سعودی عرب میں مذہب سے مبرا ایک نئی قومی شناخت کی تشکیل

کعبہ کی طرح دکھنے والی ایک کمرشل عمارت، تعطیل کے نئے دن اور رمضان سے متعلق نئے قواعد سعودی عرب میں ایک ایسی قومی شناخت کی نشاندہی کر رہے ہیں جو مذہب سے منسلک نہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان سعودی دارالحکومت میں ایک دیوہیکل چوکور عمارت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سعودی ولی عہد کا دی نیو مکعبنامی یہ منصوبہ 400 میٹر اونچا اور اپنے نام کی مناسبت سے اتنا ہے چوڑا اور طویل ہوگا۔ لیکن اس کی شان و شوکت سے زیادہ اہم سعودی عرب میں رونما ہوتی وہ تبدیلی ہے جس کی یہ غماز ہے۔

دی نیو مکعب کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونے کو توقع ہے اور یہ عمارت ظاہری طور پر کعبہ سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس میں ہوٹلوں کے علاوہ تفریح کی کئی اور جگہیں موجود ہوں گی۔

اس حوالے سے کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار برونو شمٹ فیور ہیرڈ کا کہنا ہے کہ سعودی معاشرے میں اب ثقافت مذہب کی جگہ لیتی جا رہی ہے اور اب وہاں طرز تعمیر کے اعتبار سے کعبہ واحد چیز نہیں جو مکعب یا کیوبکی طرح ہو۔

دی نیو مکعب، جسے کمرشل یا تجارتی کعبہ بھی کہا جا رہا ہے، سعودی عرب میں ایک نئی قومی شناخت کی تشکیل کی طرف لیا جانے والا پہلا قدم نہیں ہے۔ ایک ایسی قومی شناخت جو مذہب سے منسلک نہیں۔ 

گزشتہ برس سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان جاری کیا تھا، جس میں ہر سال 22 فروری کو سعودی عرب کا یوم تاسیس منانے کے لیے تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا تھا۔

فیور ہیرڈ کہتے ہیں 22 فروری سعودی بادشاہ کی اپنے طور پر چنی ہوئی ایک تاریخ ہے جس کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں۔ ان کے مطابق اس دن یوم تاسیس منانے کے پیچھے قومی سوچ کارفرما ہے اور اس اقدام کا مقصد غیر مذہبی تعطیلات ہیں۔

اس طرح کا ایک اور اقدام سعودی ولی عہد کا پچھلے سال سعودی عرب کے قیام کے سال کو 1744ء سے تبدیل کر کہ 1727ء کرنے کا اعلان ہے۔ اس سے پہلے اس کے قیام کی تاریخ سعودی عرب کے شاہی خاندان اور عالم دین محمد ابن عبدالوہاب کے مابین 1744ء میں طے پانے والے ایک معاہدے پر مبنی تھی۔ 

اس معاہدے میں سعودی شاہی خاندان نے وہابیت کی مالی معاونت اور اسے تعلیم اور عوامی اخلاقیات کے امور کا اختیار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بدلے میں محمد ابن عبدالوہاب نے سعودی عرب میں شاہی خاندان کی حکمرانی کو مذہبی نقطہ نظر سے منظوری دینے کا وعدہ کیا تھا۔جبکہ 1727ء میں محمد بن سعود نے ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی سعودی ریاست کے بانی کے طور پر اقتدار سنبھالا تھا۔

فیور ہیرڈ کی رائے میں سعودی ریاست کے قیام کی نئی تشریح‘‘ کی وجہ سے ملک میں مذہب کے کردار میں کمی آئی ہے۔اس ہفتے سعودی وزارت برائے اسلامی امور نے رمضان سے متعلق قواعد میں بھی بڑی تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے، جو 22 مارچ سے نافذ کی جائیں گی۔

سعودی وزارت برائے اسلامی امور نے مساجد کے لیے عطیات جمع اور وہاں سحری اور افطار کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے احکامات کے مطابق مساجد میں نمازوں کا دورانیہ مختصر رکھنا ہوگا اور بچوں کو وہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ مسجد آنے والے افراد کو اپنا شناختی کارڈ ساتھ لانا ہوگا۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام کو چھوڑ کر دوسری مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود رکھنے اور ٹی وی پر نماز نشر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

تجزیہ کار سامی حامدی کا اس بارے میں کہنا ہے یہ ایسی قومی شناخت کی تشکیل کی طرف ایک اور قدم ہے جس کا اہم ستون اسلام نہیں ہوگا۔ ٹوئٹر پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ایم بی ایس (محمد بن سلمان) اسلام کو عوامی دائرے سے باہر نکال رہے ہیں۔‘‘ 

سعودی عرب میں ان اقدامات کی بڑے پیمانے پر مخالفت نہیں کی گئی ہے۔ فیور ہیرڈ کہتے ہیں سعودی عوام کے ان اقدامات کو قبول کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔

ان وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی سعودی شہریوں نے کنگ عبداللہ اسکالر شپکے تحت بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے اور اس لیے واپسی پر اپنے ملک میں جدت دیکھ کر بھی ان کو زیادہ ثقافتی فرق محسوس نہیں ہوتا۔  

اس وقت سعودی ریاست کی ترجیح نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کی فراہمی ہے۔ یہ شہزادہ سلمان کے 2016ء میں متعارف کیے گئے وژن 2030′ کے تحت سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں کا ایک حصہ ہے، جن کا ایک مقصد ملک میں جدت لانا بھی ہے۔اس کے نتیجے میں سعودی خواتین کو اب زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ اب وہاں سینما بھی کھل گئے ہیں اور کمیشن برائے فروغِ نیکی اور برائی کا خاتمہ بھی کیا جا چکا ہے۔

اس حوالے سے فیور ہیرڈ کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں معاشرتی اعتبار سے اب زیادہ آزادی ہے لیکن سیاسی ایکٹوازم کی اب بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے‘‘ اور ناقدین کو عوام اور  قوم کے غدار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘‘۔

اس آرٹیکل سے متعلق ڈی ڈبلیو نے سعودی حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن اس کی اشاعت تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

dw.com/urdu 

Comments are closed.