پروفیسرپرویزپروازی کی باتیں اورانمٹ یادیں

زکریاوِرک ٹورنٹو

ربوہ میں میرے بچپن میں ایک ادبی مجلس بزم خیال ہوا کرتی تھی۔ ایک دفعہ میرے بڑے بھائی محمد ادریس اس ادبی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہ اس مجلس کے سیکرٹری تھے۔ یہ اجلاس شاید عبد السلام اختر کے صدر انجمن کے کوارٹرز پر منعقد ہوا تھا۔ اس مجلس کا ذکربیتے لمحوں کی چاپ میں صفحہ121 پر کیا گیاہے۔اس وقت میری عمر بارہ سال کے لگ بھگ تھی وہاں میں نے پہلی باربزرگوارم پروازی صا حب کو دیکھا تھا۔

پھر تعلیم الاسلام کالج میں تعلیم 1963/65 کے دوران گرامی القدرپروازی صا حب ہمارے اردوکے استاد تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ کالج کا بڑا ہال روز روشن کی طرح اب بھی ہے جہاں200کے قریب طلباء کو آپ اردو ادب سے لگاؤ اور شناسائی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اشعار کی اس رنگ میں تشریح فرماتے کہ انسان سنتا ہی رہے۔ مجھے یاد ہے بعض دفعہ آپ طالب علموں کو کسی کتاب سے پیراگراف پڑھتے کو دیتے تا کہ معلوم ہو سکے کہ طالب علم کا تلفظ کیسا ہے ۔

اس کے بعد میں کراچی چلا گیا۔ وہاں سے (گو تھنگن) جرمنی اور پھر 1973 میں کینیڈا ہجرت کر کے آ گیا۔ پروازی صا حب جاپان چلے گئے ، وہاں سے پاکستان واپس مگر شدید مذ ہبی جنونی ماحول اور تعصب کے بناء پر سویڈن ہجرت کر نے پر مجبور ہوگئے۔سویڈن میں جب آپ رہائش پذیر تھے تو میرا ان سے رابطہ ہوا۔خطوط کا سلسلہ جاری رہا۔ اپنے ایک خط میں مؤرخہ22جنوری 1992میں انہوں نے مجھے لکھا زکریا تم مجھے اکثر یاد آئے ہو مگر کوئی صورت رابطہ کی نہ ہوئی۔ پھر وہ ادریس خدا معلوم کہاں ہے ہم لوگوں نے ربوہ میں بڑا اچھا وقت اکھٹے گزارا ہے۔ اس لئے وہ یادیں ذہن میں مستحضر ہیں۔

1994ٹورنٹو میں آمد

پھر کیا کرنا ہوا کہ1994 میں آپ ٹورنٹو اپنے بیٹے ما ہر احمد سے ملنے کیلئے آئے ۔ مجھ سے رابطہ ہوا ۔میں کنگسٹن سے تین سو کلو میٹر کا سفر کر کے آپ کے پاس پہنچا۔ سب سے پہلے ہم نے ٹورنٹو ریفرنس لا ئبریری کو وزٹ کیا جہاں 1.5ملین وزیٹرز آتے ہیں۔ یہاں اردو کی کتابیں کثیر تعداد میں ہیں۔ اس کے بعد ہم نے کھانا کھایا۔ میرے اصرار پر کینیڈا کی راجدھانی اٹاوہ کی سیر کر نا پسند فرمائی۔ کنگسٹن میں رات قیام کے بعد میں آپ کو اٹاوہ لے کر گیا۔ پا رلیمنٹ پہنچے وہاں ان دنوں ایک پارلیمنٹری اسسٹنٹ جن کا نام باب لے”تھا ان کینسیم مہدی سے واقفیت تھی۔میں نے باب کو فون کیااس نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اس نے ہمیں ہاؤس آف کامنز اور سینیٹ کی سیر وی آئی پی مہمان کے طور پر کروائی۔ نیزاس کی شاندارلا ئبریری کی ایک گھنٹے تک سیر کروائی جہاں ہمارے لئے جانا شاید ممکن نہ ہوتا۔

کچھ روز بعد میں نے آپ کو شہرہ آفاق ٹورسٹ سپاٹ ایک ہزار جزیروں کی بحری بوٹ پر تین گھنٹے کی سیر کروائی۔ جس سے آپ بہت لطف اندوز ہوئے ۔ کچھ دنوں کے بعدہم آپ کو ٹورنٹو واپس چھوڑنے آئے۔یہ سفر نامہ احمدیہ گزٹ کینیڈا میں اکتوبر 1994 میں شائع ہوا تھا جس میں ہدایات اللہ ہادی، ادریس شاہین اور خالد تاج کی مہمانی نوازی کا خاص ذکر کیا گیا تھا۔ واپس سویڈن جا کر آپ نے مجھے نامہ مرقومہ 4/8/1994 میں لکھا پیارے زکریا۔ السلام علیکم میرے قیام کینیڈا کے دوران تم نے اور تمہاری بیوی نے جو خد مت کی اس کے لئے تہہ دل سے ممنون ہوں۔ اللہ تمہیں خوش رکھے اور دین اور دنیا میں بے شمار کامرانیاں عطا کرے۔ تمہاری اولاد تمہارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ئے۔ یہ خط رسمی خط نہیں ہے دل سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

