مسلم خود کش حملہ آوروں کا نفسیاتی جائزہ

خالد سہیل

us-jihadist-abu-hurayra-al-amriki-first-american-suicide-bomber-syria-al-nusra

وہ کس قسم کے لوگ ہیں جو خود کش حملہ آور بنتے ہیں؟
وہ معصوم لوگوں کو کیوں قتل کرتے ہیں؟
ان کی شخصیات کس قسم کی ہوتی ہیں؟
وہ کس قسم کے سیاسی حالات ہیں جو خود کش حملہ آوروں کو جنم دیتے ہیں؟

پچھلے چندسالوں سے اخبارات اور رسائل نوجوان مسلم خود کش حملہ آوروں کے بارے میں نت نئے تبصروں اور مختلف النوع آراء سے بھرے پڑے ہیں ۔

ایک امن پسند انسان دوست ہونے کے ناطے میں زندگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور کسی طور تشدد کی موت کی ستائش نہیں کر سکتا چاہے وہ خود کشی ہو یا قتل ۔ نفسیاتی معالج ہونے کی وجہ سے میں خود کش حملہ آوروں کے سوانحی خاکوں اور ان کے رشتہ داروں کے انٹرویوز کو دلچسپی سے سنتا رہا ہوں تاکہ ان کی نفسیات کے بارہ میں آگاہی حاصل کر سکوں ۔ میں بتدریج اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرچہ ہر واقعہ اپنی جگہ ایک منفرد کہانی ہے لیکن اس کے باوجود چند عوامل ایسے ہیں جو ہر کہانی کا حصہ ہیں ۔ میں اس مختصر مضمون میں اس پراسرار عقیدہ کو سلجھانے کی کوشش میں ان چند مخصوص جزیات کا ذکر کرونگا جو بہت سے حملہ آوروں میں مشترک ہیں:

اس عقیدے کا پہلا جزو شناخت کا مسئلہ ہے۔ بہت سے خود کش حملہ آوروں کے لئے شناخت کا مذہبی حوالہ ان کی نسلی، علاقائی اور جنسی شناخت کے حوالوں سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ نوجوان جن کی پرورش انگلستان اور شمالی امریکہ کے علاقوں میں ہوئی ہے وہ بھی خود کو برطانوی اور امریکی کہلوانے کی بجائے خود کو مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

اس عقیدے کا دوسرا جُز و پہچان کا مسئلہ ہے ۔ جب تمام دنیا میں بسے مسلم نوجوان عراق، فلسطین اور لبنان میں ٹی وی پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ جنگی مظالم اورغیر انسانی سلوک ہوتا دیکھتے ہیں اور ان کی کسمپرسی اور بے بسی کی خبریں اخباروں میں پڑھتے ہیں تو وہ ان مسلمانوں کے ساتھ اپنا جذباتی اور ذہنی ناطہ جوڑتے ہوئے اور خود کو مسلم امہ کا حصہ سمجھتے ہوئے وہ جنگ اور قتال میں شامل ہونے اور اپنی جان تک دینے کو ایک مقدس مذہبی فریضہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔

اس عقیدے کا تیسرا جُزو سامراجی اور استبدادی طاقتوں خصوصاََ امریکہ کے خلاف غصہ ، نفرت اور تلخی ہے ۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ در اصل جمہوریت کے فروغ کی آڑ میں ’مقدس تیل‘کی حصول یابی ہے ۔ جیسے جیسے جنگ کی ہولناکیاں بڑھتی جاتی ہیں ویسے ویسے امریکہ کے خلاف نفرت گہری ہوتی جاتی ہے۔

اس عقیدے کا چوتھا جُزو مسلمانوں کا اپنے ممالک کے سر براہان کے بارہ میں تجربے اور حقیقت پر مبنی متذبذب رویہ ہے ۔ منجملہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکہ جمہوریت کے فروغ کے لئے فقط زبانی دعوے کر رہا ہے ۔جبکہ اس کا عمل مسلمان ممالک میں جابرانہ اقتدار کے حامل ڈکٹیٹروں کی اعانت کرنارہا ہے ۔ وہ جمہوری طریق پر منتخب ہونے والے سیاستدانوں کے بالمقابل فوجی آمروں ، بادشاہوں اور کٹھ پتلی حاکموں کا ہمنوا رہا ہے ۔

