بگڑتی معیشت کا شاخسانہ، سفید پوش طبقہ گداگری پر مجبور

سوشل میڈیا پر ایک صارف ریحانہ واگہ لکھتی ہیں کہ آج گوشت والے کی دکان پر گئ تو پتہ چلا جہاں پہلے چار پانچ ورکر ہوتے تھے اب ایک رہ گیا ھے۔ پوچھا کدھر گئے تو بولا افورڈ نہیں ہوتے اس لئے زیادہ کام خود کر رہا ہوں۔ ٹیلر کے پاس گئی تو جہاں پہلے چار پانچ شاگرد بیٹھے ھوتے تھے اب دو رہ گئے ہیں ۔ وہاں بھی یہی جواب کہ باجی فارغ کر دیا کیونکہ تنخواہ نہ بھی دیں تو ان کو دانا پانی تو دینا ہی پڑتا ہے۔ ریسٹورنٹس پر جاؤ تو وہاں یقینا ویٹرز کی تعداد پہلے سے کم نظر آئے گی۔ مطلب ہو کیا ر ہا ہے؟ یہ سب محنت مزدوری کرنے والے کہاں جائیں گے اور کہاں سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے؟

ڈی ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسلام آباد میں سرخ، پیلے، ہرے ٹریفک کے اشارے ہوں یا آٹا، چینی،اور دالیں بیچتے کریانہ اسٹور ہوں، بس نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف بھکاریوں کا سیلاب سا امڈ آیا ہو جن میں زیادہ تر سفید پوش معمر افراد اپنا منہ ڈھانپے مہنگائی  میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پھیلائے اور اپنی شناخت دنیا سے چھپاتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک کریانہ اسٹور جو کہ کراچی کمپنی میں واقع ہے، وہیں فائزہ بھی سامان سے لدی ٹرالی گاڑی کی طرف دھکیل رہی تھیں جب چھ  سے آٹھ لوگوں نے باری باری اس سے مدد کے لیے ہاتھ آگے پھیلایا تو ایک خوف نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی وہ اس خوف سے کسی حد تک خود کو آزاد محسوس کر پائیں۔

شوہر کے وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، جس طرح یہ مانگنے والے سامان کی ٹرالی کو دیکھ رہے تھے مجھے یوں لگا کہ ہم پر حملہ کر کہ سامان نہ چھین لیں۔‘‘ حالانکہ فائزہ اسٹور جانے سے پہلے حسب توفیق دو سے تین بزرگ افراد کی مالی مدد کر چکی تھیں مگر پھر بھی سامان چھن جانے کے خوف کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں اللہ اس سے ناراض نہ ہو جائے کہ وہ ان کی کچھ داد رسی نہ کرپائیں۔

اسی سٹور کے باہر سائیڈ پر ایک سفید ریش بزرگ بھی ہاتھ میں چند رومال تھامے، اپنے چہرے کو ماسک اور سر کو سفید اور گلابی رنگ کے چیک والے رومال سے ڈھانپے کسی مہربان نظر کے منتظر تھے جو ان کی طرف مدد کے لیے بڑھے اور ان کو خود ہاتھ پھیلانے آگے نہ جانا پڑے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے متین بابا (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ وہ بری امام (اسلام آباد کے پہلو میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں) میں رہتے ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں، جن میں چار شادی شدہ ہیں اور دو بیٹیاں ابھی گھر میں ہیں۔ بیٹے اچھے ہیں مگر گزر بسر نہیں ہو رہا مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہوں مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا،یہ کہتے ہوئے اُن کے گلے میں پھنسے آنسوؤں نے اُن کی آواز کو دبا دیا اور چہرے پہ لگا ماسک آنسوؤں سے بھیگ گیا۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی گونج  کو ہم ہر طرف سن رہے ہیں مگر اب اس کے اثرات غریب طبقے کی زندگیوں پر بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ مانگنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اورجب ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور یا روایتی بھکاری نہیں ہیں۔

ان لوگوں میں کثیر تعداد بزرگ خواتین و حضرات کی ہے اور یہ لوگ اپنا چہرہ ماسک یا دوپٹے سے چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ کہیں کوئی جاننے والا نہ مل جائے۔ کسی کے ہاتھ میں دو چار رومال، پین، مسواک یا نمکو کے پیکٹ دکھائی دیتے ہیں جس کو بیچنے کے بہانے وہ مدد کا سوال کرتے ہیں۔

متین بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ گھر سے رومال بیچنے کا کہہ کر نکلتے ہیں اور کسی کو بھی ان کے مانگنے کے بارے میں علم نہیں ہے۔

پاکستان میں ہر چڑھتے دن کے ساتھ  پیٹرولیم مصنوعات  اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح  تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے جس نے متوسط اور غریب طبقے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر محفل مہنگائی کے تذکرے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور اوپر سے بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

اسی بارے میں جب ماہر معاشیات محمد ناصر، جو کہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن ہیں، سے بات کی گئی تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مہنگائی کی شرح تو چھ تا ستائیس فیصد ہے مگر ہمیں گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فوڈ انفلیشن (کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی) جو براہ راست غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے وہ اس وقت پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین سطح تقریباً چالیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔

محمد ناصر کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو مہنگائی اپنے عروج پر ہے دوسری طرف پاکستان کے ابتر معاشی حالات  کی وجہ سے بے روزگاری بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ جو ایک بار پھر غریبوں کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر انکم جنریشن کے لیے نئے نئے ٹیکس لگا رہا ہے جو کہ مہنگائی کی آگ میں ایندھن کا کام کر رہے ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں اور ڈیفالٹ کا خطرہ الگ سر پر منڈلا رہا ہے۔

انہوں نے ایک اور اہم نقطے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی متوسط طبقے کو بھی خط غربت سے نیچے دھکیلتے ہوئے امیر اور غریب دو طبقوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا اور ہمیں ہر طرف لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے ہاتھ پھلائے نظر آئیں گے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو غریب عوام کی آواز تھی اس وقت اقتدار میں ہے اور وہ کوئی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔

dw.com/urud & Web desk

Comments are closed.