مُلا عمر گرفتاری سے بچنے کے لیے کراچی میں آلو فروخت کرتے رہے

ٹام حسین، ٹیلی گراف لندن

mullah-mohammed-omar-the-news
دو ہزار ایک میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد طالبان کے سربراہ مُلا عمر ، کراچی کے پرہجوم شہر میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ پاکستانی انٹیلی جنس کے لیے کام کرنے والے سابقہ اہلکار اور طالبان حکومت کے سابق وزیر کے مطابق دنیا کا انتہا ئی مطلوب فرد مُلا عمر دنیا کی نظروں سے بچنے کے لیے تین سال تک کراچی کی پرہجوم مارکیٹ میں سبزی کی دکان پر کام کرتا رہا۔

اس نے اپنی تمام بیرونی سرگرمیاں،طالبان تحریک کے لیے نئی بھرتی اور فنڈ اکٹھا کرنے کا کام، ختم کردیں۔ حتیٰ کہ اس نے طالبان کی امی پاکستان کی مذہبی شدت پسند تنظیموں سے میل جول بھی بند کردیا ۔ صرف اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکار لی مارکیٹ میں اس کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ پائیں جہاں وہ 2002 سے لے کر 2005تک مقیم رہا۔

ددہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کے سربراہ مُلا عمر کی کراچی میں روپوشی کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق تو نہ ہو سکی لیکن پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار اور طالبان حکومت کے سابق وزیر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ا(س کی شناخت اس لیے ظاہر نہیں کی جا سکتی کیونکہ) افغانستان میں ان کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

اس اہلکار نے جو تفصیلات بتائی ہیں اس کے مطابق امریکہ کی انتہا ئی سخت انٹیلی جنس کے باوجود وہ 2005میں افغانستان واپس چلا گیا اور طالبان کودوبارہ منظم کرنا شروع کر دیاحتیٰ کہ دوسال پہلے ، اس کا کراچی کے ہسپتال میں انتقال ہو گیا۔اس کی موت کا اعلان چند ہفتے پہلے کیا گیاہے۔

کیا پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے حکام اس کی کراچی میں موجودگی سے باخبر تھے؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ اس سے پہلے القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن بھی کئی سال تک پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کچھ فاصلے پر ابیٹ آباد میں موجود رہا جومئی 2011 میں امریکی فوج کا نشانہ بنا۔ پاکستانی حکومت کے مطابق کوئی بھی سینئر افسر یا حکومتی رہنما اس کی ابیٹ آباد موجودگی کے بارے میں نہیں جانتا تھا ۔

ان تفصیلا ت کا علم بھی نہیں ہو سکا کہ کیا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ابتدائی سالوں میں اس کی روپوشی میں مدد گار رہیں یانہیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے اپنے رہنماؤں کی حفاظت کے لیے کئی درجوں پر مشتمل انتہائی خفیہ نیٹ ورک تشکیل دے رکھا تھا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ انعام کے لالچ میں انٹیلی جنس ایجنسی کا کوئی بھی افسر اسے امریکہ کے ہاتھوں فروخت کر سکتا تھا۔

یادرہے کہ امریکہ نے مُلا عمر کی موجودگی کی اطلاع دینے والے کے لیے ایک کروڑ ڈالر کی رقم بطور انعام دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔آئی ایس آئی کے ایک افسر کے مطابق طالبان نے درست فیصلہ کیا تھا ۔ اگر ہمیں اس کی موجودگی کا علم ہوتا تو لازمی طور پر اسے امریکہ کے آگے فروخت کر دیا ہوتا۔

ذرائع کے مطابق مُلا عمر اور دوسرے طالبان رہنماؤں کے چھپنے کے لیے کراچی بہترین جگہ تھی کیونکہ 1990 سے پہلے تک وہ کراچی میں کئی سال تک مقیم رہ چکے تھے۔ مُلا عمر پہلی دفعہ 1979 میں کراچی آیا اور درالعلوم جامعہ بنوریہ میں داخلہ لیا جو کراچی کا سب سے پرانا اور بڑا دینی مدرسہ ہے۔دوسرے طالب علموں کی طرح وہ اسی مدرسہ میں قیام پذیر رہا اور قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی اور 1982 میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس افغانستان چلا گیا۔1990 کے وسط تک (طالبان تحریک کے قیام سے پہلے تک) وہ باقاعدگی سے کراچی آتا رہا۔

