سندھ میں مردم شماری۔اندیشے اور وسوسے

بصیر نوید

سندھ میں مردم و خانہ شماری کے آغاز پر ہی مختلف شکوک و شبہات نے جنم لینا شروع کردیا ہے اور ایک عام تاثر پیدا ہوگیا کہ اسکے نتائج سندھیوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا شاخسانہ بنیں گے۔ اسی تسلسل میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سیاسی مصلحت کے پیش نظر کسی کی فرمائش پر حالیہ مردم شماری کا انعقاد کرایا جارہا ہے تاکہ حکمراں اتحاد کی ایک جماعت کو جو اپنے وجود کے مستقبل کیلئے فکر مند ہے استحکام دیا جاسکے۔

صوبے کی سول سوسائٹی اور قوم پرست حلقے حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ محض پانچ سال کے عرصے میں دوبارہ مردم و خانہ شماری کیوں کرائی جارہی ہے۔ جبکہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کرائی جاتی ہے کیونکہ آبادی کے تناسب میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، بہت سارے مر جاتے ہیں یا ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتے ہیں یا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہروں کی طرف کچھ عرصے کیلئے جاتے ہیں۔ اسے عمومی طور پر ڈیموگرافک تبدیلیاں کہتے ہیں۔

سندھ میں ویسے ہی ڈیموگرافک تبدیلیوں پر سب سے زیادہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کو روکنے کیلئے وہاں کی صوبائی حکومتوں نے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی ہیں جبکہ دوسری بڑی صوبائی جماعت ہمیشہ غیر مقامی و غیر ملکی آبادی کی آمد پر معترض نہیں رہی کیونکہ اس کے نزدیک ایسی آبادی بالآخر انکے ووٹر ہی ہوتی ہے۔ حالیہ مردم شماری بھی اسی جماعت کی بہتر ین سیاسی حکمت عملی کے باعث ہورہی ہے جس نے عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران جب حزب مخالف کی تمام جماعتیں نئی حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی تھیں تو ایم کیو ایم نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرائے جس میں نئی مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ممکنہ اقتدار کے نشہ میں مست جماعتوں نے اس وقت ایسے مطالبہ کے خوفناک پہلو کو دیکھے بغیر تسلیم کرلیا تھا۔

حالیہ مردم اور خانہ شماری میں چار وجوہ کی بنیاد پر سندھ کے اندر اعتراضات پائے جاتے ہیں۔ 1۔ ڈیجیٹل مردم شماری یعنی جس میں قومی شناختی کارڈ کی شرط کا نہ ہونا، 2۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں جس میں ڈیڑھ کروڑ لوگ سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، 3۔ سندھ غیر ملکی اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے افراد کیلئے علیحدہ سے خانہ پری کے فارم میں علیحدہ سے خانے نہیں بنائے گئے اور 4۔ کم مدت میں غیر منظم طور پر مردم شماری کا انعقاد کرانا۔

اول بات تو یہ ہے کہ اتنی جلدی میں مردم و خانہ شماری کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اسکے بارے سرکاری طور پر کوئی ٹھوس وضاحت نہیں دی گئی ہے۔ سندھ کے خاص پس منظر میں سب سے تشویشناک امر قومی شناختی کارڈ کی شرط کا خاتمہ ہے۔ حالانکہ اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں کہ شناختی کارڈ کی شرط بحالی کردی گئی ہے مگر ایسا کوئی نوٹیفیکیشن ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اس شرط کے ختم ہونے سے بہت تباہ کن نتائج نکلیں گے کیونکہ آزاد معیشت دانوں کے مطابق اس وقت سندھ میں ستر لاکھ سے زائد غیر ملکی افراد آباد ہیں جن کی نوے فیصد تعداد کراچی میں ہے۔ سپریم کورٹ کے کراچی بد امنی کیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں 40 لاکھ غیر ملکی غیر قانونی طور پر آباد انہیں باہر نکال دیا جائے۔ مگر یہاں تو الٹا ہی انہیں مردم شماری کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