2010قلمکار حمید اختر سے ملاقات

مئی2010میں آپ نے مجھے فون کیا کہ پا کستان کے مشہور مصنف ، کالم نویس، صحافی حمید اختر ٹورنٹو آرہے ہیں اس لئے فلاں دن ٹورنٹو آجاؤ ہم ان سے ملنے جائیں گے۔ چنانچہ عاجز حسب خواہش آپ کے گھر پہنچ گیا۔ حمید اختر(1924-2011) اپنی بیٹی کے یہاں قیام پذیر تھے جس کا گھر نارتھ یارک میں تھا۔ ان کی بیٹی نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔علمی ماحول میں باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے حمید صا حب کو اپنی کتاب سوانح البیرونی پیش کی ۔لاہور واپس جا کر انہوں نے اس پرسیر حاصل تبصرہ لکھا جوروزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔کھانے کے بعد ہم تینوں پیس ولیج گئے تا کہ ان کو اس احمدی رہائشی علاقے کی سیر کروائی جائے۔ شام کو ہم نے معزز مہمان کو ان کے گھر پہنچا دیا ۔ اور پروازی صا حب کو ان کی قیام گاہ پر۔ حمید اختر کو کچھ سال ترقی پسند خیالات و نظریات اور تحریروں کی وجہ سے جیل میں بھی پا بند سلاسل رہنا پڑا ۔ ایام اسیری کی یادوں پر مشتمل اوسان خطا کرنے والی داستاں انہوں نے کال کوٹھری کے نام سے ضبط تحریر کی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔

پروفیسر ابو الکلام قاسمی سے ملاقات

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پر وفیسر ابو الکلام قاسمی(معروف ادبی نقادمتعددکتابوں کے مصنف ، پندرہ سال تک ایڈ یٹر ما ہنامہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ رہے )۔ 2014میں ٹورنٹو تشریف لائے کیونکہ ان کا بیٹاسمیر قاسمی مسس ساگا میں رہتا تھا۔ کچھ روز بعد وہ میری رہائش گاہ پربیگم اور بیٹے کے ہمراہ کھانے پر تشریف لائے ۔ اگلے روز میں نے پروازی صا حب کو فون پر بتایا کہ قاسمی صا حب ٹورنٹو میں ہیں۔ فرمایا میں ان کا انٹرویو اپنے راول ٹی وی کے پروگرامچہرےکے لئے کر نا چاہتاہوں۔ میں نے پروازی صا حب کو ان کی قیام گاہ سے لیا وہاں سے ہم قاسمی صا حب کے گھر گئے اور وہاں سے ٹیلی ویژن سٹیشن۔میں نے سٹیشن تک جانے کیلئے راستہ ایک کا غذ پر لکھا ہوا تھا جس کو قاسمی صا حب دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس لئے وہ میری ڈرائیونگ سے متاثر ہوئے۔ اس پروگرام میں ہم تینوں شریک ہوئے اور بہت سراہا گیا۔اس کے بعد ہم قاسمی صا حب کو اچھے ریستوران میں کھانے پر لے کر گئے ۔ کھانا ختم ہونے سے قبل آپ نے میز کے نیچے چپکے سے میرے ہاتھ میں پچاس ڈالر کا نوٹ تھما دیا حالانکہ اس عزت افزائی کا حقدار میں بننا چا ہتا تھا۔

کچھ سالوں بعد قاسمی صا حب پھر ٹورنٹو اپنے بیٹے کے پاس آئے ۔ پروازی صا حب نے کہا کہ اس بار میں ان کی بیگم کا انٹرویو کرنا چاہتاہوں جو کہ خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ پروازی صا حب اورمیں ان کے گھر پہنچے ہماری حسب معمول خاطر تواضع کی گئی۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن سٹیشن پہنچے۔ پروازی صا حب نے نہ جانے کس طرح ان کی بیگم دردانہ قاسمی کے ادبی کام کے بارے میں کافی معلوما ت اکھٹی کی ہوئی تھیں۔ اور ان کے مضامین اور ادبی کام سے بخوبی واقف تھے۔سٹوڈیو میں صرف تین افراد کی جگہ تھی اس لئے میں انٹرویو میں شامل نہ ہو سکا۔اس ملاقات کے دوران یہ تین پروفیسر علم و آگہی کے جو موتی بکھیرتے رہے اور شعر و نغمہ پر گفتگو کرتے رہے اس کو راقم الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہے۔ افسو س پروفیسر قاسمی بعارضہ سرطان لمبی علالت کے بعد جولائی 2021میں وفات پا گئے۔

ٹورنٹو کے راول ٹی وی پرچہرے کے نام سے آپ نے جن مشا ہیر، ادیبوں، مصنفین، شاعروں کے انٹر ویو کئے ان کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ آپ نے کمال شفقت اور سخاوت سے میرا بھی انٹرویو بھی کیا جس میں میری شائع شدہ کتابوں اور مضامین پر بحث کی گئی۔ایک طالب علم کیلئے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے بلکہ میرے لئے کسی اعزاز یا ایوارڈ سے کم نہیں کہ ان کے پائے کے محقق اور مایہ ناز ادیب نے مجھ ہیچمداں کا انٹر ویو کیا۔

