مقدس شخصیات و اقدار یا زہر آلود تعلیم و تربیت

سبط حسن

timthumb.php1

نیا علم، اردگرد بسی انسانی اور مادی دنیا کے ساتھ تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ تعلق کی نوعیت علم کے متحرک یا غیر متحرک ہونے کو طے کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ریاستی نظام میں بیورو کریسی (سول وفوجی) اور عام لوگوں کا ریاست کے مادی اور انسانی وسائل کے ساتھ رشتے کی نوعیت میں فرق ہے۔ یہی تفریق دو طرز کے شعور پیدا کرتی ہے۔ دونوں شعور اپنی اساس کے لئے مختلف قسم کے علم پر بھروسہ کرتے ہیں۔ بیوروکریسی متحرک رہتے ہوئے ریاستی وسائل کو کھاتی رہتی ہے جبکہ عوام غیر متحرک رہتے ہوئے اس لوٹ کھسوٹ کی گنجائش بڑھاتے رہتے ہیں۔

انسانی اور مادی دنیا کے ساتھ جو تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں محض علم اور شعور ہی پیدا نہیں ہوتا، افراد اپنا شعور ذات بھی تعمیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیوروکریسی کے اہلکاران میں احساس تفاخر، گھمنڈ اور اپنی ترجیحی حیثیت وغیرہ پر مبنی شعور میں بے بسی، ناامیدی اور ضعیف الاعتقادی جیسے عناصر نمایاں ہوتے ہیں۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ انسانی اور مادی دنیا کے ساتھ تعلق سے جو شعور ذات پیدا ہوتا ہے وہ مخصوص قسم کا علم اور روایات بھی پیدا کرتا ہے۔ یہی علم اور روایات انسانوں کے عمل کو معین کرتے ہیں۔

انسانی اور مادی وسائل کے ساتھ رشتوں کی نوعیت سائنس اور ٹیکنالوجی کی نوعیت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ مثال کے طو رپر ہندوستان میں صدیوں سے زراعت کا انحصار بارش پر تھا، رہٹ کی ٹیکنالوجی کی یہاں آمد کے بعد زمین کے ساتھ رشتے کی نوعیت تبدیل ہوگئی۔ اسی طرح مجموعی طو رپر مخصوص حالات کے باعث اجتماعی شعور اور اس کے تحت مخصوص انفرادی شعورِ ذات پیدا ہوتے ہیں۔

اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہتری یا تبدیلی نہ ہو تو اجتماعی اور ذاتی شعور ایک مخصوص ڈھانچے میں قید ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد انسانی او رمادی وسائل کے ساتھ یہاں بسے لوگوں کا جو تعلق قائم ہوا، جو شعور پیدا ہوا اور اس شعور کے نتیجے میں جو ٹھوس رویے پیدا ہوئے وہ کم وبیش یہ تھے۔

اول۔ مسلمان بحیثیت حکمران، عوام الناس سے مختلف ہیں۔ وہ ایک ارفع مقام رکھتے ہیں۔ مسلمان حکمران ہوں یا ان سے نسبت رکھنے والا کوئی عام مسلمان، ان کا شعور ذات یہ تھا کہ انہوں نے طاقت کے زور پر مقامی لوگوں کو فتح کیا ہے اورحربی مزاج(عسکری )ہی اس فتح کی بنیاد ہے۔ اس مزاج کو بنانے کے لئے اساسی کام محمود غزنوی نے کیا تھا۔ اسی مناسبت سے وہ’’فاتحین‘‘ اور وہ لوگ جنہوں نے مقامی لوگوں کو ’’مسلمان‘‘ بنایا وہ مسلمانوں کی اجتماعی اقدار میں ہیرو قرار پائے۔

