سرائیکی وسیب کا مسئلہ، پنجاب کے مقدمے کی روشنی میں

ڈاکٹر مزمل حسین

0195947001339311614

قیام پاکستان کے وقت پاکستان گوناگوں مسائل کا شکار تھا ان مسائل میں بڑا مسئلہ قومتیں بھی تھا۔ اسٹبلشمنٹ کی کوکھ سے جنم لینے والی حکومتوں نے اس اہم ترین مسئلے کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا اور آج پاکستان آہستہ آہستہ’’انارکی‘‘ کی نذر ہورہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد قائداعظم محمد علی جناح نے جذباتی انداز میں یہ فرمادیا تھا کہ پاکستان کی صرف اور صرف قومی زبان ’’اردو‘‘ ہوگی اگرچہ اس اعلان کے پیچھے ’’عظیم قائد‘‘ کا جذبہ خیر اور قوی شعورپنہاں تھا کہ اردو پاکستان کی ’’لنگوافرانیکا‘‘ ہے او رصرف یہی زبان رابطے کی زبان ہوسکتی ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ زبانیں، قوموں کا اثاثہ ہوا کرتی ہیں اور یہ زبانیں ہی قوموں کو شناخت اور انسان دوستی کا شعور دیتی ہیں۔ وہ زبان جو انسان کی ماں بولی ہے وہ اُسے اپنی ماں کی حرمت کی طرح عزیز ہوتی ہے اس طرح قومی سطح پر ٹھہر کر ایسی زبان کو قومی زبان قرار دے دینا جسے پاکستان کی ایک فی صد آبادی بولتی ہے تو بہت سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور احساس محرومی کو فروغ ملتا ہے۔

زبان کی محرومیوں کے سلسلے میں سرائیکی وسیب ایک ایسا سیاہ بخت خطہ ہے جس کی زبان کو ہمیشہ ریاستی سطح پر نظر انداز کیا گیا او ریہاں کے بسنے والوں کے اظہار کے اس بڑے ذریعے کو نہ صرف رد کیا گیا بلکہ طنز کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ گذشتہ کئی دہائیوں کی جدوجہد میں سرائیکی لوگوں نے اپنی زبان کی اہمیت کو بڑی حدتک منوالیا ہے کیونکہ اس زبان کی مٹھاس اور تخلیقی تو انائی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خود کو پاکستانی زبانوں کے برابر بلکہ کچھ زیادہ ہی خود منواسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لمحہ موجود میں جس زبان میں سب سے زیادہ کتب شائع ہورہی ہیں وہ سرائیکی زبان ہے۔ کافی کی صنف سے لے کر ناول تک او رپھر تنقید اور تحقیق کے میدان میں سرائیکی زبان وادب نمایاں ترین مقام پر فائز ہوچکا ہے۔ چار کروڑ سے زیادہ زبان والی یہ قوم ابھی تک اپنی ہی ریاست میں شناختی بحران کا شکار ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے ایوانوں میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے بحثوں کا آغاز ہوا تو سب سے بڑا اعتراض ’’سرائیکی زبان‘‘ پر لگایا گیا کہ صوبہ لو مگر اس کا نام ’’سرائیکی‘‘ زبان کے حوالے سے نہ ہو کیونکہ اس طرح یہاں بسنے والے ’’نان سرائیکی‘‘ عدم تحفظ کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے صوبہ ہو مگر اُس کی بنیاد لسانی کی بجائے انتظامی ہو۔ کیا احمقانہ بات ہے کہ صوبے، ضلع، ڈویژن وغیرہ تو ہوتے ہیں، ’’انتظامی ‘‘ہیں۔ صرف سرائیکی صوبے کے لئے ایسا واویلاکیوں؟

دراصل یہاں سرائیکی زبان کی نفی کرنا مقصود تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ہم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ زبانیں شناخت کی بنیاد ہوتی ہیں اور شناخت انسان کا روحانی اور فطری تقاضا ہے، کوئی بھی ریاست انسان کو اس جذبے سے جُدا نہیں کرسکتی اور سرائیکی وسیب میں بسنے والے’’نان سرائیکیوں‘‘ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کا استحصال بلا امتیاز ہورہا ہے۔ استحصال کے تناظر میں زبان کے ساتھ ساتھ’’ڈومی سائل‘‘ کا استعمال بھی ہورہا ہے اور سرائیکی بولنے والے‘‘سرائیکی صوبہ‘‘ بننے کے بعد کسی سے اجنبیت کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ یہ ممکن نہیں ہوتا آخر کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں بھی تو سرائیکی رہتے ہیں۔