اس عقیدے کا پانچواں جزو ان ذاتی حادثات میں مضمر ہے جو کئی مسلمان خاندانوں کو پیش آئے ہیں ۔ فلسطین ، عراق، افغانستان اور لبنان میں شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہوگا جس کے کسی فرد کو ہولناک موت یا مکان جائیداد کی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو ۔ باایں ہمہ ان ممالک کے مسلمان بدلے کی آگ میں جل رہے ہیں۔ اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق خود کش حملہ آور بن رہے ہیں تاکہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی بے وقت موت کا حساب چکتا کر سکیں جو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بن گئے ۔جو شخص جتنی سنگ دلانہ قید و بند کا شکار رہا ہے یا اس نے اپنے بزرگوں کی بہیمانہ موت کا مشاہدہ کیا ہے وہ بدلہ لینے میں اتنا ہی شقی ا لقلب ہے ۔

اس عقیدے کا چھٹا جزو بڑھتی ہو ئی مایوسی اور نا امیدی ہے ۔ کچھ عرب اور مسلمان خود کو بے یارومددگار محسوس کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کچھ بھی نہ کر پائیں گے ۔ یہ مایوسی، کرب اور غصّہ انہیں اپنی جان لینے اور تشدد سے دوسروں کی جان لینے کے لئے اکساتا ہے۔ایک مشہور فلسفی شو پنہر کا قول ہے کہ’’اگر زندگی کا خوف موت کے خوف سے تجاوز کر جائے تو انسان خود کشی کر لیتے ہیں‘‘

اس عقیدے کا ساتواں جزو ان مسلمان لیڈروں کی پر کشش ذات میں چھپا ہوا ہے جو اپنی مقناطیسی شخصیت کے زور پر مسلمانوں کو اپنے نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ وہ اپنی آئیڈیالوجی کو اسقدر موثر انداز میں پیش کرتے ہیں کہ کمزور اور غیر محفوظ نوجوان فوراََ ان کی تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ امر حیران کن ہے کہ نوجوان عرب اور دیگر مسلمان جیسے ہی ان عوامل کو کسی مسلک پرست لیڈر کی شخصیت کا حصہ پاتے ہیں ان کے دل میں اس لیڈر کے لئے اپنائیت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور اگر ایک بار ان نوجوانوں نے اپنے خدمات رضاکارانہ طور پر اُس لیڈر کو پیش کر دیں تو یہ لیڈر انہیں خود کش حملوں کی مہم جوئی پر بھیجنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ وہ انہیں باور کروا دیتے ہیں کہ یہ تجربہ ان پر جنت کے دروازے کھول دے گا ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہ خود کش حملہ آور کسی طور یہ نہیں سوچتا کہ وہ اقدام خود کشی کا مرتکب ہو رہا ہے اور خود کشی ان کے مذہب میں ایک نا پسندیدہ فعل اور حرام قرار دی گئی ہے ۔

اس تمام سیاسی اور ذاتی تجربے کے دوران جب قومی اور مذہبی افکار بھی یکساں طور پر انسان پر اثر انداز ہو رہے ہوں تو ایسے میں ایک انسان جو اپنے شہر میں بردبار، باوقار اور قانون پسند شہری کے طور پر جانا جاتا ہو جیسے ہی اس تحریک کا حصہ بنتا ہے وہ غیر محسوس طور پر اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔ کرشماتی شخصیات کے حامل ایسے لیڈروں نے گوریلا فوجی کاروائیوں کے بارہ میں بہت کچھ پڑھ اور سمجھ رکھا ہوتا ہے جسکی وجہ سے روایتی جنگ لڑنے والے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔ ممکن ہے چند خود کش حملہ آور کسی چھوٹے گروپ سے تعلق رکھتے ہوں یا از خود کوئی کاروائی کر گذرتے ہوں لیکن بہت سے مزاحمتی تحریک یا گوریلا جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے ذہنوں میں اپنی آئیڈیالوجی، مذہب اور خداکی خاطر جان لینے اور جان قربان کر دینے کے لئے خود کو آمادہ کرتے رہتے ہیں ۔