آپ کو جب میں آپ کی قیام گاہ سے ٹیلی ویژن سٹیشن لے کر جاتا تو مجھے ڈائریکشن دیتے جاتے حالانکہ میرے پاس جی پی ایس کار میں ہوتا تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ مصر ہوتے کہ اس جگہہ رائٹ ٹرن لو ، وہاں لیفٹ لو،یہ راستہ زیادہ آسان ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ راول ٹی وی کے منتظم فضل معین صدیقی ان انٹرویوز کو ڈی وی ڈی پر تیار کر کے ان کے چاہنے والوں کوجلد فراہم سکیں گے۔ میرے نزدیک خود نوشتوں کے جا ئزہ کے بعد یہ ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔

سابق سفیر پا کستان سے ملاقات

پا کستان کے سابق سفیر کرامت اللہ غوری کی اہلیہ عابدہ کرامت2016 میں جب وفات پا گئیں تو پروازی صا حب نے مجھے کہاکہ ان سے ملنے جا نا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں ِ رچمنڈ ہل میں ان کے دولت خانے پر تعزیت کے لئے حاضر ہوئے۔ جناب غوری قلم اور گفتار کے غازی ہیں۔ ان کے علمی دلچسپ مضامین ٹورنٹو کے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں نیز وہ مشاعروں، اجلاسوں کے صدارت بھی کرتے ہیں۔ملاقات کے دوران غوری صا حب نے ہمیں اپنے اہلیہ کے ا شعار اور غزلوں کی تین چار کا پیاں دکھائیں۔ نا بغہ روزگار ڈاکٹر عبد السلام پر جو مضمون انہوں نے زیب قرطاس کیا تھا جو ان کی کتاببار شناسائیمیں درج ہے وہ میں نے اپنی دل پذیرتالیف سلام عبدالسلام میں شامل کیا تھا۔جاپان میں جہاں غوری صا حب قائم مقام سفیر تھے ،ڈاکٹر سلام سے اپنی ملاقات کے متعلق وہ کہتے ہیں:” ڈاکٹر سلام سراپا عجز و نیاز اور ہمہ تن انکسار تھے۔ آنکھوں میں فطری ذہانت کی روح پرور چمک، اور بشرے کے چھینٹے جیسے بادل اپنی فیاضی میں خشک سے خشک تر زمین کو بھی سیراب کرنا چاہتاہو۔ سائنس جیسے خشک اور بنجر میدان میں ان کی ظرافت طبع اور بذلہ سنجی خاصے کی چیز تھی۔

شاعر خوش نوا مبارک احمدعابد سے ملاقات

چند سال پہلے جماعتی حلقوں میں جانے پہچانے نغر گوشاعر پروفیسر مبارک احمد عابد(میر ے ہم جماعت) ٹورنٹو تشریف لائے تو پروازی صا حب نے مجھے یاد کیا۔ ہم دونوں مبارک عابد کو ان کے فرزنددلبند عدنان کے گھر سے لے کر ریستوران میں گئے اور کھانا کھانے کے بعد دیر تک کالج کی یادوں میں محو ہو گئے۔ پروازی صا حب کوتعلیم الاسلام کالج کا سنہرادور اتنا یاد آرہا تھا یا ستا رہا تھا کہ مبارک عابد(ریٹائرڈ پروفیسر تعلیم الاسلام کالج) سے صرف اسی موضوع پر بات چیت کرتے رہے۔ میٹھے میں آپ نے گلاب جا من منگوائے تو میں نے پوچھا آ پ کو تو شوگر ہے؟۔ کہنے لگے میرے لئے یہ میٹھا کھا نا ضرور ی ہے تا شوگر کم نہ ہو جائے ۔جسم کو مکمل طور پر شوگر سے محروم رکھنا منا سب نہیں۔ شوگر زیادہ ہوجائے تو اس کا تدارک ممکن ہے لیکن جسم میں شوگر کی کمی ہوجائے تو اس سے ایسے نقصان کا احتمال ہوتا جو جان لیوا ہو سکتا۔کینیڈا کا سفرنامہ جس میں آپ کی ظرافت طبع کی شیرینی ہر فقرے میں ٹپکتی نظر آتی آپ نے لکھا : جب سے انسولین لگانے کی نوبت آئی ہے دعوتوں کی طرف رغبت کم ہوگئی ہے۔ بھلا میٹھا نہ کھایا جائے تو دعوت کیا ہوئی؟ اور میٹھا کھایا جائے تو انسولین کیا ہوئی؟

تصانیف اور رسائل

آپ نے بچپن میں ربوہ میں اپنے گھر کی بیٹھک میں چھوٹی سی لا ئبریری کی بنیاد ڈالی اور ربوہ کے علم دوست باسیوں سے کتابیں لے کر اس میں سجا دیں۔ پھر عوام کو دعوت عام دی گئی کہ وہ اس لا ئبریری کو دیکھنے ضرور آئیں۔ بچپن میں بچوں کیلئے ایک رسالہ شروع کیا جس کا نام مشعل تھا۔ یہ رسالہ لا ئبریری کی زینت بھی بنا۔

