شناخت اقدار اور آزادی۔4


مہرجان


بنیادی تضاد کی بنیاد پہ محکومیت کی”شناخت”جب بطور اجتماع کے ہو تو پھر انفرادی جہد کبھی بھی اس محکومیت کو ختم کرنے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ، جس طرح ایک “اجتماع” کو محکوم رکھا گیا ہے اب “اجتماعی” جہد سے ہی اس محکومیت کا خاتمہ ممکن ہے ،اسی لیےاس اجتماعی جہد کے لیے ہر طبقے و ہرطبقہ فکر کے افراد جو باہمی رشتوں میں “محبت عزت و وقار” کا یا باالفاظ دیگر “شناخت اقدار اور آزادی” کا قائل ہیں۔ اس اجتماعی جہد میں اپنے اپنے دائرہ افکار اور صلاحیتوں کے بل بوتے پہ فعال کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ حاکم و محکوم کا “محبت عزت و وقار” کا رشتہ دوطرفہ برابری کی بنیاد پہ ایسا ممکن العمل ہو کہ حاکم کو اپنی حاکمیت سے دستبردار ہونا پڑے اور محکوم کو اس کی محکومیت سے آزادی ملے ۔

یہاں ہر طبقے کی بات اس پس منظر میں بھی ہورہی ہے کہ حاکم (کالونائزر ) طبقہ کا فرد بھی اپنے طبقے سے بغاوت کرکے محکوم (کالونائزڈ ) طبقے کے لیے “شناخت اقدار اور آزادی” کے لیے عملی طور پر اجتماعی جہد میں شریک سفر ہو ، تاریخ میں سارتر اس کی ایک مثال ہے،جو فرانسیسی ہوکر بھی فرانس کے خلاف الجزائر کے ساتھ عملی طور پہ ہم سفر رہا ، یاد رہے جب محکوم اس اجتماعی جہد کے لیے کمر بستہ ہوجاتا ہے اب اس کی محکومیت فقط اُس محکوم کی نہیں رہتی جسے عدم مزاحمت کی بناء پر حقیر جانا جاتا ہے بلکہ اب وہ ایک ایسی اجتماعی قوت بن جاتی ہے جو ہمہ گیر مزاحمت پہ یقین رکھتی ہے اور اس کی مزاحمت کی بنیاد “محبت” ہوتی ہے نہ کہ قبضہ گیریت کی ہوس ۔

محکوم نہ صرف اپنی محکومیت کی شناخت کو مٹاکر “محبت و عزت وقار” کے لیے مزاحمت کا عَلم کو بلند کررہا ہوتا ہے بلکہ آقا کی آقائیت کو بھی زمین بوس کردیتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ محبت برابری کی بنیاد پہ ہوتی ہے ۔اس ہمہ گیر مزاحمت سے ایسا شعور جنم لے رہا ہوتا ہے ، جو بقول ھیگل موت کو زندگی پہ ترجیح دیتا ہے اسی اجتماعیت کی بنیاد پہ جدوجہد کا کارواں جاری و ساری رہتا ہے ۔ یہ خاصہ طویل اور سخت آزما سفر ہمہ گیر مزاحمت کی صورت میں کئ مراحل میں جاری و ساری رہتا ہے ۔

اجتماعیت کی بات افلاطون ، ارسطو ، ہیگل و مارکس اینگلز مختلف اشکال میں کرتے آرہے ہیں ، جو یونیورسلٹی اور “معروضی و جدلیاتی” حقیقت کے مختلف تناظر میں قائل بڑے بڑے عالِم گذرے ہیں، جو سیاسی میدان میں اجتماعیت میں ہی فرد کی آذادی کو ممکن دیکھتے ہیں ۔اور اسی اجتماعیت کی بنیاد پہ انہیں ڈکٹیٹر فلاسفر ، سماج دشمن فلاسفر بھی کہا گیا۔ تنقید کا اصل ہدف ہیگل رہا یہاں تک کہا گیا کہ ہیگل نے فلسفے کے کنوئیں میں وہ زہر بھرا ہے جس زہر سے نئی نسل چھٹکارہ نہیں پاسکتی۔