سابق طالبان وزیر کے مطابق ،2001 میں جب طالبان کی حکومت ختم ہوگئی تو اس کے تمام رہنما پاکستان کے مختلف شہروں میں بس گئے۔ زیادہ تر کوئٹہ اور کراچی آگئے۔

تفصیلات کے مطابق مُلا عمر نے 2002 تک افغانستا ن نہیں چھوڑا تھا۔جب چھوڑا تو سیدھا کراچی آگیا۔ مُلا عمر کے لیے کراچی اجنبی شہر نہیں تھا کیونکہ وہ یہاں کئی سال تک رہ چکا تھا۔ مُلا عمر کسی کو بتائے بغیر کراچی آیا حتیٰ کہ اس نے طالبان کی ساتھی تنظیموں ، حرکت المجاہدین اور جیش محمد تک کو بھی خبر نہ ہونے دی۔ کیونکہ ان تنظیموں کے نیٹ ورک نے پہلے مُلا عمر کے سیکرٹری طیب آغا کو کراچی میں رہنے لیے مکان لے کر دیا تھا جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کئی سال مقیم رہا۔لیکن طالبان کے سربراہ نے انہیں بھی خبر نہ ہونے دی۔

وہ کراچی کے پرہجوم علاقے کھارادر، لی مارکیٹ اور لائٹ ہاؤس کے علاقے میں قیام پذیر ہوا جہاں پہلے سے ہی اس کے ہم وطن افغانی رہائش پذیر تھے۔پختون ،کراچی کی دوکروڑ کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔ پختون اردو بولنے والی اکثریت کے بعد کراچی کی دوسری بڑی کمیونٹی ہے

مُلا عمرکا میزبان، لی مارکیٹ میں قیام پذیر ایک پاکستانی عسکریت پسند تھا جس کے اس علاقے میں کئی منزلہ فلیٹوں میں کئی خفیہ رہائش گاہیں تھیں۔سابقہ افغان وزیر نے اس کا نام ظاہر نہ کرنے کا کہا کیونکہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں۔

پختون کمیونٹی میں گھل مل کر رہنے کے لیے اس نے وہاں سبزی کی دوکان پر آلو بیچنا شروع کردیے۔ اس نے یہ کام شروع نہیں کیا تھا بلکہ پہلے سے موجود سبزی کے تھوک کے کاروبار میں شامل ہوگیا۔مُلا عمر نے 2005 میں کراچی چھوڑ دیا ۔ طالبان اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یقین ہے کہ وہ بعد میں کئی دفعہ کراچی آتا رہا۔

دو ہزار گیارہ میں شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا نے پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو مُلا عمر کی کراچی میں موجودگی کے ثبوت دکھائے تھے اور بتایا تھا کہ وہ شدید بیمار ہے اور کراچی کے بہترین ہسپتال ، آغا خاں ہسپتال، میں زیر علاج ہے۔

ذرائع کے مطابق مُلا عمر کی آغا خان ہسپتال میں موجودگی کوئی حیرانگی کی بات نہیں تھی کیونکہ ستمبر2001 سے پہلے کئی زخمی افغان طالبان آغا خان ہسپتال میں علاج کے لیے آتے رہے تھے۔کئی سالوں تک پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں مُلا عمر اور دوسرے طالبان رہنماؤں کی کراچی میں موجودگی سے بے خبر رہیں۔کیونکہ2001 سے پہلے، کراچی کے پختون علاقوں میں ان کا ایک نہایت منظم نیٹ ورک موجود تھا۔

دو ہزار ایک کے بعد زیادہ تر نیٹ ورک تو بند ہوگئے لیکن کچھ علاقوں میں عسکریت پسند انتہائی خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے اور اپنے دفتروں کو لائبریوں میں تبدیل کردیا جن کے نام مسلمان سپہ سالاروں کے نام پر رکھے گئے تھے۔

طالبان کے نائب امیر مُلا عبدالغنی برادر کو 2010 میں کراچی کی ایک غریب پختون علاقے، اتحادٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کی موجودگی کی اطلاع سی آئی اے نے دی تھی مگر گرفتاری پاکستانی سیکیورٹی کی جانب سے عمل میں لائی گئی۔

One Comment