آپ نے 1968میں پی ایچ ڈی کی ، جس کا موضوع 1947تک اردو میں لکھے گئے ناولوں پر تھا۔ ایک بار انہوں نے مجھے بتایا کہ پی ایچ ڈی کرنے کے دوران لاہور میں کئی راتیں فٹ پاتھ پر سوتا رہا کیونکہ لاہور میں کسی سے اتنی واقفیت نہیں تھی اور تقسیم ہند کے پر آشوب دور کے بعد وسائل بھی اتنے نہیں تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بطور اظہار تشکر بتایا کہ پٹنہ کے احمد ی فاضل اور عالم بے بدل پروفیسرڈاکٹر اختر اورینوی (ڈی ِلٹ)نے ان کی مقالہ لکھنے میں فراخدلی سے مدد کی تھی۔ ہندوستان میں کتابوں اور رسائل و جرائدکی تلاش اور ان کے صفحات کی فوٹو کاپیاں یا ہاتھ سے نقل کر وا کے لاہور بھجوا ئی تھیں۔

آ پ کے نہایت دل چسپ اورعالمانہ مضامین عرصہ دراز تک الفضل ربوہ ، ، ہفت روزہ لاہور ، ہفت روزہ نیا زمانہ، احمدیہ گزٹ کینیڈا و امریکہ، المنار ربوہ و امریکہ نیز پاکستان کے دیگرادبی رسالوں اَوراق، علامت ،ماہ ِنو،کی زینت بنتے رہے جن کا شمار کرنا کار دارد ہے۔سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے ۔ جب ایک مضمون کسی رسالے میں شائع ہوتا تو وہ اتنا عمدہ اور دلکش ہوتا کہ دیگر رسالوں میں بھی شائع ہوتا تھا۔ میری طرح ان کے شاگرد یہ خرد افروز مضا مین ، دوست احباب بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے خاص طور پر یاد رفتگاں والے مضامین۔ خاکہ نگاری بھی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ سفر ناموں میں بعض دفعہ طنز و مزاح بھی قلم ز د ہوتا تھا۔ فطرت نے ان کو شگفتہ طبیعت ودیعت کی تھی۔ دوستوں شاگردوں کی محفل میں ہمیشہ ہنستے ہنسا تے دیکھے گئے۔ ان میں مذاق کرنے اور مذاق سے لطف اندوز ہونے کی اچھی خاصی صلاحیت تھی۔ زندگی میں چار دفعہ کا دل کاآپریشن ہوا، مگر قلم کا یہ مجاہد ہر باربازی جیت گیا۔

ما ہ نامہ انصاراللہ ۔ڈاکٹرعبد السلام خاص ایڈیشن

آج سے پندرہ سال قبل جب میں ربوہ میں تھا تو خلافت لا ئبریری میں ماہنامہ انصار اللہ جنوری فروری 1980 کا وہ خاص رسالہ خوش قسمتی سے مل گیا جس کے پروازی صا حب ایڈیٹر تھے۔ یہ ڈاکٹر عبد السلام کے نوبیل انعام ملنے کے بعد کی خاص اشاعت تھی۔ اس کی فوٹو کاپی میں نے کر والی۔ خاص بات یہ تھی کہ اس میں اشاریہ دیا گیا تھا یعنی نوبیل انعام کی خبر اورپا کستانی اخبارات میں چھپنے والی خبروں اور مضامین کا اشاریہ۔ یہ سات صفحات پر محیط ہے۔ اسکے علاوہ ڈا کٹر سلام کی سوانح حیات اور ڈاکٹر صا حب کو ملنے والے اعزازات کی فہرست بھی دی گئی ہے۔

نامور سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام (نومبر1996)کی وفات پر پروازی صا حب نے اپنے مضمون میں لکھا: وہ شخص خا موش ہو گیا جو بولتا تھا تو دنیا خاموش ہو کر اس کو سنتی تھی۔ وہ سائنس کے اتھاہ سمندر کا کنارہ، طبیعات کے آسمان کا ستارہ، دل کا حلیم، اپنوں پرایوں پر مہربان، ذہینوں فطینوں کا قدر دان، اپنے وطن میں علم کے فروغ کا خواہش مند، جہالت کا دشمن اور علم کی روشنی سے بہرہ مند، اس کے اٹھ جانے سے دنیا سے ایسا علم اٹھ گیا ، ان جیسوں کی موت کو زمانہ کی موت کہا جاتا ہے۔ (الفضل9 جنوری 1997صفحہ4 )۔

فخر پاکستان ڈاکٹر عبد السلام کی حسرت ناک وفات پر آپ نے نظم لکھی جس کے کچھ اشعار یہ ہیں:۔

اس احمدی سے تعلق برادرانہ تھا مرا سلام کا رشتہ بڑا پرانا تھا

وہ شخص بو علی سینا تھا اس زمانہ کا وہ شخص دانش و حکمت کا اک خزانہ تھا

سلا دیا جسے مٹی میں ہم نے پچھلے پہر وہ ایک شخص نہ تھا پورا اِک زمانہ تھا

آپ کی شاعری

آپ نے پا کستان جرمنی سویڈن برطانیہ کینیڈا ،امریکہ میں درجنوں مشاعروں کی صدارت اور نظامت کے فرائض سر انجام دئے۔ ایک دفعہ میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے ابھی تک مجموعہ کلام کیوں شا ئع نہیں کیا؟۔ فرمایا میری شاعری زیادہ تر جماعت احمدیہ کے متعلق ہے جو جماعت کے جرائد میں چھپ چکی ہے۔ اس لئے کوئی اور صا حب ذوق اس کام کو کرے۔ احمدیہ کلچر میں صفحہ272 میں آپ نے لکھا اول تو ہم مشاعرے پڑھتے نہیں، پڑھیں تو ہمیشہ تازہ ترین کلام سناتے ہیں۔ لوگوں کی طرح ایک ہی غزل کو بقول شخصے ری پیٹتےنہیں چلے جاتے۔