دوم۔چونکہ فاتحین، مفتوحین کے مقابلے میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، اس لئے دونوں کے مابین برابری پر مبنی تعلقات کی توقع عبث ہے۔ مفتوحین کو رذالت کی ادنیٰ حیثیت پر رہنا چاہئے اور فاتحین کو ان کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے، مفتوحین کو ہمیشہ عدم سلامتی کے ماحول میں رکھنا چاہئے۔ اس طرح مسلمانوں میں اجتماعی اور ذاتی سطح پر جو شعور پیدا ہوا اس کے اہم عناصر میں تکبر، انفرادیت پسندی اور احساس برتری نمایاں تھے۔ یہ شعور اپنے جوہر کے اعتبار سے قبائلی تھا اور اس میں اپنے قبیلے سے مختلف ہر فرد اور رویے کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ چونکہ فاتحین کی اساسی تحریک حربی مزاج پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنے سے ہر مختلف فرد اور رویے کے قلع قمع کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

سوم۔چونکہ کسی بھی توسیع پسندانہ جنگ وجدل کا مقصد دوسروں کے چین وسکون کو برباد کرنا اور ان کے وسائل کو لوٹنا ہوتا ہے، اس لئے ایسی اقوام کے شعور ذات میں لوٹ مار کی شعوری تحریک موجود رہتی ہے۔ مسلمانوں میں اس شعوری تحریک کو مال غنیمت کے حصول سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو اپنا مال سمجھنا اور کسی قسم کے دریغ کے بغیر اسے لوٹ لینا، اس شعوری تحریک کا اہم عملی نتیجہ ہے۔ ایسے شعوری ڈھانچوں کی موجودگی میں تخلیق یا ترقی کرنا یا اس میں حصے داری کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

چہارم۔چونکہ مسلمانوں کے اجتماعی مزاج میں فاتح ہونے سے منسلک تمام عناصر کو اساسی حیثیت حاصل ہے، اس لئے وہ بلا شرکت غیرے، اپنی انفرادیت کو قائمِ اور برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اسی انفرادیت کی بنیاد پر’’خدا کی سب سے پسندیدہ مخلوق‘‘ سمجھتے ہیں۔

جن چار عناصر کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، انہی کی بنیاد پر نہ صرف بچوں کے لئے درسی مواد تیار کیا جاتا ہے بلکہ والدین، میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ بھی اسی کی تبلیغ واشاعت میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ اب ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت نہ تو فاتحین جیسی ہے او رنہ ہی ان فاتحین کے کوئی مفتوحین موجود ہیں۔ چونکہ یہ مزاج حنوط شدہ لاشوں کی طرح محفوظ بنادیا گیا او رتاریخ ارتقاء سے ہونے والی مادی اور انسانی تبدیلیوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی شعوری کوشش سرے سے کی ہی نہ گئی، اس لئے ہم بحیثیتِ مجموعی تاریخ کے اس بوجھ کو اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بدلتے حالات کے ساتھ تعمیری تعلق کی گنجائش بھی معدوم ہو چلی ہے۔

جن عناصر کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کو دوام او رتحفظ دینے کے لئے ان کو مقدس قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام اقدار اور ان کے نمائندہ لوگ ایک ایسے دائرے میں یا ایسے مقام پر رہتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص پر نہیں مارسکتا۔ ’’مقدس افراد اور اقدار‘‘ کے تحفظ کے لئے لازم ہے کہ ان پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ ان کے رتبے برقرار رکھنے کے لئے تقدیس کے آداب طے کردیے جاتے ہیں۔

ان آداب سے ذراسی کو تاہی شرم یاخلش کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طرح تقدیس کو برقرار رکھنے کے لئے شرمساری او رخلش کا وسیع تر نظام موجود ہے۔ واضح رہے کہ تقدیس کے اس نظام کی بدولت حنوط شدہ اقدار کو دوام تو مل جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کے لئے؟ تاریخ کے اس بوجھ کے باعث انسانوں کی زندگیوں میں تلخیاں بڑھتی ہیں، وہ ناروادقتیں سہتے ہیں اور ایک غیر حقیقت پسندانہ ایجنڈے کو سنبھالنے کے لئے ساری زندگی اپنے آپ کو قربان کردیتے ہیں۔۔۔ صرف یہ تمغہ لینے کے لئے کہ انہوں نے حنوط شدہ اقدار کوسنبھالا دیا۔

یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے چند سوسال پہلے والدین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے بیچ دیتے تھے، انہیں ایسی ہی حنوط شدہ اقدار کے دباؤ کے تحت دیوتاؤں کے پاؤں میں ذبح کردیتے تھے۔ ایسا ہر گزنہ تھا کہ وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بچوں سے پیار کے مقابلے میں حنوط شدہ اقدار کی گرفت زیادہ مضبوط تھی۔ ایک اجتماعی پاگل پن تھا۔ جو افراد سے ایسے غیر انسانی کام سرزد کرواتا تھا۔

ایسی صورتحال مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی شعور میں بھی موجود ہے۔ کہیں رک کر، ناقدانہ طور پر سوچنا چاہئے کہ اس شعور کے تحت جس زہر آلود تعلیم وتربیت کی ترسیل کی جارہی ہے، اس سے ہم جسمانی طو رپر نہ سہی شعوری طو رپر اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ذبح کررہے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ باسمجھ تعلق داری کی بجائے خواہ مخواہ نفرتوں کو بڑھا رہے ہیں۔ دوسروں پر شاید اس نفرت کا کوئی اثر نہ ہو مگر ہمارے بچے جو نفرت سیکھیں گے، اس کا اظہار وہ اپنے لوگوں پر ہی کریں گے۔

ہیروازم یا اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پیروی کسی بھی عام انسان کے لئے ممکن نہیں۔ مثال کے طو رپر محمود غزنوی نے جو کچھ کیا، وہ اب ممکن نہیں۔ وہ ہمارا ہیرو نہیں ہوسکتا۔ وہ وسط ایشیا میں اپنی توسیع پسندی کے لئے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لئے ہندوستان آتا رہتا تھا اور یہاں سے زروجواہر لوٹ کرلے جاتا تھا۔ ایسا اب ممکن نہیں۔ اگر یہ بات سچ مان لی جائے تو سوال یہ ہے کہ وہ ہمارا آئیڈیل یا ہیرو کیسے ہوسکتا ہے۔

ایسے ہیروز کا ذکر اور ان پر لکھنا وقت اور وسائل ضائع کرنا ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ یقیناًاچھے شاعر تھے۔ بچوں کو ان کی شاعری پڑھنے کی ترغیب دی جائے تو بات بنتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات آج کی زندگی سے میل نہیں کھاتے۔ بچے شاید پڑھنا ہی پسند نہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال ایک عام بچے کے لئے کیونکر ہیرو یا آئیڈیل ہوسکتے ہیں۔

ہم، عام انسانوں کے ناتواں کندھے ان بھاری بھرکم اعلیٰ اقدار او رہیروز کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ہماری زندگی کی مجبوریوں اور دقتوں سے نجات کے لئے، ان سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ ان سب کے مقابلے میں ایک بیوہ جو بڑی جرأت سے محنت مزدوری کرکے بچے پالتی ہے تو وہ محمود غزنوی سے بڑی ہیرو ہے۔ اگر وہ بچوں کو پڑھا لکھا دیتی ہے اور اس کی کوئی بیٹی یا بیٹا عزت داری سے زندگی گزارنے کے اہل ہوجاتے ہیں تو وہ عورت سکندر سے بڑی فاتح ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ان پڑھ شخص، تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بچوں کو تعلیم سیکھنے پر لگادیتا ہے تو وہ علامہ اقبال سے بڑا ہیرو ہے۔

ہیرو، مخصوص اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کو اعلیٰ اقدار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اقدار اعلیٰ کے ساتھ ساتھ مقدس بھی ہوتی ہیں۔ جو کوئی بھی ان کو حاصل کرنے کی راہ پر چل نکلتا ہے وہ اپنی سادی سی زندگی کا رس کھودیتا ہے۔ سادہ سی زندگی میں اعلیٰ مقدس اقدار کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ ان کی نہ تو صراحت موجود ہوتی ہے او رنہ ہی ان کی سادہ زندگی سے مطابقت بن پاتی ہے۔ لوگ ایک ہیولے کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ ہیولا ان کی انسانی دسترس سے باہر ہوتا ہے او روہ خلش اور ناکامی پر مبنی شعور ذات میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں۔ اس سے ایک اچھا خاصا انسان ادھورے پن کا شکار بن جاتا ہے۔

سبط حسن ، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون تاریخ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

Comments are closed.