کارل پوپر جن کا میدان سائنسی فلسفہ تھا جب وہ افلاطون، ارسطو ، ھیگل مارکس پر اس حوالے سے تنقید کرتا ہے گرچہ وہ اپنی تنقیدی کتاب کی ابتدائیہ میں ان فلاسفرز کی عظمت سے انکار نہیں کرتا، بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ بڑے لوگوں سے کبھی کبھی بڑی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، اور ان سے کُلیت کی تناظر میں بڑی غلطی سرزد ہوئی جس سے انفرادی آزادی کو زک پہنچی ہے لیکن وہ اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اپنی تنقید کو تباہ کن بھی سمجھتا ہے، انکی پوری تنقید سوڈو (مصنوعی) سائنس سے ہوکر تاریخی جبر اور مطلق العنانیت پہ ختم ہوتی ہے۔

ان کی نظر میں معروض کو حقیقت ماننے والے بطور خاص کر ہیگل کی کُلیت کو (ٹوٹلی ٹیرن) ہدفِ تنقید بناکر وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ فلاسفرز دراصل فرد کی آزادی کو اجتماع میں دیکھ کر مطلق العنانیت کے وکیل ہوتے ہیں ، لیکن ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ مطلق العنانیت کی بھی کئی اشکال ہیں، مختلف فلاسفرز نے مطلق العنانیت کی مختلف تشریحات کرکے قدیم اور جدید مطلق العنانیت میں افتراق کو روا رکھا ہے ،اس لیے جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانیت کو مکمل طور پہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

آج کی دنیا میں ویٹو پاور اس کی ایک عمدہ مثال ہے ،ماؤ نے “جمہوری مرکزیت” کو اس طرح کی اجتماعی جہد کے لیے کارگر سمجھا ہے ، جسے جدلیاتی انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔البتہ کارل پوپر اسی اجتماعیت کی آڑ میں نیشنل ازم کو بھی میجک اور متھ کے حوالے سے دیکھتا ہے۔جبکہ فلسفے کا طالب علم متھ کو مکمل طور پہ نظرانداز نہیں کرسکتا ، جیسا کہ جدید جمہوریت میں بھی متھ کو نظرانداز نہیں کیا گیا، کیونکہ جدید جمہوریت بھی مکمل عقلی بنیادوں پہ نہیں کھڑی ، اس لئے نیشنل ازم کو صرف متھیکل کہہ کر نظرانداز کرنا ، نیشنل ازم کو فقط جُز میں دیکھنے کے مترادف ہے، جبکہ سارے اجزاء مل کر بھی کُل کی حیثیت اختیار نہیں کر پاتے۔ کُل کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے ، قلم (غیر زی روح) کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سارے اجزاء کو ملا کر اس قلم کے برابر نہیں کیا جاسکتا۔ جس قلم سے میں لکھ رہا ہوں ، ایلن ووڈ اور ٹیلنڈ گرانٹ اس حوالے سے خرگوش (زی روح) کی مثال دیتے ہیں ، کُلیت ھیگل کے ہاں بنیادی موضوعات میں سے ایک موضوع ہے، جو ایک الگ باب کا متقاضی ہے ۔سر دست یہ بتانا مقصود ہے کہ اجتماعی جُہد (کُلیت) ہی اجتماعی محکومیت کے خاتمے کی اکسیر ہے۔اجتماعی جہد و اجتماعیت میں انفرادی آزادی کو کسی بھی صورت جدلیاتی فلسفہ کے تناظر میں زک نہیں پہنچتی بلکہ فرد کی آزادی بڑھ جاتی ہے

یہ اجتماعیت یا کُلیت(قومی تناظر) میں “زمین و تاریخ و اقدار” سے جڑت کی بنیاد پہ بنتی ہے، یہ جڑت اس قدر مضبوط ہوتی ہے ،کہ زمیں ماں کی مانند نہ صرف زمین زادوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے بلکہ ان سے صبح و شام کلام بھی کرتی ہے ، یہ جڑت بندوق سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے جہاں زمین زادے گُلزمین کی گیت گاکر محو رقص ہوتے ہیں، انکے گیتوں کو بارود کی ڈھیر سے کالونائزربھسم کرنا چاہتا ہے وہ اپنی طاقت کے نشے میں بد مست ہوکر ان سُروں اور سنگیت کو دبانا چاہتا ہے جو گُلزمین کے قلب و جاں سے زمیں زادوں کے لیے بکھیر رہے ہوتے ہیں۔