آپ کا ایک اعلیٰ پایہ کا ادبی مضمون پا کستان میں اردو ادب اور جماعت احمدیہ کا کردارپہلے ماہنامہ خالد(اگست 1997)اور پھر مکرر روزنامہ الفضل (4 نومبر 1997)میں شائع ہؤا تھا۔ اس کے آخر پر آپ نے اپنی شاعری کے بارے میں لکھا:” راقم الحروف کو بھی نظم و نثر میں خدمت کی تھوڑی بہت توفیق ملتی رہی اور اس ہیچ مدان کے مضامین جماعت کے کسی ایک پرچے میں چھپنے کے بعد جماعت کے بہت سے دوسرے پرچوں میں اور دوسرے ممالک میں مکرر چھپتے رہے۔ نظموں کا سلسلہ یہ رہا کہ خاکسار جماعت کے پرچوں میں تو چھپتا رہا مگرملک کے وقیع ادبی رسائل کے مدیران کے کہنے کے باوجود ان رسائل سے یہ کہہ کر کہ میں اپنی شعری صلا حیت کو صرف جماعت احمدیہ کی خدمت کیلئے وقف رکھنا چا ہتاہوں اور ان مدیران نے از راہ کرم میرے اس عذر کو قبول کر لیا۔ ہاں یہ ضرور ہؤا کہ ادبی جرائد نے جماعت کے پرچوں میں چھپنے والی کسی چیز کو اپنی پرچوں میں مکرر چھاپ کر میری عزت افزائی فرمائی۔ جماعت احمدیہ کے بہت سے شعراء کے مجموعہ ہائے کلام پر تعارفئے لکھنے کی توفیق ملتی رہی۔

آپ کی تصا نیف

آپ کی علم کے لعل و گوہر سے بھرپور تصانیف جو آپ نے 1964-2010 تک تصنیف کیں ان کی فہرست پس نوشت جلد سوم کےپس پشت جلد پر دی گئی ہے۔ اس کے مطابق تعداد16بنتی ہے جس میں قران کریم کا اردو ترجمہ (غیر مطبوعہ) حبل الورید شامل ہے۔اردو، انگلش، عربی، فارسی پر آپ کومکمل عبور حاصل تھا۔

جاپان کے متعلق آپ نے چھ کتابیں ترجمہ و تصنیف کیں جیسے سورج کے ساتھ ساتھ(سفر نامہ) اور جا پان کا سب سے لمبا دن۔

تحریک آزادی میں سر ظفراللہ کا حصہ کتاب2002 میں شائع ہوئی تو اس کے اعترافات یعنی کتاب کی تکمیل و اشاعت میں حصہ لینے والے دیگر شاگر دوں کے ساتھ اس عاجز کا بھی ذکر فرمایا تھا۔

احمدیہ کلچر۔ 2005میں آپ کی یہ307صفحات پر مشتمل کتاب منظر عام پر آئی ۔ اس کا موضوع احمدیوں کے سماجی، معاشرتی، اور دینی رویوں کا جائزہ ہے جس کی بنیاد قادیان اور ربوہ کے ماحول کے مطالعہ پر رکھی گئی ہے۔ دیباچہ میں آپ نے لکھااب وہ چیزیں جو تقریباََ تین سو مضامین کی صورت میں سلسلہ کے مختلف رسالوں اخباروں میں بکھری پڑی تھیں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہیں۔یہ فی الحقیقت جماعت احمدیہ کے اسما ء الرجال کا جامع انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ذرا مضامین کے عنوان ملاحظہ فرمائیں: ،میرا مرشد، کچھ بے نفس لوگ، مدد گار کارکن، ہمارے دکاندار، جلسہ سالانہ اور آب خورے، ربوہ کے احمدی شعراء، قدم قدم تیری یادیں۔ یہ کتاب آپ نے اپنے آٹو گراف کے ساتھ راقم کو عنایت فرمائی جس پر 2 دسمبر 2005 تاریخ درج ہے۔

ایک دفعہ راقم الحروف آپ کو کسی دوست سے ملوانے کیلئے ان کی رہائش گاہ مسس ساگا پہنچا ۔ کوئی مضمون ٹائپ کر رہے تھے اپنے سٹڈی روم میں انتظار کر نے کو کہا جو بھانت بھانت کی کتابوں سے فرش سے چھت تک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بستر پر بھی کتابیں تھیں۔ کمپیوٹر پر ٹائپ میں ذرا دِقت ہوتے دیکھ کر بتایا کہ میری ایک آنکھ میں مکمل بینائی نہیں اس لئے ایک آنکھ سے ہی کتنے سالوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ہر مضمون ان پیچ پر خود ٹائپ کر کے رسائل کوای میل کرتے تھے۔عاجز نے آپ کواحمدی سکالر محمد عطا ء اللہ کی خود نوشت

