کیا پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے

پروفیسر اکرم میرانی

children-in-silhouette-009

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان میں تین اہم فیصلے ہوئے۔ ملک کا آئین بنا، ایٹمی قوت حاصل کرنے کا فیصلہ ہوا او رجہادی یا نظریاتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ابتداء ہوئی۔ یہ تینوں فیصلے وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے۔ آئین پر کئی بار حملے ہوئے، مارشل لاء اور جمہوریت کا کھیل جاری رہا۔ نظریاتی اسلامی تشخص نے جہادی حکمت عملی اختیار کی اور نتیجتاً اقبال کے شاہین طالبان کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ ایٹمی دھماکے ہوئے پھر ایٹمی مشینری بیچنے کے سیکنڈل سامنے آئے اور نتیجتاً ڈاکٹر قدیر نے اعتراف جرم کیا۔ لیبیا نے سارا سامان عالمی قوتوں کے سامنے پیش کر دیا ایران نے بھی قبول کرلیا مگر قدیر خان اپنے بیان سے ایک بار پھر مکر گئے۔

آج پاکستان میں بحث جاری ہے کہ طالبان کے خلاف فوج استعمال کی جائے یا صرف زبان درازی سے کام لیتے ہوئے اُن کی درازی عمر کا بندوبست کیا جائے تاکہ وقت پڑنے پر کام آسکیں کیونکہ ہمارے اداروں نے خود تو اپنا کام ترک کردیا ہے وہاں تو اب پلاٹوں کے کاروبار چل نکلے ہیں۔

پاکستان ایک بڑا ملک ہے اپنے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کے پہلے بیس ممالک میں سے ایک ہے اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی اہمیت کا حامل ہے لوگ بھی جفا کش اور ترقی کے خواہش مند ہیں تو پھر آخر کیا معاملہ ہے کہ یہ ایک ہی جگہ پر کھڑا جھول رہا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگرچند بڑی وجوہات تین ہیں:

1۔ سٹرکچرل وجوہات 2۔نظریاتی وجوہات 3۔ اقتصادی وجوہات

اپنے ڈھانچے کے لحاظ سے پاکستان ایک عجیب غریب ملک ہے۔ اس کے چار صوبے ہیں۔ جن میں پنجاب کی آبادی باقی تین سے زیادہ ہے جبکہ صرف بلوچستان کا رقبہ باقی تین کے برابر ہے۔یعنی ایک آبادی کے لحاظ سے بڑا بھائی ہے دوسرا رقبے کے لحاظ سے۔ اس ملک کے اندر ایک اور ملک ہے جس کا اپنا صدر اور وزیراعظم تو ہے مگر اُسے ایک جوائنٹ سیکرٹری کنٹرول کرتا ہے اس کا نام کشمیر ہے جس کا صدر اور وزیراعظم اپنے ملک کا چیف سیکرٹری او رانسپکٹرجنرل پولیس نہیں تبدیل کرسکتا ۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ آزاد کشمیر ہے جس میں ہندوستانی کشمیر بھی سید علی گیلانی کی قیادت میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے۔ کیا سید علی گیلانی یہاں آکر حق نواز جھنگوی کی پارٹی میں شامل ہوں گے۔

اِدھر یہ تماشا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان ہے کہ جس کا نام انتظامی صوبہ ہے مگر اُس کی نہ سینٹ میں نمائندگی ہے اور نہ قومی اسمبلی میں جبکہ فاٹا کے سینٹ میں آٹھ ارکان ہیں اور وہ صوبہ بھی نہیں۔ فاٹا کی کوئی صوبائی یا علاقائی اسمبلی نہیں اور نہ وہاں بلدیاتی نظام ہے وہاں کبھی پولیٹکل ایجنٹ ہوا کرتے تھے۔ اب طالبان ہیں اور کہیں کہیں فوج بھی ہے جبکہ طالبان چاہتے ہیں فوج فاٹا سے چلی جائے ایسی متضاد کیفیت کی حامل جیومیٹری سے شفاف روشنی برآمد نہیں ہوسکتی صرف شدت پسندی اور غصہ ہی جنم لے سکتا ہے۔

