کیا آج کے دور میں مارکسزم قابل عمل تھیوری ہے؟

مجھے سوشلزم یا مارکسزم کی تھیوری سے کوئی اختلاف نہیں۔ سوشلزم اور مارکسزم کے پرچارک انسانیت کی بھلائی کی باتیں کرتے ہیں غیر طبقاتی سماج کی بات کرتے ہیں ۔ اگر کسی بھی لیفٹ کی پارٹی کا منشور دیکھا جائے تو وہ جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے لیکن میرا ان سے ہمیشہ یہی سوال رہا ہے کہ وہ اس تھیوری کو عملی صورت کیسے دیں گے۔ تو اکثریت کا جواب انقلاب ہوتا ہے چند ایک معذرت خوانہ انداز میں جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سوشلزم، جمہوریت کے ذریعے آسکتا ہے؟ تو اس کا جواب نہ میں ہے۔

جمہوریت میں آپ کو کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں کچھ لو اور کچھ دو پر سیاست ہوتی ہے۔ ماضی میں بھارت کی کمیونسٹ پارٹیاں جب بھی اقتدار میں شریک ہوئیں تو انھوں نے بے شمار سمجھوتے کیے۔ جمہوریت میں سوشلزم ختم ہوجاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام ہوتا ہے اورعوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

اگر سوشلزم کو بذریعہ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو شاید ہم تاریخ کے اس دور میں آ چکے ہیں کہ ایسا ناممکن ہوچکا ہے ۔فرض کریں مسلح انقلاب آ بھی گیا تو یہ ڈکٹیٹر شپ ہوگی اور ذرا سا بھی اختلاف رائے رکھنے والے کا سرقلم کردیاجائے گا۔

اب المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سوشلزم اور مارکسزم کے دعویداروں سے جب بھی پوچھا جائے کہ آپ جس انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ کیسے آئے گا؟ جمہوریت یا خونی انقلاب کے ذریعے؟ لیکن یہ حضرات کوئی بھی واضح جواب دینے سے ہمیشہ کتراتے ہیں۔ دبے لفظوں میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن تان انقلاب پر ہی ٹوٹتی ہے۔تیمور رحمن ہوں یا کوئی اور شمالی کوریا ، کیوبا اور چین یا سابقہ سوویت یونین کی ڈکٹیٹر شپ کو ماڈل ریاستیں قرار دیتے ہیں۔

ہمارے ایک کامریڈ دوست کا کہنا ہے کہ جو بھی لیفٹسٹ اگر چار کتابیں پڑھ لے تو وہ اپنی کمیونسٹ پارٹی بنا لیتا ہے اور اس وقت کئی تانگہ پارٹیاں موجود ہیں۔ کئی پولٹ بیورو بھی ہیں۔ ہر دو تین سال بعد انہیں اکٹھا کرنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن اس بات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ سیکرٹری جنرل کون ہوگا۔ ان سیاسی پارٹیوں کی عوام الناس میں ذرہ برابر پذیرائی نہیں ۔ ماضی میں کوئی لیفٹسٹ لیڈر اگر انتخاب لڑا بھی ہے تو اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھتا ہے۔

بنیاد ی بات یہ ہے کہ آئیڈیالوجی (چاہے وہ رائٹ ہو یا لیفٹ ) کی بنیاد پر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔ اگر بنی تو وہ نری ڈکیٹیٹر شپ ہوگی۔سوشلسٹوں اور مارکسسٹوں کو پاپلولر سیاست پر لعن طعن کرنے اور سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہیے ۔ سیاستدانوں، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور غیر ملکی اداروں و ممالک کو مورود الزام ٹھہرانے کا بیانیہ ہماری عسکری ایسٹیبلشمنٹ کو بھاتا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ یہ بیانیہ جاری رکھا جائے۔

شعیب عادل

Comments are closed.