Citizen of the Two Worlds 1960

بڑی مشکل سے تلاش فراہم کی جو ان کیلئے با عث مسرت ہوا تھا۔جب کسی سے بے تکلفی ہوجاتی تو اس سے یار کہہ کر مخاطب ہوتے بشمول مجھ جیسے شاگردوں سے۔ مجھے وہ پر تکلف دعوت بھی یاد آرہی ہے جب آپ نے ملک لال خاں، کرنل (ر) محمداسلم، سجاد ملک، ہدایت اللہ ہادی اور راقم السطور کو مسس ساگا میں اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا تھا۔ اس کے بعد آپ کے لطیف مزاح کی پھلجھڑیاں چلتی رہیں اورمحفل زعفران زار ۔ ان کے پر مزاح جملے ہلکی سی چٹکی لینے کے مترادف ہؤا کرتے تھے۔ جب کبھی اپنی بیٹی کو ملنے کیلئے آتے جو میرے گھر کے قریب رہتی تھی تو مجھے فون کر دیتے ۔

پس نوشت کے چار ایڈیشنز

پس نوشت ۔ اردو کی اہم خود نوشتوں کا جائزہ۔ چار جلدوں میں اردو میں رقم کی جانے والی316 آپ بیتیوں کا احاطہ کیا گیاہے۔ آپ نے بڑے شفقت سے ہرنئے ایڈ یشن پر دستخط فرمائے اور مجھے مرحمت فرمائی۔ ٍیہ کتابیں لاہور سے شعیب عادل ایڈیٹر نیازمانہ لاہور نے شائع کی تھیں۔شعیب عادل نے راقم کی بھی چھ کتابیں بھی شائع کی تھیں۔ اس کے علاوہ، شعیب عادل نے درجنوں مصنفین اور شاعروں کی کتابیں لاہور سے شائع کی تھیں مگر کچھ سالوں بعدوہ خود بھی وطن میں تعصب اور شدت پسندی کا شکار ہوگئے جب تین سو سے زیادہ بلوائیوں نے علماء کے اکسانے پر ان کے دفتر پر حملہ کر دیا۔ بڑی مشکل سے ان کی جان بچی۔ اس خوف اور کڑے وقت میں پروازی صا حب بہت فکر مند ہوئے۔ آج کل شعیب عادل میری لینڈ امریکہ میں مقیم ہیں، اور نیا زمانہ امریکہ سے شائع کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر داؤد رہبر کا تبصرہ

قاموسی نوعیت کی یہ تصنیف پس نوشت یعنی اردو کی آپ بیتیوں پر پروفیسر ڈاکٹر داؤد رہبر(1926-2013) کا تبصرہ رسالہ نیازمانہ میں شائع ہوا تھا۔ داؤد رہبر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔برطانیہ ، امریکہ کینیڈا میں چار دہایئوں سے تقابلی مقابلہ ادیان کے پروفیسر تھے اور متعدد کتابوں کے مصنف ۔ میں نے ستر کی دہائی میں ان کی علمی کتاب گاڈ آف جسٹس پڑھی تھی جو کہ معرکہ آراء تصنیف ہے ۔ آپ نے اپنی اردو کتابوں کا انگلش میں ترجمہ کیا نیز غالب کے خطوط کا بھی۔ آپ کی تصنیف پراگندہ طبع لوگ آن لائن ہمارے دوست اور کرم فرما سفیر راماکی  ویب سائٹ

apnaorg.com

پرپڑھی جا سکتی ہے۔

آج سے آٹھ برس پہلے پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صا حب نے اپنی تصنیف پس نوشت کی جلد اول تحفہ مجھے بھیجی تھی۔ میں نے انہماک سے اس کا مطالعہ کیا۔ ادبیات کے اصناف میں سب سے بڑھ کر میری دل بستگی سوانح عمریوں سے ہے۔ ڈاکٹر پروازی صا حب شغف ان کی بجائے آپ بیتیوں سے ہے۔ آپ بیتیوں کی تحقیق اور سبقت کا سہرا آپ کے سر ہے۔ پس نوشت کی جلد اول پڑھ کر میں نے12 جنوری 2004 کو انہیں ایک خط لکھا پھر ایک برس بعد جلد دوم کا مسودہ ملا تو 20مئی 2005کو انہیں شکریہ کا خط لکھا۔ دونوں خطوط میں آپ کی کار گزاری کی داد دی۔ جلد دوم کی طباعت کے وقت آپ نے میرے دونوں خطوط اس میں شامل کر دئے۔ بعد ازاں جلد سوم اور جلد چہارم کے عطیے بھی ان کی طرف سے موصول ہوئے۔ جلد سوم 2010میں شائع ہوئی اور جلد چہارم2012 میں ۔

جن آپ بیتیوں کا ان چار جلدوں میں تجزیہ کیا گیا ہے ان میں تعلقات بشری کے تنوع کی خبر ملتی ہے۔ رحمدلی، بے رحمی، غرور،فروتنی، خیرات، بخل، بغض، زودرنجی، دلیری، بزدلی، ریاکاری، اخلاص، انتقام، حرص، قناعت، توکل، کنبہ پروری کی مثالیں فراہم کی گئیں ہیں۔ اردو کی تہذیب کا ایک خاص فیچر ہے با حیثیت اور بر گزیدہ بزرگوں کے لئے تکریم جمع کا استعمال مثلاََ آل احمد سرور لکھتے ہیں: رشید احمد صدیقی لاہور تشریف لائے۔ آل احمد سرور لکھتا ہے کوئی نہ کہے گا ، تکریم کا یہ التزام انگریزی میں نہیں۔

