ایک پاکستانی کی شناخت کا مسئلہ

جمیل خان

131562-IMG_7713_copy

میری پیدائش جس گھرانے میں ہوئی اس کا تعلق ایک ایسی لسانی برادری سے تھا، جسے نقل مکانی کے مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔ شمالی اور جنوبی ہندوستان کی مسلمان اقلیت میں یہ رویہ پہلے سے ہی موجود تھا کہ وہ اپنی اقلیتی حیثیت کی جھینپ مٹانے، اپنے نام نہاد احساسِ برتری اور جھوٹے گھمنڈ کو فروغ دیتے ہوئے ہندوؤں کو حقیر سمجھتے تھے۔ اپنے فخر کی کلغی کو مزید بلند رکھنے کے لیے وہ اپنا رشتہ اس دھرتی سے جوڑنے کے بجائے عربوں سے جوڑ کر خود کو اس عالمِ اسلام کا حصہ قرار دینے کی کوشش کرتےتھے، جس کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔ بظاہر ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے ابتداء سے ہی قبیلوں، برداریوں، لسانی گروہوں، فرقوں، مسلکوں اور نہ جانے کتنے مکتبہ فکر میں تقسیم چلے آرہے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ عرب کے قبائلی تعصبات بدترین قسم کی مختلف اشکال میں ہمیشہ قائم و دائم رہے ہیں۔ خود ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے صدیوں پر مشتمل طویل دورِ مطلق العنانی کو کسی بھی طرح مسلم حکمرانی کے ادوار نہیں کہا جاسکتا۔

اسی متعصبانہ رویے کی بناء پر ہی ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی۔ واضح رہے کہ جس خطے میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن قائم کیا گیا، یہاں اس حوالے سے تحریکِ پاکستان کے ابتدائی مراحل کے دوران عوام کو تو چھوڑیے خواص میں بھی کوئی خاص تصور موجود نہیں تھا۔یہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کا تعصب تھا، جس نے بالآخر دوقومی نظریے کی صورت اختیار کرلی تھی۔

دوقومی نظریے کے استھان پر ماتھا ٹیکنے اور تشریف رگڑنے والے اقبال کے شاہین بچے ہوں یا عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگ! ان سے کہیےکہ ذرا دو قومی نظریے کی دال سعودی عرب میں تو بگھار کر دکھائیے…. اسلام اور عالمِ اسلام کا نعرہ لگانے والے مذہبی اِس کالر ہوں یا اُس کالر اگر وہ اس دو قومی نظریے کا غلغلہ بلند کرتے ہوئے کسی عرب ملک میں شہریت کا مطالبہ کریں گے، تو لال ٹوپی والی سرکار کی طرز پر ہزار کوڑوں کی مقدس مہر ضرور ان کی کمرِ مبارک پر بھی ثبت کردی جائے گی۔

اس نوزائیدہ ملک کی لے پالک اشرافیہ، جس میں پنجاب کے لوگوں کی اکثریت تھی، اس نے بھیک اور خیرات میں ملنے والی رقم کا استعمال کرتے ہوئے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متعصبانہ سوچ کو خوب خوب پروان چڑھایا۔ شاید سرمایہ پرست عالمی قوتوں کا بھی یہی منشاء و مقصد تھا۔

تعصب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنی قوم، مذہب اور ملت کے طور طریقوں، طرز بودوباش اور ثقافتی قدروں کو پسند کریں، اپنی زبان، لباس اور موسیقی کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کریں، خاص طور پر زبان کو زندہ رکھنا تو ازحد ضروری ہے، اس لیے کہ کسی زبان کی موت ایک زمانے یا دور کی موت کے مترادف ہوگی۔

تعصب یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے خاندان، برادری، قوم اور ایک زبان بولنے والے افراد کی بُرائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں، یا ان بُرائیوں میں ان کا ساتھ دیں، یا پھر محض دوسری اقوام کی بُرائیوں کا ہی تذکرہ کریں یا اپنی تمام مشکلات اور پسماندگی کا ذمہ دار دوسری اقوام وملت یا برادریوں اور لسانی اکائیوں کو اقرار دیتے رہیں۔

اسی متعصبانہ سوچ کے ساتھ شمالی و جنوبی ہندوستان سے مسلمانوں نے اس نوزائیدہ مملکت میں نقل مکانی کی۔ یہاں وہ فرزندِ زمین نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے یہاں بھی مذہب کا سہارا لیا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ مہاجر لفظ کی تقدیسیت سے انہیں مملکت خداداد میں کوئی خاص سیاسی مقام حاصل ہوجائے گا۔ سیاسی مقام کیا خاک ملتا، اس تقدیسیت کی دوڑ نے پورےملک کو تعصب کی غلاظت میں دھکیل دیا۔ اس دوڑ میں پنجاب کے نام نہاد دانشوروں اور سلسلہ شہابیہ ومفتیہ و اشفاقیہ کے خانوادے نے وہ کردار ادا کیا جو میلہ مویشیاں میں ڈھولچی ادا کرتا ہے۔

آج اس ملک کی تمام لسانی اور قومی اکائیاں اس غلاظت سے لتھڑی ہوئی ہیں، کہیں اس غلاظت کا اثر کم ہے تو کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس مرض کی شدت ہر جگہ ہی دیکھی جاسکتی ہے، اور یہ اب اپنی آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے۔کیا آپ اب بھی نہیں سمجھ سکے ہیں کہ مذہب بھی تعصب کی ہی ایک بظاہر دلکش صورت ہے، جس کا اندرون انتہائی مکروہ ہے۔

تعصب ایک ایسی بیماری ہے، جو انسانوں کے اندر سے کائنات کے اخلاص کو ختم کردیتی ہے، اور کائنات کا اخلاص یہ ہے کہ انسان اغراض اور اغماض سے آزاد ہو۔ پوری کائنات میں اسی اصول کی کارفرمائی ہے۔

تمام عناصرِ کائنات اسی اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ جو فرد، گروہ، برادری یا قوم اس اصول کو رد کرتی ہے، تو کائنات بھی اس کو مسترد کردیتی ہے اور جب اس کا وجود تعفن کی سی صورت اختیار کرکے دھرتی پر بوجھ بن جاتا ہے تو دھرتی ماں اس سڑاند کو اپنے اندر سمو کر اپنے وجود کو پاک صاف رکھنے کی کوشش کرتی ہےتاکہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے اس کے بچے اس سڑاند سے محفوظ و مامون رہیں۔

بحیثیت مجموعی مسلمان اور بالخصوص پاکستانی قوم کے جسد میں پروان چڑھنے والا تعصب کا ناسور اب سڑاند کی صورت اختیار کرچکا ہے، دھرتی ماں کے پاس سوائے اس کے اب کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے کہ اس سڑاند کو اپنے اندر سموکر باقی ہنستی بستی دنیا اور اس کے انسانوں کی حفاظت کرے۔

Comments are closed.