دنیا میں اب194ممالک ہیں مگر پاکستان صرف واحد نظریاتی ملک ہے جس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جو ساری مسلم اُمہ تک پھیلی ہوئی ہیں اب یہ نظریاتی تشخص کو مستحکم کرنے کے لئے جو سیلبس ترتیب دیا گیا اُس کے اثرات اس طرح پڑے ہیں کہ نوجوان نسل علم وسائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کے لئے لمبی جدوجہد کی تکلیف اُٹھانے سے بچنے کے لئے آسان ترین راہوں کی تلاش میں ہے او رجید علماء کرام نے اُنہیں جہاد او رخود کش بننے کی راہ پر لگا دیا ہے یہ زندگی بے معنی ہے اصل زندگی تو شہادت کے بعد شروع ہوتی ہے۔مسلمان کا مقصد زندگی تو شہادت کا حصول ہے۔ اس کا آسان طریقہ ہے کہ پیٹ پر پتھر باندھنے سے بہتر ہے بارود باندھو اور اپنے سے مختلف خیالات رکھنے والوں کے درمیان خود کو پھوڑ دو خود جنت میں او رمخالفوں کو جہنم کی آگ میں جلاؤ کہ انہیں کے لئے بھڑکائی گئی ہے۔
پاکستان کے مصنوعی نظریاتی تشخص کی تعمیر نے اُسے ایک ایسے سماج میں بدل دیا ہے جو بہت منقسم ہی نہیں شدت پسندی کی طرف مسلسل اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جہاں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے لوگ فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایسے غصیلے ماحول میں آرٹ اور سائنس کی آبیاری آسان کام نہیں اس لئے اب ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ ہاتھوں میں رکھنا ایک مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ مسلسل غیر منطقی مباحث کی بدولت شدت پسندی نے پاکستانی سماج میں اس قدر جڑیں پکڑلی ہیں کہ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول نہیں رہا۔ جس ملک میں مسلسل دھماکے اغواء اور عدم برداشت کا ماحول ہووہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔


آج کل خوش فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ چین ہر کام چھوڑ کر پاکستان کی تعمیر میں لگ جائے گا بلکہ میاں شہباز شریف نے چینی قیادت کے دل اس قدر موم کرلئے ہیں کہ وہ بیس ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں بس ذرا طالبان کے ساتھ برادرانہ معاہدہ ہوجائے ،سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اتنے کارخانوں کی خریداری کے لئے رقم کہاں سے آئے گی پھر ان میں جلانے کے لیے ایندھن کہاں سے آئے گا۔ اُس کی رقم کون ادا کرے گا کیونکہ بجلی تو یہاں چوری ہوجاتی ہے اور گردشی قرضہ ایک سال میں پھر250ارب کے قریب پہنچنے کو ہے۔

آخر ہمارے لوگوں کو یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ اُن کے مسائل کا حل کوئی اور نکالے گا۔ مذہبی رہنما کہتے ہیں سب مسائل کا حل اللہ تعالیٰ نکالیں گے بس دعا مانگو یا شہادت کا رتبہ پاؤ۔ سیاستدان او رفوجی حضرات کبھی امریکہ کبھی سعودی عرب اور اب چین کی راہ دکھا رہے ہیں ۔کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک کے اقتصادی مسائل کا حل کسی اور ملک یا ممالک نے نکالا ہو۔ دوست ممالک باہمی مفاد پر مبنی تجاویز تو دے سکتے ہیں راستے تو ہر ایک کو خود تلاش کرنا ہوتے ہیں۔

آج پاکستان تاریخ کے عجیب دورا ہے پر کھڑا ہے ایک طرف اُس کا نظریاتی ماضی ہے اور دوسری طرف حقیقت پسندی پر مبنی ایک مستقبل۔ پاکستان چاہے تو ماضی میں رہے اپنے نظریاتی تشخص پر مبنی تھیوری کو سچ بنا کر پیش کرتا رہے۔ اپنے آنے والی نسلوں کو نصاب میں وہ کچھ پڑھاتا رہے جسے دنیا نہیں مانتی یا ایک قومی ریاست کی منطق قبول کرتے ہوئے اپنی جغرافیائی سرحدوں کو ہی اپنی سرحدیں مانے۔ اپنے پڑوسیوں کو ہی پڑوسی اور دوست سمجھے اور علاقائی تعاون پر مبنی اقتصادیات کی تعمیر کا عمل شروع کرے۔ پاکستان چاہے تو چین، بھارت ، ایران، افغانستان علاقائی اقتصادی تعاون میں معاونت اختیار کرتے ہوئے اچھی شروعات کرسکتا ہے۔ اس کے لئے طالبان ڈرامہ سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔

طالبان سے لڑناصرف فوجی نہیں اقتصادی اورنظریاتی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان کو اپنے نظریاتی پس منظر سے جنگ کرنا ہے جس میں جیت میدان جنگ میں نہیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوگی جس کے لئے جدید قانون سازی کرنا ہوگی۔ سابقہ حکومت نے اٹھارویں ترمیم کی صورت میں اچھی بنیاد فراہم کردی ہے۔ اب سرائیکی صوبے کے قیام، بلوچستان کی کردستان کی طرح خودمختاری ، فاٹا کو پختون خواہ میں شامل کرکے اصلاحات کی ابتدا، کشمیر کے زیادہ اختیارات او رگلگت بلتستان کی پاکستان میں مکمل شمولیت کا بندوبست کرتے ہوئے پوری قوت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ علماء او رفوج کو سمجھناچاہئے کہ ماضی کی نفسیاتی الجھنوں میں ہمیشہ کے لئے پھنس کے رہ جانے سے پاکستان کی بقا خطرے میں پڑجائے گی اور ملک سوویٹ یونین کی طرح مکمل تنہا ہوکر بکھر سکتا ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی رضا ربانی کمیٹی کو بحال کرنے اس کا نام اور لیڈر بدل لیا جائے، مگر اُسے پاکستان کے سٹرکچرل ریفارم کا ایجنڈا دیا جائے۔ فاٹا کا مسئلہ طالبان کے ساتھ صرف جنگ سے حل نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں ایف سی کی کاروائیاں کبھی بھی امن نہیں لاسکتیں۔ بلوچوں کو پختونوں سے الگ ایک نیم خود مختار بلوچستان دینابہت ضروری ہے۔ اس سے کردستان کی طرح مکمل امن حاصل ہو جائے گا جبکہ پاکستان بلوچ مسئلے کے حوالے سے ایران کے لئے بھی ایک ماڈل بن جائے گا۔ ورنہ یہ آگ سلگتی رہے گی۔

دنیا کے حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ عالمی طاقتیں اس تصادم سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں جنہیں موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح سرائیکی تحریک بھی ایک پُر امن جمہوری تحریک ہے اُن سے بھی بات آگے بڑھانی چاہئے۔ بڑا پنجاب فیڈریشن کے لئے مشکلات کی وجہ بن رہا ہے اگر سرائیکی صوبہ بن جائے تو فیڈریشن کے استحکام میں اضافہ ہی ہوگا۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر کے حوالے سے بھی نئی پالیسی کی تشکیل انتہائی ضروری ہے ورنہ بھارت کی بڑھتی اقتصادی قوت اور پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کشمیریوں کی رائے بھی بدل سکتی ہے جس سے بڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ پاکستانی فوج اور سیاسی رہنما وقت کی آواز پر کان دھریں۔ ملک کو وار گیم کی طرح نہیں چلایا جاسکتا اس لئے ضروری ہے کہ لمبے عرصے تک چلنے والی کار آمد پالیسیوں کی تشکیل کا عمل شروع ہو۔

پاکستان کے نظام تعلیم کی پسماندگی پوری سوسائٹی کی نشوونما کو متاثر کررہی ہے۔ مستقبل پر سرمایہ کاری سے گریز نے تمام سارک ممالک کو متاثر کیا ہے مگر پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس طرف متوجہ ہوا جائے۔ یہ سب کچھ حکمت عملی بدلے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک سارک ممالک علاقائی تعاون کی طرف متوجہ نہیں ہوتے یہ ترقی نہیں کرسکتے اس سلسلہ میں پاکستان کا عدم تعاون ایک مسئلہ بنا ہوا ہے جس کے لئے راہ نکالنا ہوگی۔*

One Comment