جن آپ بیتیوں سے ڈاکٹر پروازی نے ہمیں متعارف کرایا ہے بیسویں صدی کے ہندوستانی اور پاکستانی معاشرہ کی عکاسی ہیں۔ اس معاشرہ کا اساسی نظام اب بادشاہی وا لا نہیں بلکہ جمہوریت آمادہ ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ اس میں جمہوریت کا ڈھونگ ہے ، جمہوریت ان دونوں ملکوں میں تشکیل پذیر ہے۔ سیاسی تحریکوں کی کشاکش ان میں سلطانی جمہور کا مضحکہ خیز نا ٹک ہو کر ہمارے سامنے ہے۔ڈاکٹر پروازی کو مبداء فیض سے چوکس دماغ اور توانا حافظہ عطا ہوا ہے۔ آپ نے لگن کے ساتھ آپ بیتیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ان سے دل چسپ اور مفید مطلب اقتباسات آپ نے تجزیہ میں مسلسل شامل رکھے ہیں۔ ہندوستان اور پا کستان کلچرل اور سیاسی ہنگاموں سے بندہ ساٹھ برس دور رہا ان ہنگاموں کی خبر مجھے یہ چار جلدوں میں پڑھ کر ملی۔

ڈاکٹر پروازی کی اس تصنیف کی آخری جلد (جلد چہارم) میں مندرجہ ذیل قلمکار طبقات کی نما ئندگی ہو ئی ہے: معلمین (تعداد 16)، ادبی شخصیات ( تعداد 9)، فوجی افسر (4) ، وابستگان سیاست (7)، پولیس (2)، سفیر(2)، صحافت پیشہ (3)، براڈ کاسٹر(5)،میڈیکل ڈاکٹر (2)، سرکاری عہدیدار (4)، سائنس کے پرستار(4)، فضائیہ (2)، دین کے مبلغ (2)۔ طبقات کا یہ شمارصرف جلد چہارم کے حوالے سے ہے۔ اس جدول کو ملاحظہ کر کے اندازہ ہو جا ئیگا کہ سابقہ تین جلدوں میں خود نوشت لکھنے والے کن متفرق میدانوں کے لوگ ہیں۔ (نیا زمانہ اپریل لاہور 2013، صفحات 40/41 ) ۔

آپ بیتیوں پر ٹورنٹو میں مذاکرہ

حلقہ ارباب قلم ٹورنٹو کے زیر اہتمام8 مار چ2020 کو ایک مذاکرہ منعقد ہوا ،اس کا موضوع پروازی صا حب کی خود نوشتوں کا جائزہ تھا۔پروازی صا حب کے تعارف کے بعدسوال و جواب کا لمبا سلسلہ تھا ۔ حاضرین سوال کرتے اور پروازی صا حب تسلی بخش بالتفصیل جواب دیتے۔ اس اجلاس میں پر وازی صا حب نے اپنے دقیق علمی پراجیکٹ کے آغاز کے متعلق فرمایا:” جب میں جاپان سے واپس آیا تو انہوں نے مجھے بہاول نگر بھیج دیا۔ میں چپ کر کے بیٹھ گیا اور سوچا زیادہ سے زیادہ وہ مجھے ملازمت سے نکال دیں گے۔ تو اس وقت میں نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کیلئے سوانح عمریوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ سوانح عمری اور خود نوشت سوانح میں فرق ہوتا ہے۔ زید یا بکرآپ کے حالات لکھے تو وہ سوانح عمری ہے۔ لیکن اگر آپ خود اپنی زندگی کے حالات لکھیں تو اس میں آپ پر بہت ذمہ داری آجا تی ہے۔ کیونکہ انسان اگر پنے بارے میں بات کرتا ہے تو کچھ مبالغہ بھی ہوگا ظاہر ہے اپنے بارے میں ایسی باتیں ہی بیان کرنا ہوگا جو اچھی لگتی ہیں۔

وہ ایسی باتیں نہیں بیان کریگا جو اس کو اچھی نہیں لگتیں۔ سوانح عمریوں اور خود نوشتوں میں بڑا نازک فرق ہے جس کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ تو اس ضمن میں میرا پہلا مضمون لاہور کے رسالہ علامت میں چھپا۔ وہ مضمون چھپنے کی دیر تھی کہ اس پر بحث شروع ہو گئی کہ سوانح عمری اور خود نوشت میں یہ فرق کیوں ہے؟ اب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو قریب دو گھنٹے تک جاری رہا ۔ بعض سوال کافی مشکل تھے، جن میں سے چند ایک کے آپ سے جب شافی اورکافی جواب نہ بن پائے تو حاضرین میں سے کسی نے جواب دے دیا۔ (راقم کے پاس یہ ویڈیو موجود ہے) یاد رہے کہ اس وقت پروازی صا حب اس حسین و شاداب زندگی کی 84 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ مگر حافظہ نشتر کی دھار کی طرح تیز،کاش استاد محترم اپنی خودنوشت ضبط تحریر میں لا گئے ہوتے تو یادگار چیز ہوتی)۔