اس وقت سندھ میں افغانی، بنگالی، بڑی اور روہنگیا اور دیگر کچھ اور ملکوں کے بھی آباد ہیں۔ اس طرح سے دوسرے صوبوں سے بھی روزگار کیلئے آباد ہیں جو کہ دونوں جگہ رجسٹر ہوں گے یعنی انکا شمار ان کے آبائی صوبوں میں ہوگا جو این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) میں سے صوبوں کو آبادی کے تناسب سے ملنے والی رقوم میں سندھ کے حصے پر بھی قابض ہوں اور اپنے اپنے صوبے سے بھی فوائد حاصل کریں گے۔ یہ افراد پھر اپنے صوبوں سے بھی ووٹرز ہوں گے اور سندھ سے بھی۔

شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کے باعث اندراج کی صداقت کو جانچنے کا کوئی نظام نہیں ہوگا۔ اگر شناختی کارڈ کے ذریعے اندراج ہو تو پھر اندراج کے ریکارڈ سے پوری تصدیق ہوتی ہے کہ فرد اصل میں کہاں کا/کی رہائشی ہے، ملکی ہے یا غیر ملکی؟ اس سے اوپر المیہ یہ ہے کہ مردم شماری کے فارم پر وہ خانے نہیں دیئے گئے جو 1998 کی مردم شماری میں دیئے گئے تھے۔ سندھ کے اور خاص طور پر کراچی کے حالات کے پیش نظر مردم شماری کے فارم میں مزید تین خانوں کا اضافہ ضروری ہے، 1۔ سندھ کے مستقل رہائشی 2۔ آبائی صوبے کا نام اور 3۔ غیر ملکی۔ اگر یہ خانے نہیں دیئے جاتے تو پھر سندھ کے مستقل باشندے جن میں اردو اور سندھی بولنے والے شامل ہیں وہ ایک غیر یقینی کی صورت حال اور اپنے وسائل سے محرومی کا شکار رہیں گے۔

جن صوبوں سے لوگ کراچی آتے ہیں وہاں کے حکمراں (کسی کی بھی حکومت ہو) این ایف سی ایوارڈ سے تو ایک ایک پیسے کی وصولی کرتے ہیں مگر اپنی آبادی کو روزگار مہیا نہیں کرتے اور سندھ کا راستہ دکھاتے ہیں۔ پنجاب کے کسی بھی حصے میں سیلاب آجائے تو سیلاب زدگان کی آبادکاری نہیں کی جاتی بلکہ انہیں کراچی جانے کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح پختونخواہ میں بھی بائیس سالوں سے مختلف ناموں کے شروع کئے گئے آپریشنز کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں اور سیلابوں کے متاثرین کو آباد کرنے کی بجائے سندھ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

سندھ میں حالیہ انتہائی متنازعہ مردم شماری حالیہ سیلاب زدگان کی قیامت خیز آفت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ ڈیڑھ کروڑ لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ نیشنل ڈیسازٹر مینیجمنٹ کے مطابق سوا کروڑ افراد افراد متاثر ہوئے ہیں، 14 لاکھ گھر مکمل اور 21 لاکھ جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ کیا ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو مردم شماری اور 35 لاکھ گھروں کو خانہ شماری سے باہر کر کے اپنی پسند کی شماری کرائی جائے گی؟ اس صورت حال میں تو ڈیجیٹل کیا ڈی۔فیکٹو مردم شماری بھی نہیں ہوسکتی۔بہت سارے علاقوں میں ابھی بھی پانی کھڑا ہے لوگ سڑکوں اور کھڑے پانی کے راستوں پر راتیں گزارتے ہیں ان لاکھوں لوگوں سے کیسے معلومات ملیں گی؟ علاوہ ازیں سندھ کے تین اضلاع ایسے ہیں جو کچے کے علاقے ہیں جہاں پولیس نے بھی سندھ حکومت کو بتایا کہ وہ کچے کے علاقوں میں نہیں جاسکتی ہے وہاں اب ڈاکووں کا راج ہے۔ یہ سوچنا شاید اتحادی حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ متاثرین کا ہے۔