سرائیکی زبان پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر پنجابی ہیں اور وہی پنجابی سرائیکی صوبے کی نفی’’سرائیکی زبان‘‘ کے پس منظر میں کرتے ہیں کیونکہ بڑا صوبہ(پنجاب) اُن کے کاروبار، بالادستی اور سیاست میں نمبرداری کا ضامن ہے۔ اِسی بڑے صوبے نے پورے ملک کی سیاست اور معیشت کو عدم توازن کا شکار کررکھا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم پنجابیوں کے ایک بڑے ترجمان حنیف رامے (مرحوم) کی زبان میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ آج سرائیکی صوبے کے ناقد سرائیکی زبان اور صوبے کے سرائیکی نام پر معترض ہیں او رکہتے ہیں کہ صوبہ کا لسانی حوالہ انارکی اور بے چینی کو فروغ دے گا تو اس سلسلے میں پنجابیوں کے راہنما حنیف رامے کی گفتگو کے چند اقتباسات دیکھیے جو پنجابی اور’’زبان‘‘ کی اہمیت کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں یعنی جب اپنے پنجاب کی بات ہوتو زبان کا اعتراف ہونے لگتا ہے اورجب دوسرے اپنا شناختی حق مانگیں تو’’خانہ جنگی‘‘ کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ حنیف رامے نے یہ باتیں آج سے تقریباً 28 برس قبل ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ میں فرمائی تھیں: کتاب کے انتساب لکھتے ہیں کہ

’’پانچ کروڑ بے زبان پنجابی عوام کے نام۔۔۔ اس معذرت کے ساتھ کہ میں نے یہ کتاب پنجابی میں نہیں لکھی۔ مگر شاید’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ مجھے اردو میں اس لئے پیش کرنا پڑا کہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی کو چھوڑ دیا ہے‘‘۔

’’پنجابیوں نے پاکستانی قومیت کے تصور میں اپنی پنجابیت کی حقیقت کو اس حد تک جذب کردیا کہ پنجابی کہلانا اور اس نسبت سے پہچانے جانا ان کے لئے کوئی فخر کی بات نہ رہ گئی۔ انگریز نے پنجاب کے جذبۂ مزاحمت کو کچلنے کے لئے پنجابی زبان کی بجائے اردو کو ذریعہ تعلیم بنادیا تھا۔ اُس بھیا فوج اور بھیا نوکر شاہی نے جو انگریز کے ساتھ پنجاب کو فتح کرنے آئی تھی اپنی سہولت کی خاطر اُس فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے خصوصی زور لگادیا تھا۔ انگریز کی ضرورت اور بھیا فوج اور بھیا نوکر شاہی کی سہولت نے پنجاب کی ثقافت پر کاری ضرب لگائی۔ زبان ہی ثقافت کی جان ہوتی ہے۔ زبان نہ رہی تو ثقافت کی عمارت بوسیدہ ہوکر گرنے لگی۔ ستم بالائے ستم، تحریک پاکستان میں اردو کے حق میں بلند ہونے والے ایک نعرے کو پنجابیوں نے اس حد تک اپنایا کہ وہ اپنی ثقافت کی بنیاد ہی سے ہاتھ دوبیٹھے‘‘۔پنجاب کا مقدمہ، صفحہ ۲۵، ۲۶

