غدار کون ہے؟

بیرسٹر حمید باشانی

کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک انقلابی اور غیر معمولی فیصلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ124 اے کو پاکستان کے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ اگر یہ  فیصلہ  برقرار رہتا ہے تو یہ پاکستان کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ دفعہ 124، جسے عام طور پر ’سیڈیشن لا‘ کہا جاتا ہے نوآبادیاتی ماضی کی ایک بدصورت نشانی ہے۔ یہ قانون نوآبادیاتی حکم رانوں کی طرف سے متعارف کرایا گیا تھا۔  یہ قانون نو آبا دیاتی  حکم رانوں کی اپنی نو آباد یوں پر مکمل کنٹرول کی  بے لگام خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔  نو آبادیاتی دور میں اس قانون کا استعمال حکمران طبقات کے لیے  کسی قسم کا تکلیف دہ چیلنج پیدا کرنے والے مخالفین کو قابو کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ یہ قانون کیا تھا ؟

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 الف کا مختصر خلاصہ ہے کہ جو کوئی شخص  قانونی طور پر قائم شدہ مرکزی یا صوبائی حکومت  کے خلاف نفرت پیدا کرنے ، اس توہین کرنے یا اس کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کی کوشش  کرتا ہے، اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک اور جرمانے کی سخت سزا ہوگی۔ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ قانون مقامی حکم رانوں نے اپنی اصل شکل میں پورے تقدس کے ساتھ اختیار کر لیا۔ حکم ران طبقات کا خیال رہا ہے کہ یہ قانون ریاست کی سلامتی اور تقدس کا تحفظ کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف تاریخ کے ہر دور میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حامی یہ اصرار کرتے رہے کہ یہ  قانون بنیادی طور پر حکم ران طبقات سے سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو مجرم قرار دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

تاریخی طور پر نو آبادیاتی حکم رانوں کی طرف سے اس قانون کےممتاز متاثرین میں موہن داس کرم چند  گاندھی اور بال گنگا دھر تلک جیسی مشہور شخصیات رہی ہیں، جو ہندوستان کی آزادی کی بات کرتے تھَے۔ اگرچہ قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف یہ قانون کبھی استعمال نہیں ہوا۔ لیکن جب بال گنگا در کے خلاف یہ قانون استعمال کیا گیا تو عدالتوں میں ان کا مقدمہ قائد اعظم نے خود ایک نوجوان وکیل کے طور پر لڑا تھا، اور ان کا کامیاب دفاع کیا تھا۔

پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کا ہزاروں بار غلط استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں جمہوریت اور شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی جدو جہد میں شاید ہی کوئی قابل ذکر شخص گزرا ہو ، جس نے حکمران طبقات کے خلاف کوئی مظاہرہ ،جلسہ یا جلوس منظم کیا ہو، اور اس پر یہ دفعہ نہ لگائی گئی ہو۔اس قانون کا سب سے زیادہ  غلط استعمال آزاد کشمیر میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کیا گیا۔ جس کسی نے حکومت کے خلاف تقریر کی اس پر 124 الف لگائی جاتی رہی۔ اس دفعہ کے تحت آزاد کشمیر کے تھانوں کے محرروں کو مقدمہ درج کرنے میں خاص مہارت رہی ہے، اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، اور اس قانون کے تحت مقدموں کا اندراج روز کا معمول ہے۔

انگریزوں نے یہ قانون نو آبادیوں کے لیے بنایا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے شہریوں کے خلاف اس کا استعمال کم ہی کیا۔ تاہم یہ قانون طویل عرصہ تک انگلستان کے قانون کا حصہ رہا۔ سال 2010 میں انہوں نے بالآخر اس قانون میں ترمیم کر دی۔ اس کے بر عکس انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں نا صرف یہ قانون باقی رہا بلکہ اس کے استعمال میں شدت آتی گئی۔ بھارت میں آزادی کے فورا بعد سے لے کر اس قانون کی ترمیم پر بحث ہوتی رہی۔ انسانی حقوق کے علم بردار اس کی تنسیخ کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن عملی طور پر یہ قانون موجود رہا۔

وہاں بغاوت کا یہ قانون ایک بار پھر اس وقت بحث کا موضوع بنا، جب بھارتی سپریم کورٹ اس کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت شروع کی۔  سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ  قانون آزادی اظہار جیسے بنیادی حق پر ایک غیر معقول پابندی ہے۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو سن 1837میں برطانوی مورخ اور سیاستدان تھامس بیبنگٹن میکالے کی طرف سے اس قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت حکومت کے خلاف بغاوت کو ایک جرم کے طور پر شامل  کیا گیا تھا تاکہ نو آباد یوں میں آزادی کی بات کرنے والوں کو غدار قرار دے کر کچلا جائے۔