سال2023 کی مردم شماری شاید اپنے وقت کی سب سے ناقص اور بد انتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے یا پھر جان بوجھ کر اس طرح سے کی جارہی ہے کہ یہ ہمیشہ تنازعہ کا سبب بنے رہے اور سندھ میں مختلف ابادیوں کے درمیاں مسلسل جھگڑوں و فسادات کی وجہ بنی رہے۔ معروف محققین جناب نصیر میمن اور فضل اللہ قریشی کے مقالے کے مطابق اس مردم شماری کا سب سے ناقص پہلو یہ ہے کہ سندھ میں شمار کنندہ کی کل تعداد 28242 ہے اور بلاکس 43838 ہیں اس طرح ہر شمار کنندہ کے حصے میں ڈیڑھ بلاک آتا ہے یعنی ہر ایک کو شماریات کیلئے 350 سے لیکر 400 گھر کرنا ہوں گے۔ اور یہ کام وہ دس دن کے اندر کرے گا۔ اب اگر وہ روزانہ آٹھ گھنٹے بغیر کسی آرام کے کام کرے تو تو اسے ایک فارم بھرنے کیلئے بارہ سے چودہ منٹ لگیں گے۔

یہ فارم جس میں چالیس سے زیادہ سوالات اور اسکے ذیلی سوالات ہیں ان کیلئے جوابات حاصل کرنا ہوں گے۔ کس طرح 12 سے 14 منٹ میں ممکن ہوگا جبکہ وہ کسی کے گھر جائیں گے آواز دیکر اپنا تعارف کرائیں گے کچھ حال احوال پوچھیں گے، مقصد بتائیں، اس پورے عمل میں کم سے کم چھ منٹ تو نکل جائیں گے باقی سات آٹھ منٹ میں چالیس سوالات اور انکے جوابات تو نہیں پورے ہوسکیں گے۔ جبکہ ایک ایک پڑھے لکھے شخص کو بھی یہ فارم بھرنے میں 30 سے 40 منٹ لگتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اس نے صرف فارم کو الٹا سیدھا بھرنا ہے اور اپنے 350 سے زائد مکانات کے ٹارگٹ کو دس روز میں مکمل کرنے کیلئے کئی مکانات و خاندانوں کو بھی چھوڑنا پڑےگا۔ یہ کام بھی اسے کراچی سمیت بڑے شہروں میں جہاں آبادی قریب قریب یا کثیر المنزلہ عمارتوں میں رہتی ہے وہاں 6 سے 8 منٹ میں ممکن ہوگا۔ چھوٹے شہروں اور گوٹھ میں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہوگا۔

اس پورے عمل کا نقصان تو سندھ کی مقامی آبادی کو ہوگا جنہیں مردم اور خانہ شماری میں کم سے کم دکھا کر انہیں اقلیت قرار دیدیا جائے گا۔ یہ عمل سندھیوں کیلئے کیوں باعث تشویش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے دارالحکومت میں سندھ بولنے والے افراد کی تعداد صرف 10 فیصد ہے جبکہ پنجاب کے دارالحکومت میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 86 فیصد، پشاور میں پشتو بولنے والوں کی 92 اور کوئٹہ میں وہاں کی مقامی پشتو بولنے والوں کی تعداد 66 فیصد جبکہ براہوی اور بلوچی 30 فیصد ہے۔

سال2017 کی مردم شماری میں سندھ میں سندھی بولنے والوں کی تعداد 62 فیصد، اردو بولنے والوں کی تعداد 18 فیصد، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کی تعداد 5۔ 5 فیصد جبکہ سرائیکی اور بلوچی والوں کی مجموعی تعداد 4 اعشاریہ 5 فیصد تھی۔ سندھی بولنے والوں کی اجتماعی شکایت ہے کہ 2017 کی مردم شماری میں سندھ آبادی 7 کروڑ تھی جسے کم کرکے 4 کروڑ دکھایا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی اردو اور سندھی بولنے والوں کو اندیشہ ہے شفافیت نہ ہونے کے باعث ان کی مجموعی آبادی کو غیر ملکیوں اور دیگر صوبوں سے آئے والے باشندوں کو شمار کرکے کم دکھایا جائے گا۔ اور سندھ جو ملک کو 71 فیصد ریونیو دیتا اپنے حق سے محروم کردیا جائے گا۔

Comments are closed.