چین کی معیشت کیوں زوال پذیر ہے؟


محمد شعیب عادل

حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کے ریویو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چین کے خلاف سازشیں کررہا ہے اور ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

جب کسی ملک کا صدر یہ کہنا شروع کردے کہ امریکہ ہمارے خلاف سازشیں کررہا ہے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس حکمران کی اقتدار پر گرفت کمزور ہورہی ہے اور وہ اس کا ذمہ دار غیر ملکی طاقتوں کو ٹھہرانا شروع کردیتا ہے۔

صدر شی کے دوسرے دور میں ان کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اندرون ملک سرمایہ کاروں میں بددلی پھیلی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی چین سے دوسرے ممالک میں منتقل ہونا شروع ہوچکی ہے۔ اس وقت آٹھ بڑے چینی بزنس مین، حکومتی پالیسیوں پر ہلکی پھلکی تنقید کے جرم میں زیر عتاب آچکے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ کافی عرصے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ علی بابا کے مالک جیک ما کافی عرصے سے غائب ہیں۔ ایک اور چائنیز بلین ایر “بوفاؤ” دو ہفتے سے لاپتہ ہیں کہا جارہا ہے کہ انھوں نے صدر شی کی پالیسی پر تنقید کی تھی۔

امریکی میڈیا میں شائع ہونے والے مختلف تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ جب ڈنگ زیاؤ بنگ نے چین کی معیشت کو آزاد مارکیٹ کا ماڈل بنایا تو امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ملکوں نے اس کی حمایت کی اور چین میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ آزاد مارکیٹ کی معیشت کی بدولت چین کی معاشی و سماجی ترقی میں زبردست اضافہ ہوااور غربت کی شرح بہت حد تک کم ہوئی۔ مغربی ممالک کے ماہرین کا خیال تھا کہ آزاد مارکیٹ کی معیشت چین میں بتدریج تبدیلیاں لائے گی اور چینی سماج آہستہ آہستہ جمہوریت کی طرف گامزن ہو گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔

صدر شی جن پنگ نے اپنی ڈکٹیٹر شپ مضبوط کرنے کے لیے چینی سماج کو ملنے والی آزادیوں کو بتدریج کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ عوام کی نگرانی کے لیے جگہ جگہ کیمرے لگے ہیں اوران کی موبائل فون کے ذریعے ٹریکنگ ہوتی ہے۔ ہلکی پھلکی تنقید کرنے والافوراً زیرعتاب آجاتا ہے۔ یوغر مسلمانوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیجنے کا فیصلہ بھی صدر شی نے کیا۔

صدر شی کی زیرو کووڈ کی پالیسی بھی چینی عوام میں نفرت کا باعث بنی اور پچھلے دنوں اس پالیسی کے خلاف زبردست ہنگامے شروع ہوگئے تھے ان ہنگاموں کے پیچھے صدر شی کی تیسری بلکہ متوقع چوتھی ٹرم کے عزائم کے خلاف نفرت بھی چھپی تھی۔ کووڈ 19 سے چینی معیشت کو بہت بڑا جھٹکا ملا ہے اور دوسرے شی کی پالیسیوں کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کار اپنی انڈسٹری دوسرے ممالک خاص کر بھارت منتقل کررہے ہیں۔چین میں رئیل اسٹیٹ انوسٹمنٹ بھی بحران کا شکار ہے۔ صدر شی نے کئی بڑے بڑے ہاؤسنگ کمپلیکس کی تعمیر کی اجازت دی تھی جو اب گرائے جارہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف پابندیوں کا آغاز کیا تھا۔ دراصل امریکی اداروں کا حکومت پر دباؤ تھا کہ چین انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے اور سافٹ وئیر چوری کرتا ہے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ جو نیا تجارتی معاہدہ کیا تھا اس میں چین نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ وہ انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرے گا مگر ایسا نہ ہوا۔

صدر ٹرمپ نے چین پر ٹیرف کی صورت میں پابندیاں لگائی تھیں لیکن صدر بائیڈن نے اس سے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے تمام ہائی ٹیک انڈسٹری کو امریکہ میں منتقل کرنے کا کہا ہےاور اس پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ جس میں کمپیوٹر چپس بنانے اور سولر پینلز امریکہ میں بنانے کا آغاز ہوچکا ہے۔

Comments are closed.