افغان باقی کہسار باقی

محمد شعیب عادل

hamid mir
پاکستان کے سیاسی منظر میں پچھلے ایک سال سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ فوجی ایسٹبلیشمنٹ کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں ہیں اور وہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے یک جان و یک قلب ہو چکی ہے یہی وجہ تھی کہ سیاسی حکومت کے لیعت و لعل کے بعد جنرل راحیل شریف نے اپنے طورپر آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا اور فوراً ہی اس کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ نواز حکومت کو سائیڈ لائن کر دیا گیا اور جنرل راحیل شریف پاکستان کے نئے نجات دہندہ بن کر سامنے آئے ۔

دسمبر میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا جس میں سو سے زیادہ بچے مارے گئے۔ ایک بار پھر وہی مشق دہرائی گئی جو ہربڑے دہشت گردی کے واقعے کے بعد دہرائی جاتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا،دہشت گردی سے سختی سے نمٹنے کا اعادہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ملٹری ایسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا اعلان ہوا۔ دھوم دھام سے ملٹری کورٹس کااجراء کیا گیا اورپھانسی کی سزا بھی بحال ہوگئی۔ مگر حالات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔آپریشن ضرب عضب شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جارہا ہے اور آئی ڈی پیز بدستور کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

مُلا عمر کی ناگہانی اور بے وقت موت پر اردو کے تمام جید کالم نگاروں، حامد میر سے لے کر خورشید احمد ندیم اور سلیم صافی سے لے کر اوریا مقبول جان تک، نے مُلا عمر کی موت کا نوحہ لکھا ہے ۔ ہر کسی نے پاکستانی قوم کو مُلا عمر کی انسانیت اور اسلام کے ساتھ محبت اور اس کی بے مثال خدمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔کسی نے بھی ان کے ظلم و ستم کو سامنے لانا مناسب نہیں سمجھا صرف جنرل راحیل شریف کے ممدوح روف کلاسرا نے طالبان کی مخالفت میں کالم لکھا ہے اور انہوں نے جید کالم نگاروں کو مُلا عمر اور طالبان کے ظلم وستم یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کا کیس کمزور ہے۔

مسلم سماج شایددنیا کا واحد سماج ہو گا جہاں ہزاروں لوگوں کے قاتلوں کو نجات دہندہ سمجھاجاتا ہے۔حامد میر لکھتے ہیں کہ’’ مُلا عمر کی زندگی ان کے دشمنوں کی شکست تھی اور ان کی موت ان کے طاقتور دشمنوں کی شکست کا اعلان ہے‘‘۔مزید فرماتے ہیں کہ ’’عالمی میڈیا میںیہ تاثر دیا جاتا ہے کہ طالبان کو آئی ایس آئی نے منظم کیا اور مُلا عمر کو آئی ایس آئی نے پاکستان میں چھپا رکھا تھا بلکہ طالبان کی تشکیل میں آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں تھا‘‘ ۔ طالبان کے متعلق ایک اہمطبقاتی انکشاف بھی کیا ہے کہ ’’طالبان کااقتدار ختم ہو گیا لیکن طالبان ختم نہ ہوئے۔ طالبان کے ختم نہ ہونے کی بڑی وجہ طالبان کا طبقاتی کردار ہے، دنیا کے نزدیک یہ ایک انتہا پسند مذہبی تحریک ہے ۔ حقیقت میں یہ دولت مند قبائلی سرداروں اور کرپٹ وار لارڈز کے خلاف دیہاتی کسانوں کی مسلح تحریک ہےَ ‘‘۔

کالم نگار وں کے تعزیت ناموں سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان تو سرتاپا انسانیت ہیں اوروہ اس خطے میں حقیقی امن قائم کرنا چاہتے ہیں جیساکہ اسلام کا دعویٰ ہے اور ان کی بات کوئی غلط بھی نہیں۔حقیقت میں طالبان اسلام کی سچی تصویر ہی پیش کر رہے ہیں اوران کے کارناموں سے دور رسالت اور خلافت راشدہ کا زمانہ یاد آجاتا ہے۔ اب کوئی لبرل فاشسٹ اسلام کے تصور حیات سے خوف کھاتا یا نفرت کرتا ہے تو اسے اس کے ذہن کا فتور ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسے فوری طور پر اسلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔لبرل فاشسٹوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں کہ اسلام ایک انتہائی پرامن مذہب ہے۔