کتاب گلدستہ خیال پر تبصرہ

میری جب بھی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی (تا دم تحریر 25 کتابیں طبع ہو چکی ہیں) تو میں کچھ آپ کی نذر کرتا ، تو ہمیشہ خوشی کا اظہار فرماتے تھے۔ گلدستہ خیال جو کہ جماعت احمدیہ کے نا مور مبلغ بشیر احمد آرچرڈ کے افکار و خیالات پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے اس کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب پر آپ نے جنوری 2003 میں تبصرہ فرمایا : “عزیزی زکریاوِرک اپنے رنگ میں ادب اور سلسلہ کی خدمت جاری رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ پچھلے چند برسوں میں انہوں نے پر وفیسر ڈاکٹر عبد السلام کے بارہ میں بہت سارہ مفید مواد جمع کر کے شائع کیا ہے تا کہ مستقبل کے مؤرخ کیلئے آسانی رہے۔ ہم لوگ بہ حیثیت قوم احسان نا شناس قوم ہیں اس لئے کسی احمدی کے کارہائے نمایاں کو خواہ وہ سورج کی طرح ظاہر و باہر کیوں نہ ہو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ الا ما شاء اللہ ۔ کچھ سائنس دان ایسے بھی ہیں جو سچ کو سچ کہہ دیتے ہیں مگر ایسے لوگ شاذ کالمعدوم کے حکم میں ہیں۔

اس سلسلہ کا آخری مضمون جو میری نظر سے گزرا وہ ان کی بیٹی (عزیزہ)کے مضمون کا ترجمہ ہے عزیزم زکریا نے ہفت روزہ لاہور میں شائع کروایا ہے۔ زکریا ادبی اور علمی ذوق کا آدمی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اس ذوق کی آبیاری میں کوتاہی نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ اسے بیش از بیش خدمت کی توفیق دے۔ علمائے ادب نے یہی کہا ہے کہ نا فع الناس وجود کہیں بھی ہو اجنبی نہیں رہتا کہ جہاں جاگزیں ہو اپنے فیض کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ ادبی ذوق کے لوگ بھی اسی دائرے میں آتے ہیں کہ دنیاوی مشاغل سے جو وقت اور فرصت ملے اسے ادبی کاموں میں صرف کرتے اور خلق خدا کے لئے نافع الناس چیزیں جمع کرتے اور انہیں اپنے قلم کے ذریعہ بانٹتے رہتے ہیں ۔ کینیڈا کی جماعت میں اللہ کے فضل سے بہت سے ایسے نافع الناس وجود جمع ہو گئے ہیں جو اپنی اپنی جگہہ پر اپنے اپنے رنگ میں جماعت کے علم کلام میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ عزیزی زکریاوِرک ایسے لوگوں میں سے ایک ہے۔ ایک شاگرد کے لئے اپنے استاد محترم کے ایسے الفاظ نہ صرف با عث افتخار بلکہ کسی اعلیٰ اعزاز سے کم نہیں۔

فیصل آباد کے طالبعلم کا استاد کو خراج عقیدت

بزرگوارم محترم پروازی صا حب (1936-2023)کی وفات پر فیصل آباد کے ایک طالبعلم ناصر عباس نیر نے درج ذیل خیالات کااظہار کیا ہے: “مجھے پروازی صا حب کی کلاس کا انتظار رہتا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ باقی اساتذہ اردو ادب ہی نہیں خود تعلیمی عمل سے بے رغبتی کا سبب تھے۔ پروازی صا حب ان سب کی تلافی تھے۔ وہ اپنے ساتھ کئی کتابیں اٹھا کر لاتے۔ پہلے موضوع کا تعارف کراتے۔ پھر اس کی وضاحت کر تے اور ضرورت پڑنے پر متعلقہ کتب سے اقتباس پڑ ہتے۔ وہ درست معلومات کے ساتھ ساتھ ادب سےمتعلق بصیرت بھی بہم پہنچاتے جاتے۔ ادب مسرت اور بصیرت ، لذت اور روشنی بہ یک وقت پہنچا تا ہے۔ یہ سچائی ان کے ایک ایک جملےسے پھوٹی پڑتی۔ وہ ادب پڑہاتے ہوئے ادب کی روح نہیں کچلتے تھے۔ یعنی وعظ و نصیحت نہیں کرتے تھے۔ ان کی آواز گرج دار تھی۔ لہجہ نستعلیق تھا اور عمومی رویہ نہایت ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا۔ اسی کالج میں پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ ایک استاد ، طالب علم کا سچا خیر خواہ ہو سکتا ہےتو دوسری طرف کوئی دوسرا استاد اس کا پکا حریف بھی ہو سکتا ہے۔ پروازی صا حب کا کمرہ ہر وقت طلباء و طالبات سے بھرا رہتا۔ وہ صرف ادب پر گفتگو کیا کرتے۔ وہ ہر طالب علم کا با قاعدہ استقبال کیا کرتے۔ کھڑے ہو جاتا کرتے۔ ہم سب شرمندہ بھی ہوتے اور تفاخر بھی محسوس کیا کرتے۔

http://www.mukaalma.com/180810

میں اس تحریر کو پروازی صا حب کی غزل کے ایک شعر پر ختم کر تا ہوں۔

تمہاری یاد کے بکھرے ہوئے گہر ہم نے پروئے تار نفس میں لڑی لڑی کر کے

3 Comments