پہلے بھی کہا تھا کہ استعمار کی سب پہلی یہی کوشش ہوتی ہے کہ محکوم کا رشتہ اس کی زمین سے ، اس کی تاریخ سے ، اس کی اقدار سے کاٹ دیا جائے، جب محکوم کا رشتہ زمین ، تاریخ و اقدار سے کٹ جاتا ہے ، تو پھر اجتماعیت وجودیاتی نقطہ نظر سے وجود تو رکھتی ہے لیکن جہت نہیں رکھتی، جہت “شناخت اقدار اور آزادی” کی ہمیشہ مرہون منت ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابل وہ لوگ جو “شناخت اقدار اور آزادی” پہ یقین نہیں رکھتے ، ایسے محکومیت کے علمبردار سمجھوتہ بازی کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں ، وہ اس طرح کے ہمہ گیر مزاحمت کے حامی نہیں ہوتے ، وہ زندگی کو موت پہ ترجیح دے کر “شناخت اقدار اور آزادی” کے سرے سے قائل نہیں ہوتے وہ محکومیت کے عنصر کو کبھی کبھار سمجھ کر بھی سمجھوتہ بازی کے ہنر کو بہتر گردانتے ہیں وہ پوری قوم کی محکومیت کو پس پشت ڈال کر نوآبادیاتی ریاست کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں ، وہ دراصل حاکم کے گھوڑے پہ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔

انہیں یہ سمجھ تو ہوتی ہے کہ وہ دراصل کیا کررہے ہیں لیکن احساس نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگ ہم میں (سیلف) سے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ شعوری یا لاشعوری طور پہ حاکم وقت کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، اسکے بیانیے سے لے کر ان کی لکھت تک قومی شعور میں دراڑ ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بقول فرانز فینن ایسے لوگ جو ہم میں سے ہوتے ہیں “قومی شعور کے عناصر پر اندرونی طور پر سے حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ باتیں عام کرتے ہیں جیسا کہ الجزائر والوں کے لیے کہا گیا کہ “ الجزائر ایک قوم نہیں ہے وہ نہ کبھی ایک قوم رہا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا” “الجزائری حب الوطنی بکواس ہے” ان جیسے لکھت کو فینن ذہنی امراض کہتا ہے جو استعماریت کی پیدا کردہ ہے۔

اس کے مقابل جو اپنی زمین ، تاریخ اور اقدار کے ارتقائ سفر میں مگن ہوتے ہیں انہیں کبھی ریڈیکل ہونے کا خطاب ملتا ہے ، تو کبھی رجعت پسندی کا ، یہ سارے تمغے ہمیشہ کالونائزر کی عطاء ہوتی ہے، ان حاکمانہ ذہنیت رکھنے والے لکھاریوں پہ سارتر سے لے کر فینن تک نے سیر حاصل مباحث کرکے ان کی خردپسندی کے لبادوں کو چاک چاک کیا ہے کہ کیسے یہ لوگ کمال مہارت سے زمین زادوں کو رجعت پسندی ، نسل پرستی کا طعنہ دیتے ہیں۔

ان کی کمال مہارت یہی ہے کہ جو لوگ اپنی زمین ، تاریخ اور اقدار کی بات کریں ، ان اقدار کی بات کریں جہاں قول و فعل میں تضاد نہ ہو ، جہاں زمین کسی ایک فرد کی ملکیت نہ ہو ، جہاں زمین کو ماں کا درجہ دے کر اس کی خرید و فروخت کو ماں کی خرید و فروخت سے تشبیہ دی جاتی ہو ، جہاں سرکار (کالونیل فورسز) کا بندہ ہونے کو معیار سمجھا جاتا ہو ، ان جیسی اقدار کی بات کرنے والا ریڈیکل ، رجعت پسند ، نسل پرست کہلاتا ہے، لیکن دوسری جانب ایسے ریڈیکل ،رجعت پسند و نسل پرست ہی اپنی اس شناخت اُن اقدار اور اُس آزادی کی تلاش میں کوشاں رہتے ہیں جہاں بقول شاعر

نہ سمو کانہل بی جزی
نہ مست ملامی بی ڈیہہ
Where nor “Sammo” will be vulnerable

Neither “Mast” be endanger

پہلا حصہ

شناخت، اقدار اور آزادی

دوسرا حصہ

شناخت ، اقدار اور آزادی۔2

تیسرا حصہ

شناخت ،اقدار اور آزادی-3

Comments are closed.