اگر ان سے سوال کیا جائے کہ تم عام امن پسند شہریوں کو کیوں نشانہ بناتے ہو تو وہ اپنے جنگی تشدّد کو جواز بخشنے کے لئے کہتے ہیں کہ چونکہ مغربی ممالک کی حکومتیں عام افراد کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں اس لئے بالواسطہ ان حکومتوں کے عزائم میں ان ممالک کے شہری شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ مسلم دنیا کے خلاف اس ظالمانہ اور وحشی پن میں در پردہ برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ بہت سے مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے باقاعدہ ایک ہلاکت آفرین منصوبہ شروع کر رکھا ہے اور مسلمان محض اپنے مذہب اور عقیدے کی حفاظت کی غرض سے دفاعی اقدامات کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اگر اس جنگ میں ان کی جان بھی چلی جائے تو وہ خدا کے حضور سرخرو ہونگے کہ انہوں نے اپنی جان دین کے دفاع میں قربان کر دی ہے ۔

نفسیاتی نقطہ نظر کے مطابق خود کش حملہ آور دراصل ایک تضاد کی نشاندہی کر تا ہے ۔ وہ بَیک و قت کمزور اور مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے ، وہ بے نام رہنا چاہتا ہے لیکن اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے گروہی تعظیم اور محبت سے نوازا جائے اور قومی تاریخ میں اسے ایک ہیرو کی حیثیت سے یاد کیا جائے۔ وہ مرنے کے لئے تیار ہوتا ہے لیکن بقائے دوام کا متمنّی ہوتا ہے ۔ وہ حملہ کی پلاننگ بہت سوچ اور سمجھ کے ساتھ کرتا ہے لیکن اس کا حملہ غیر منطقی اور بے شعور ہوتا ہے اور وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی نقصان اور تباہی کا سودا کرتا ہے ۔

پچھلی چند دہائیوں میں ایسے واقعات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ایسے حملوں میں ملوث تمام مسلمانوں کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ سامراجی امریکہ اور برطانیہ کو روایتی جنگ کے ذریعے سَر نگوں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا مقابلہ بہرحال ان سپر پاورز کی ترقی یافتہ افواج سے ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی مذہبی اور قومی آئیڈیالوجی کی سر بلندی کے لئے گوریلا جنگ کو اپنا ہتھیار بنا لیتے ہیں ۔ خود کش حملہ آور کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ہمیں عصر حاضر کی سیاسی فضا کا جائزہ لینا پڑے گا ۔

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بُش کا عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر تم ہمارے خلاف ہو‘‘نے پر تشدد مقابلہ آرائی کے نئے محاذ کھول دئے ہیں اور مسلم دنیا میں گوریلا جنگ کو ہوا دی ہے ۔ یہ خود کش حملہ آور دراصل اس بھیانک عفریت کا محض معمولی حصہ ہیں جو ایک مسلسل ہولناک جنگ کی شکل میں ہمیں نظر آ رہی ہے ۔۲۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے ٹائم میگزین میں رینٹز رومیش اور فلپ نے اپنے مضمون ’جہادیوں کا عروج‘میں لکھا ہے کہ انہوں نے خالد نامی ایک گوریلا لیڈر کا انٹرویو لیا جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس کا گروپ باقاعدگی کے ساتھ امریکن افواج کے خلاف حملوں میں شامل ہے اور کسی طرح بھی امریکہ کی غیرمعمولی فوجی طاقت سے مرعوب نہیں ہیں ۔

اس کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں تجربہ کار ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے پاس اس گوریلا جنگ کو جاری رکھنے کے لئے تقریباً پچاس برس تککے لئے اسلحہ موجود ہے۔بہت سے جنگی ماہرین اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں امریکہ کو دوبارہ ویت نام کی جنگ جیسی ہزیمت اور خفّت دوبارہ نہ اٹھانی پڑے ۔