’’سوچنے کی بات یہ ہے کہ تاریخ کے تشدد کا یہ اثر پاک پنجاب پر اس قدر گہرا کیوں ہے اور اس کی چھاپ بھارتی پنجاب پر کیوں اتنی نمایاں نہیں۔ بات اتنی ہے کہ جو زمین کے بیٹے نہیں بنتے اور اپنی زبان اور ثقافت کو ترک کر دیتے ہیں وہ قائدانہ صلاحیتوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ آج سکھوں کے پنجاب میں قیادت کا خلا نہیں، لیکن مسلمانوں کے پنجاب کی حالت کیا ہے؟ آج مسلمانوں کا پنجاب قیادت کے لئے اپنی حدود سے باہر دیکھنے کا عادی نظر آتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد، پنجاب کے مسلمان یہ تو ہرگز نہیں سوچتے کہ قیادت چین، روس، ایران، افغانستان یا بھارت سے آئے گی لیکن یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر دوسرے صوبوں سے آئے گی یا اس پر کسی نہ کسی حدتک درآمد کی مہرضرور لگی ہوگی۔وہ اندر ہی اندر انتظار کرتے ہیں کہ قیادت ایوب خان کی طرح سرحد سے یا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سندھ سے آجائے۔ مسلمان پنجابی کا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں رہنے کے باوجود وہ پنجابی نہیں۔ جو شخص پنجابی بولتا نہیں، پڑھتا نہیں، لکھتا نہیں، کیا محض اس لئے پنجابی کہلاسکتا ہے کہ پنجاب میں اس کے پاس زمین، مکان یا نوکری ہے۔ نہ وہ پنجابی کہلاسکتا ہے او رنہ وہ پنجاب کی قیادت کرسکتا ہے۔پنجاب کا مقدمہ،صفحہ55

’’اگر ابتداہی میں اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا جاتا اور اس سلسلے میں ایک دیانت دارانہ کوشش کی جاتی او رمغربی پاکستان کے لوگ بھی اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی او رمشرقی پاکستان کے لوگ پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو سیکھ لیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔‘‘(پنجاب کا مقدمہ ،صفحہ88

’’غلطی یہاں نہیں ہوئی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو کیوں قومی زبان نہیں بنایا گیا، غلطی یہاں ہوئی کہ اہل پنجاب نے آزادی کے بعد بھی زبان کے مسئلے پر خود دارنہ فیصلے نہیں کئے۔ وہ اردو جو اُن پر انگریز نے ان کی قومیت کو ملیامیٹ کرنے کے لئے بھیا فوج اور بھیانوکرشاہی کی مدد اور تائید سے نافذ کی تھی۔ بے شک قومی زبان کے طور پر قائم رہتی لیکن اب انہیں دوسرے صوبوں کی طرح اپنی مادری زبان پنجاب ہی کو اپنا ذریعہ تعلیم اور اندرون پنجاب بول چال کی زبان بنانا چاہئے تھا۔ اردو کے سلسلے میں پنجابیوں کے غلط او رجذباتی رویے سے بنگالیوں کو احساس ہوا کہ اُردو پنجابیوں کی زبان ہے۔ انہوں نے بجا طور پر سوچا کہ اگر پنجابیوں کی زبان اردو کو قومی زبان بنایا جاسکتا ہے تو ان کی زبان بنگلہ کو کیوں نہ بنایا جائے جبکہ ملک کی آبادی میں انہیں اکثریت حاصل ہے اگر اہل پنجاب نے پنجابی زبان کے ساتھ اُس محبت کا اظہار کیا ہوتا جس کی وہ ہماری ماں بولی ہونے کی حیثیت سے حقدار تھی تو صورتحال کبھی نہ بگڑتی۔‘‘(پنجاب کا مقدمہ،صفحہ89)

حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سامراجی مقاصد اور ملکی سطح پر سیاسی جبر اور معاشی استحصال کے احساس کے بعد جس ایک بات نے پاکستان کے دو ٹکڑے کردئیے وہ زبان تھی‘‘۔پنجاب کا مقدمہ‘‘ صفحہ89

حنیف رامے کی یہ آراء کم وبیش تمام پنجابی دانشوروں، پنجابی بیوروکریسی او رپنجابی سیاستدانوں کے دل کی آواز ہے۔ دراصل گذشتہ چھ دہائیوں سے پنجاب کی پنجابیت نے اپنے بڑے صوبے کے بل بوتے پر نہ صرف سرائیکوں کا بلکہ پورے پاکستان کی چھوٹی قومیتوں کا استحصال کیا ہے اور زندگی کے ہر میدان میں اپنی ’’چودہراہٹ‘‘ قائم رکھی ہے اب سرائیکیوں کی مضبوط آواز اور توانا موقف کو غیر مقبول کرنے کے لئے سرائیکی زبان کی مخالفت ہر پلیٹ فارم پر کرنے کے لئے زبانوں کی اہمیت کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق لمحہ موجود میں دنیا میں چھ سے سات ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سے اکثر زبانوں کو معدومیت کا خطرہ ہے۔ اس دنیا کی ثقافتی اور لسانی رنگارنگی یا تنوع کو اس خطرے سے بچانے کے لئے دس برس قبل بنگلہ دیش کی تجویز پر اقوام متحدہ نے 21فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ دن بنگالی زبان کے حقوق کی جدوجہد کے دوران1952ء میں جنم لینے والے المیے کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کا انجام1971ء میں سامنے آیا او رہم پاکستانی قوم کے طور پر آج بھی اس المیے سے سبق سیکھنے کی بجائے نوآبادتی استعمار کے مقاصد کے لئے المیوں کی ایک اور فصل کی تیاری میں مصروف ہیں۔