تعزیرات ہند کے تحت جو شخص، الفاظ کے ذریعے،  بولنے ، لکھنے، یا نشانات کے ذریعے،  حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے یا لانے کی کوشش کرتا ہے، حکومت کی توہین کرتا ہے، یا اس کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ غداری کا مرتکب ہوتا ہے، جس پر دفعہ 124 الف کا طلاق ہوتا ہے۔اس دفعہ کے تحت بھارت میں آزادی کے بعد بھی  بغاوت کو ایک نا قابل ضمانت جرم کے برقرار رکھا گیا، جس کی سزا تین سال سے  لے کر عمر قید  تک اور جرمانے کی تھی۔ اس قانون کے تحت فرد جرم عائد ہونے پر ملزم کو  سرکاری ملازمت سے بھی روکا جا سکتا ہے، اور سرکار ان کا پا سپورٹ بھی ضبط کر سکتی ہے۔

بھارت میں اس قانون پر لاء کمیشن آف انڈیا نے 2018 میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی، جس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق، آئین بناتے وقت، دستور ساز اسمبلی نے اس وقت کے آرٹیکل 13 کے تحت آزادی اظہار اور اظہار پر پابندی کے طور پر بغاوت کو شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن بد قسمتی سے یہ جرم  دفعہ 124 اے کے تحت برقرار رہا۔ رپورٹ  میں کہا گیا کہ  جمہوریت میں، ایک ہی گانوں کی کتاب سے گانا حب الوطنی کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کو اپنے طریقے سے اپنے ملک کے لیے اپنا پیار ظاہر کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے، ہر شہری حکومت کی پالیسی میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تعمیری تنقید یا بحث و مباحثے میں حصہ لے  سکتا ہے۔

اس طرح کے خیالات میں استعمال ہونے والے تاثرات کچھ لوگوں کے لیے سخت اور ناخوشگوار ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے عمل کو فتنہ انگیز قرار نہیں دیا جا سکتا۔کمیشن نے رائے دی کہ دفعہ 124کو صرف ان صورتوں میں لاگو کیا جانا چاہئے،  جہاں کسی بھی سرگرمی کے پیچھے امن عامہ میں خلل ڈالنا یا تشدد اور غیر قانونی طریقوں سے حکومت کا تختہ الٹنا مقصود ہو۔ اس قانون کے خاتمے  کے لیے بھارتی پارلیمنٹ میں بھی  کئی دفعہ مباحثہ ہوا، مگر دنیا کی  اس سب سے بڑے جمہوریت کا قانون سازادارہ  بھی اس قانون میں ترمیم لانے سے قاصر رہا۔

سن 2011میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے ممبر پارلیمنٹ پی ڈی راجہ نے راجیہ سبھا میں ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا،  جس میں تجویز کیا گیا کہ اس دفعہ ختم کر دیا جائے، لیکن ان کا  یہ بل پاس نہ ہو سکا ۔ سن2015 میں  کانگرس کے مشہور پارلیمنٹیرین ششی تھرور نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا،  جس میں کہا گیا کہ  انڈین پینل کوڈ کے دفعہ 124 اے میں ترمیم کی جائے،  اور صرف براہ راست تشدد کے استعمال یا تشدد کو بھڑکانے کو غداریقرار دیا جائے۔ لیکن یہ بات آگے نہ بڑھی۔

بھارت میں اس قانون کے خلاف بولنے کا سہرا بھارتی سپریم کورٹ کے سر بندھا۔ جولائی 2021 میں، چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا غداری ایک نوآبادیاتی قانون ہے۔ یہ آزادیوں کو دباتا ہے۔ اسے مہاتما گاندھی، تلک کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ کیا یہ قانون آزادی کے 75 سال بعد ضروری ہے؟  سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جب تک تشدد کا  استعمال نہ ہو، 124اے کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔

ان حالات میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے اس قانون کو واضح طور پر آئین سے متصادم قرار دینا پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ کا ایک بہت بڑا  دلیرانہ اور عادلانہ قدم ہے، جس کی جتنی تحسین بھی کی جائے کم ہے۔

Comments are closed.