میدانِ جنگ کے دونوں طرف یعنی مغرب میں جارج ڈبلیو بُش اور مشرق میں اسامہ بن لادن نے لا محدود مذہبی اور سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے ۔اور وہ خدا، مذہب اور سیاست کے نام پر بے شمار لوگوں کو قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے کے لئے تیار ہیں ۔ اگر ان دونوں حضرات کی تقاریر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان میں کئی باتیں مشترک ہیں ۔ ہر دو کو یقین ہے کہ وہ انصاف اور امن کی سر بلندی کے لئے بر سرِپیکار ہے ۔ دونوں کو یقین ہے کہ دوسرا دہشت گرد ہے ۔دونوں کو یقین ہے کہ وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہیں ۔ دونوں نے ایک مذہبی جنگ کی شروعات کا اعلان کیا ہے اور دونوں ہی معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں ۔ ایک اِسے صلیبی جنگ کہتا ہے تو دوسرا اسے جہاد کے نام سے معنون کرتا ہے ۔ دونوں کو یقین ہے کہ خدا صرف اُس ہی کا حامی و ناصر ہے ۔

خود کش حملہ آور چاہے اسامہ کے تابع مسلمان سرفروش ہوں یا وہ بُش اور بلیئر کے احکامات کے پابندعیسائی دنیا کے سپاہی ہوں اِن سب نے تشدد کو اپناتے ہوئے بھولے بھالے بے گناہ شہریوں کو اپنا نشانہ بنارکھا ہے تاکہ وہ اپنی مذہبی اور قومی آئیڈیالوجی کو سچا ثابت کر سکیں اور اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لئے تشدد کو اختیار کرنے کا جواز پیدا کر سکیں ۔

میری نگاہ میں قوم پرستی اور مذہب پرستی کے منجملہ نظریات انسانیت کے لئے کافی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ اور جب مذہب سیاست کے ساتھ بغلگیر ہو جائے تو یہ دو آشتہ زہرِہلاہل بن جاتا ہے ۔ غربت، پسماندگی اور مایوسی کے ڈسے ہوئے لوگ اپنے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی مسحور کُن تقاریر سے سحر زدہ ہو جاتے ہیں اور ایک خود ساختہ مذہبی فریضے کی ادائیگی میں نہ صرف اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں بلکہ ہزاروں معصوم اور لا تعلق لوگوں کی بے وقت موت کا سبب بھی بن بیٹھتے ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ خود کش حملہ آوروں کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ہمیں نہ صرف ان کی زندگیوں میں جھانکنا چاہیئے بلکہ اپنے ارد گرد پھیلے ان متحرک اور پر تشدد حالات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہئیے جوبالواسطہ یا بلاواسطہ ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ خود کش حملہ آور ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں عصر حاضر کے متنازعہ سیاسی مسائل کو حل کرنے کے بارہ میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ اگر یونائیٹڈ نیشنز یا دیگر بین الاقوامی ادارے ان مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نہ نکال سکے تو پھر مغرب اور مشرق کا مناقشہ، مسلم اور غیر مسلم دنیاؤں کے مابین چپقلش اسی طرح جاری رہے گی ۔ اور یہ بڑھتا ہوا کھنچاؤ گاہے بگاہے تشدد میں تبدیل ہوتا رہے گا ۔خود کش حملہ آور دراصل محض ایک علامت ہیں ان غیر حل شدہ قضیوں ، عداوتوں اور بڑھتی ہوئی نفرت کی جو دونوں طرف موجود ہے ۔

ہمارے لئے یہ امر کتنا تکلیف دہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی کے اس دور میں‘ جو تہذیب اور روشن خیالی کا دور ہے‘ جس میں بھائی چارے ، امن اور یگانگت کا چلن ہونا چاہئیے، جس میں ہم سبکو مل جل کے ایک پرامن خاندان کی طرح زندگی گزارنی چاہئے وہاں ہم آج بھی دوسرے ممالک، مذاہب ، فرقوں، گروہوں اورجماعتوں کے افراد کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان کی جان تک لینے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے چاہے ہم مشرق کے خود کش حملہ آور ہوں یا مغرب کی افواج کے کارندے۔ حیرت ہے کہ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ہم سب اس دھرتی ماں کے سپوت ہیں اور سب کی زندگی قیمتی اور انمول ہے ۔ جنہیں ہم دشمن سمجھ رہے ہیں وہ ہماری پچھلی نسلوں کے قریبی رشتے دار ہیں۔ اے کاش ہم سمجھ سکیں؟
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
(
ترجمہ: رفیق سلطان)

Comments are closed.