یہ سو موٹو کیا ہے ؟

بیرسٹرحمید باشانی

 یہ سو موٹو کیا ہے ؟ اور کیوں ہے۔ اس موضوع پر گزشتہ دنوں پاکستان میں کافی بحث ہو تی رہی ہے۔قانونی حلقوں کے علاوہ اس بحث میں عام لوگ بھی شامل رہے ہیں۔ دنیا بھر کے بیشتر قانونی نظاموں میں لاطینی الفاظ یا اصطلاحوں کا استعمال عام ہے۔ کامن لا میں اس کا تو اس قدر استعمال رہا ہے کہ بعض قانون دان اس علم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے لاطینی زبان سیکھنا بھی ضروری قرار دیتے رہے ہیں۔دوسری طرف ان پیچیدہ اور بسا اوقات نا قابل فہم لاطینی اصطلاحوں کے خلاف رد عمل بھی ہوتا رہا ہے۔

بہت سارے ممالک نے اپنے قانون کی نصابی کتب میں لاطینی الفاظ اور اصطلاحوں کو استعمال کو کم کرنے کی بڑی طویل شعوری کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں یہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے ملکوں میں ان لاطینی اصطلاحوں کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کامیابی کے باوجود ان لاطینی اصطلاحوں سے مکمل چھٹکارا شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو۔ ان اصطلاحوں کی خوب صورتی اور افادیت یہ ہے کہ یہ اصطلاحیں انتہائی پیچیدہ خیالات، تصورات، اور اصولوں کو انتہائی مختصر الفاظ میں ، اور بسا اوقات ، چند لفظوں میں بیان کر دینے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ جب کہ ان ہی خیالات یا قانونی اصولوں کو عام سادہ زبان میں بیان کرنے کے لیے طویل فقروں بلکہ پیرا گراف کی ضرورت ہوتی ہے۔

عام استعمال کی وجہ سے ہمارے ہاں قانون دان تو ایک طرف عام لوگ بھی لاطینی اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہیں، جو صدیوں پہلے قدیم روم کے قانونی نظام سے شروع ہوئی تھی۔سو موٹوبھی ان اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ اس اصطلاح کا سادہ مطلب کسی عدالت یا اتھارٹی کی طرف سے کسی فریق کی درخواست کے بغیر کسی معاملے کا  از خود نوٹس لیناہے۔ اور اس اصطلاح سے عام طور پر ایسی صورت حال مراد ہے، جس میں ایک جج عدالت کے سامنے کاروائی کے لیے کسی بھی فریق کی درخواست کے بغیر خود ہی یہ طے کرتا ہے کہ کوئی معاملہ ضروری اور حساس ہے، اور اس پر خود ہی اس کا نوٹس لے کر اس پر کاروائی شروع کرتا ہے۔

از خود نوٹس لینے کا رواج یا روایات دنیا میں عام نہیں ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں کامن لا ہے، وہ گاہے یہ اختیار استعمال ضرور ہوتا رہا ہے، لیکن یہ اتنا عام نہیں ہے۔ قانونی ماہرین نے سو موٹو کو جنوبی ایشیا کی ایک منفرد خصوصیت قرار دیا ہے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں سوموٹو کا استعمال کثرت سے ہوتا رہا ہے، اور یہاں کی اعلی عدالتوں کی یہ عام روایت رہی ہے۔ دولت مشترکہ کے دیگر حصوں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ کینیڈا میں، مختلف صوبوں کی عدالتوں کو اس طرح کا نوٹس لینے سے منع کیا گیا ہے، جب تک کہ کسی قانون کی طرف سے ایسا کرنے کی واضح طور پر اجازت نہ دی گئی ہو، جو طاقت کے دائرہ کار اور حد کو بیان کرتا ہے۔ یہاں گزشتہ کئی برسوں میں رپورٹ ہونے والا کوئی ایسا کیس نہیں ہے، جہاں عدالت نے کسی ایک فریق مقدمہ کی طرف سے باقاعدہ درخواست دائر کیے بغیر کسی معاملے کا از خود نوٹس لیا ہو یا اس پر کاروائی کی ہو۔

آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور کیریبین ممالک میں، جنوبی ایشیا کی طرح کے سوموٹو کی روایت نہیں ہے۔ریاستہائے متحدہ کا آئین امریکی عدالتوں کو صرف مخصوص مقدمات میں از خود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عدلیہ ایسے مقدمات کا از خود نوٹس نہیں لے گی، جو نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر قائم ہوں۔یہ اختیار پاکستان اور بھارت میں بہت استعمال ہوا ہے، اور فی زمانہ تقریباً انہی ممالک تک محدود ہو کر گیا ہے۔ باقی دنیا کے کئی ممالک میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں، اور کئی ممالک کے قانون دان تک نہیں جانتے کہ یہ سوموٹو بلا کیا ہے ؟ ۔

پاکستان میں از خود نوٹس کی روایت اتنی عام ہے کہ اس موضوع پر روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال2000 سے آج تک سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو سو چار از خود نوٹس لیے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک جسٹس نے79 کے قریب نوٹس لیے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک ایسی مملکت میں ہوتا رہا ہے، جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات کئی عشروں سے عدالتوں میں پڑے ہیں۔ درخواست گزاروں کی سماعت اور انصاف کے انتظار میں عمر گزر جاتی ہے۔ یا طویل انتظار کے بعد ملک عدم سدھار چکے ہوتے ہیں، تو ان کے مقد مات کے فیصلے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں کئی قانونی ماہرین اور دانش ور حضرات کا خیال رہا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں عدالتوں کو یقینی طور پر از خود کاروائی شروع کرنے کا اختیار حاصل رہا ہے، اور یہ ایک باقاعدہ روایت بھی بن چکی ہے۔مگر یہ کوئی بے لگام طاقت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک لکیر کھینچنے کی ضرورت تھی کہ کون سے مقدمات از خود  نوٹس لینے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اور کون سے اس سے باہر ہیں۔ قانونی دانش وروں کی رائے تھی کہ از خود کاروائیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں قانون کی تشریح کرتے ہوئے آئینی حد سے آگے بڑھتی رہی ہیں ۔ اس سے انتظامی کاموں میں پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ غیر متوقع صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے حلقوں کی جانب سے اس عمل پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ اس معاملے میں صورت حال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ بالآخر پارلیمنٹ کو باقاعدہ قانون سازی کرنی پڑی۔

اس قانون سازی کے تحت از خود نوٹس لینے کا طریقہ کار، اس کے لیے مطلوبہ ججوں کی تعداد اور اس کے خلاف اپیل کا قانون واضح کیا گیا ہے، جو وقت کی ضرورت تھی۔ نئے قانون کے تحت از خود نوٹس لینے کی روایت میں معقولیت اور ٹھہرا ؤ آئے گا۔ یہ روایت اگر جاری رہتی بھی ہے تو اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بچوں ، عورتوں اور سماج کے دیگر کمزور طبقات کی حفاظت، اور صاحب اختیار طبقات کی طرف سے کی جانے والی کسی نا انصافی کے معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔

از خود نوٹس کے کے سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والے مقدمات میں بے محابہ استعمال سے اس تصور کی نفی ہوتی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔سو موٹو، بہتر یا بدتر کے لیے، مگر یہ جلدی ختم نہیں ہوگا۔ اس کو عدالتی روایات سے نکالنے میں کچھ وقت لگے گا۔ تاہم، جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں سوموٹو کے سوال پر اپنے دائرہ کار اور عمل درآمد کے لیے ایک مناسب فریم ورک تیار کریں، جس کا اب تک فقدان ہے۔ پاکستانی عدالتوں کا سب سے بڑا مسئلہ وہ لاکھوں مقدمات ہیں، جو بر سہا برس سے سماعت کی انتظار میں بھاری فائلوں میں دفن ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انصاف کا خون ہو رہا ہے۔

اس چیلنج کو قبول کرنے اور اس کا حل نکالنے کے بجائے ہائی پروفائل شخصیات یا مقدمات کا پیچھا کرنا حقیقت سے منہ چرانے والی بات ہے۔ جدید دور کے ججز قدیم دور کے دیو مالائی بادشاہوں اور قاضیوں کی طرح اپنی افتاد طبع کے مطابق عمل کرنا کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس کے بر عکس ان کو واضح قواعد و ضوابط کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر قانون کی حکمرانی اور قانون سب کے کے لیے برابر والا اصول ایک مذاق بن جاتا ہے، جس کا مظاہرہ ہمیں گاہے عدالتوں میں نظر آتا ہے۔

Comments are closed.