، اور جو بات نجی محفلوں میں کہتے تھے، ان میں بہت فرق تھا۔ اسی طرح ان کے بیانات اور عمل میں بھی بہت نمایاں فرق تھا۔

مثال کے طور پر کمیونزم کے بارے میں ان کی پالیسی یہ تھی کہ یہ ایک عالمی خطرہ ہے، جس کی روک تھام ضروری ہے۔ اس روک تھام کے لیے جنگ سے لیکر پر امن کوششوں تک ہر راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف انہوں سوویت یونین سے یہ سودے بازی کرنے کی کوشش کی کہ اگر سوویت یونین دوسرے ممالک میں انقلاب برپا کرنے اور کمیونزم ایکسپورٹ کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اور اس نظام کو صرف سوویت یونین تک محدود رکھتا تو ہم سوویت یونین کے ساتھ معمول کے معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

یہ بات انہوں نے کئی فورمز پر تسلیم کی کہ امریکہ کا مسئلہ سوویت توسیع پسندی ہے، اور کمیونزم نہیں ہے۔ لیکن سے سے پہلے ہی امریکہ میں میکارتھی ازم اور ہیری ٹرومین ڈکٹرائن کے تحت کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے خلاف کئی اقدامات کیے جا چکے تھے۔ کئی ایک سول سرونٹس، یونیورسٹی اور کالج پروفیسروں، ہالی وڈ کے اداکاروں اور پروڈیوسروں ، دانش ورں اور لکھاریوں پر کمیونزم کا حامی یا سویت ایجنٹ  ہونے کے الزامات لگا کر ان پر کئی جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، اور ان میں سے کئی ایک کو طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

اس ریاستی جبر، اور خوف و دہشت کے ماحول کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک میں بہت سارے گروپ سوشلزم کے نظریات کا پر چار کرتے رہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر پاکستان میں بھی کمیونسٹ نظریات کے خلاف بہت ہی سخت رویہ اختیار کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین سمیت کچھ ٹریڈ یوننز اور طلبہ تنظیموں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ بائیں بازو کے کئی دانش وروں اور سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اور کئی ایک کو عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ساری کاروائیاں کمیونسٹ آئیڈیالوجی کو روکنے اور سوویت یونین کی عالمی پیش قدمی روکنے کی امریکی قیادت میں چلائی جانے والی عالمی مہم کا حصہ تھے۔

اس مہم کے دوران بڑے پیمانے پر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر قدغن عائد ہوتی رہی ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا یہ اصرار بھی جاری رہا کہ یہ سب کچھ آزاد دنیا کی بقا اور تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اور سرد جنگ کے روپ میں چلنے والی یہ ساری لڑائی دراصل جمہوریت اور شہری آزادیوں کی لڑائی ہے۔  مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تضاد ات کھل کر سامنے آتے گئے ، جس کی وجہ سے مختلف ممالک میں ان امریکی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی رد عمل سامنا آنا شروع ہوا۔

اس لڑائی کے ذریعے امریکہ اور مغربی بلاک کو سوشلسٹ انقلاب کو روکنے کی مہم میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی، اس کے بر عکس لاطینی امریکہ اور افریکہ کے مختلف ممالک میں کئی نئی سوشلسٹ تحریکیں منظم ہونا شروع ہو گئیں۔ چین میں قوم پرست سوشلست انقلاب کے بعد کیوبا سمیت کئی ممالک  پہلے ہی اس صف میں شامل ہوچکے تھے۔ سوشلسٹ انقلاب کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے امریکہ نے کچھ ملکوں کو خصوصی طور پر اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ اپنے محل وقوع یعنی چین اور سویت یونین سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ، جو خصوصی توجہ کا مرکز بنے تھے۔

ان ملکوں میں ایک طرف تو فوجی اتحادوں کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف علاقائی اور عالمی محاذ بنائے گئے، اور دوسری طرف ان ممالک کے اندر سوشلسٹ تحریکوں کو کچلنے کے لیے گہری منصوبہ بندی کی گئی، جس کے لیے کروڑوں ڈالرز کا بجٹ مختص کیا گیا۔ کمیونزم کے روکنے کے لیے امریکہ نے ابتدائی طور پر اڑتالیس بلین ڈالر مختص کیے، جن کو سوویت مخالف امریکہ نواز حکومتوں کے ذریعے سوویت یونین کی پیش قدمی اور سوشلزم کا پھیلاو روکنے کے لیے خرچ کیا گیا۔

آگے چل کر واقعات نے کیا رخ اختیار کیا، اس کا احوال آئندہ کی تحریر میں پیش کیا جائے گا۔

Comments are closed.