کیا ہم نے بنگالی زبان کے بعد بچنے والی پاکستانی زبانوں سرائیکی، سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، پھوٹوہاری، یا پھر بلتی، کھووار، شینا، ہروشسکی، براہوی، ماوراڑی، گجراتی جیسی زبانوں کو اس قابل سمجھا کہ انہیں ذریعہ تعلیم بنایا جائے او رپاکستان کے ثقافتی اور لسانی تنوع کو کم ازکم سرکاری طو رپر تسلیم ہی کرلیا جائے؟‘‘(بحوالہ ڈاکٹر جاوید چانڈیو، سرائیکی زبان، ادب اور معاشرہ، صفحہ15

پاکستان میں بولی جانے والی یہ متنوع زبانوں کو ریاستی اور سماجی سطح پر کم ہی تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسٹبلشمنٹ کی وہ پالیسیاں ہیں جو کسی نہ کسی پہلو پر سوائے پنجابی زبان کے تمام کی نفی کرتی ہیں۔ ایسٹبلشمنٹ جو اپنی دانست میں خود کو عقل کل سمجھتی ہے اُسے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ اسی رویے نے پاکستان میں بیگانگی اور اجنبیت کے احساس کو فروغ دیا ہے۔

پنجابی دانشور اور اہل سیاست جنہیں پنجابی زبان کی بے قدری کا غم سکون نہیں لینے دے رہا وہی سرائیکی زبان کی نفی میں ہمہ وقت مصروف کارہیں۔ جب سرائیکی شناخت یا صوبے کی بات آتی ہے تو دو قومی نظریہ یا نام نہاد قومی احساس ہمک کرباہر آجاتا ہے او رپھر میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے سرائیکی زبان اور سرائیکی تہذیب وثقافت کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے اور اُن راہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو کڑے امتحانوں میں ڈال جاتا ہے جو ’’سرائیکی وسیب‘‘ کے حقوق کی بات کرتی ہیں، اس کی بڑی مثال پاکستانی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دکھوں اور ناکامیوں سے دی جاسکتی ہے۔ پنجابیوں کے سب سے بڑے دانشور جناب حنیف رامے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی ماں بولی سے روگردانی قوموں کو نہ صرف شناختی بحران کا شکار کرتی ہے بلکہ قومی سطح پر انہیں بزدل او رغلام بھی بنادیتی ہے۔

اسی بات کی روشنی میں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان میں مختلف قومیتی اکائیوں کی زبانوں کا انحراف دراصل اُنہیں اپنے ہی ملک میں غلام رکھنے کی ایک سازش ہے، گذشتہ تین سال کے اخبارات نکال کے دیکھ لیں پنجاب کے حکمران اور دانشور کہتے ہیں کہ’’سرائیکی ایشو‘‘ موجود ہے مگر اسے لسانی تناظر میں تسلیم کرنا اُن کے لئے مشکل ہے، وہ کہتے ہیں کہ صوبہ لے لو مگر اس کا نام لسانی بنیادوں پر نہ ہو۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کی پہچان پنجابی اور اردو ہو، تاکہ مخصوص قومیت کے وسیع تر مفادات کو گزند نہ پہنچے مگر ملک کے سنجیدہ طبقات، دانشوروں اور اہل سیاست کو اس بات کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک یہاں بسنے والی مختلف قوموں کی زبانوں اور اُن کی تہذیب وثقافت کااعراف نہ کیا جائے گا اُس وقت تک سیاست، معیشت اور سماجی رویوں میں توازن نہیں آئے گا۔

One Comment