حامد میر نے طالبان کا پیغام ملکی و غیر ملکی اداروں تک پہنچانے کا فرض بھی نیک نیتی سے ادا کیا ہے۔انہوں نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں چھپنے والی ان رپورٹوں کے تاثر کو غلط ثابت کیاہے کہ مُلا عمر کی وفات کے اعلان کے بعد ان میں قیادت سے متعلق کوئی اختلافات پھوٹ پڑے۔ حامد میر تفصیل سے مولاناسمیع الحق کی مشکل وقت میں طالبان کو متحد رکھنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ مولاناسمیع الحق نے ہمیشہ افغان طالبان کی سرپرستی اور ترجمانی کی ہے، ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘ ۔

میر صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ طالبان کو مکمل کنٹرول کر رہی ہے اور اگر ان میں کچھ اختلافات پیدا بھی ہوئے تھے تووہ ختم کرادئے گئے ہیں اوریہ کہ پاکستانی ریاستتزویراتی گہرائی کی پالیسی ترک کرنے کو تیار نہیں اور طالبان کے روپ میں افغانستان میں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق حکومت بنانا چاہتا ہے تاکہ اس خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

حامد میر نے مُلا عمر کی آلو بیچنے والی سٹوری کو بھی رد کر دیا ہے۔ حالانکہ تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے کئی خلیفہ یا تو جوتیاں مرمت کرکے یا ٹوپیاں سی کر اپنے لیے روزگار کا بندوبست کرتے تھے ۔ زیادہ متقی او رپرہیز گار تو قرآن پاک کی کتابت کرکے گھر کا خرچہ چلاتے تھے۔ اگر مُلا عمر نے کچھ سال بھتہ لینے کی بجائے آلو بیچ لیے ہیں تو حامد میر کو شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے۔

میر صاحب نے طالبان کے متعلق اس تاثر کو بھی دور کیا ہے کہ وہ ہر وقت بندوق ہاتھ میں لیے رکھتے تھے، وہ طالبان کی کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی منظر عام پر لائے ہیں ’’ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی پہلی باقاعدہ کرکٹ ٹیم تشکیل دی گئی اور طالبان حکومت نے پاکستان کے ذریعے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی‘‘۔ میر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان کی کرکٹ ٹیم گیند کو ن سا استعمال کرتی تھی کیونکہ ان کے بارے میں فوجیوں کی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کے بارے میں سن رکھا تھا۔اگر طالبان کی کرکٹ ٹیم پاکستان آتی تو یہ پاکستانیوں کے لیے ایک دلچسپ منظر ہوتا کہ ایک ٹیم شلوار قمیض میں ملبوس اور دوسری چست پتلونوں میں ملبوس کرکٹ کھیل رہی ہوتی۔

حامد میر برطانوی صحافی جیمز فرگوسن کی طالبان کے متعلق لکھی جانے والی کتاب (نام اور پبلشر کا ذکر نہیں کیا)کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔ اردو میں کالم لکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی صحافی کے نام سے کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے کیونکہ کون اتنا تردد کرے کہ کتاب، وہ بھی انگریزی میں، تلاش کرکے پڑھے۔ اگر کسی گورے صحافی کو بتایا جائے کہ کسی مقامی پریس میں اس سے کچھ منسوب کیا گیا ہے تو وہ بھی کندھے اچکا کر تھینک یو کہہ دیتاہے۔

جیمز فرگوسن کی کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افغانستان کی تاریخ میں مُلا محمد عمر سے یہ اعزاز کوئی چھین نہیں سکتا کہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں پوست کی کاشت کو ختم کردیا اور سواراجیسی رسموں پر پابندی لگائی جن کے تحت قبائلی دشمنیاں ختم کرنے کے لیے عورتوں کی زبردستی شادیا ں کی جاتی تھیں۔۔۔ مُلا عمر کے دور میں قاری برکت اللہ سلیم کابل میں ایک گرلز سکول چلاتے رہے جس میں سات ہزار طالبات زیر تعلیم تھیں‘‘۔ جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ہماری ملالہ یوسفزئی تو ویسے ہی غیر ملکی طاقتوں کی ایجنٹی کرتے ہوئے طالبان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرتی رہی۔

آخر میں موصوف مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مُلاعمر کی موت کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے ۔ یہ عمل بحال ہونا چاہیے تاہم اس معاملے میں پاکستان کو بہت احتیاط ، صدر اشرف غنی کو برداشت و حکمت اور عالمی طاقتوں کو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ‘‘ اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ ’’افغان طالبان کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر ان کے خلاف سختی کی جائے گی اور جھوٹ بولا جائے گا تو پھر جواب میں دھماکوں کی آوازیں بھی آئیں گی‘‘۔

Comments are closed.