ترقی پسند شاعری کا سرخیل۔۔۔ کیفی اعظمی

زاہد عکاسی

kaifi-azmi
گذشتہ  سال لکھنؤ میں کیفی اعظمیٰ فاؤنڈیشن کے تحت کیفی کی نویں برسی منائی گئی جس میں لکھنؤ اور یوپی کے مشہور شعراء تو تھے ہی، کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس فاؤنڈیشن کی کرتا دھرتا ویسے بھی شبانہ خود ہی ہیں لیکن انہوں نے فاؤنڈیشن کو کامیابی سے چلانے والوں کا بے حد شکریہ ادا کیا۔

کیفی اعظمی جنہوں نے ترقی پسند شاعری اور فلمی گیتوں کی وجہ سے ایک منفرد مقام پایا 19جنوری1919ء کو اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے زمانہ طالبعلمی یعنی گیارہ سال کی عمر میں ہی شاعری شروع کردی تھی۔ انہوں نے جب ایک مشاعرہ میں اپنی پہلی غزل ’’اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے‘‘پیش کی تو صدر مشاعرہ مانی جیسی نے خوب داد دی اس پر بعض شعراء خاص کران کے والد نے کہا کہ یہ غزل انہوں نے ضرور اپنے بڑے بھائی سے لکھوائی ہے لیکن جب بڑے بھائی نے انکار کیا تو پھر ان کے والد اور منشی نے ان کا امتحان لینے کی ٹھانی۔ انہوں نے کیفی کو ایک مصرع دیا او رکہا کہ اس بحر وزن اور قافیہ میں غزل لکھو چنانچہ کیفی نے ان کا چیلنج قبول کرتے ہوئے غزل لکھ دی۔

بعد ازاں یہی غزل بیگم اختر نے گاکر اسے نقش دوام بخش دیا۔ 1942ء کی انڈیا چھوڑ وتحریک کے دوران انہوں نے فارسی اور اردو کی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور فل ٹائم مارکسسٹ کارکن بن گئے۔1943ء میں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کرلی۔اس طرح وہ لکھنؤ سے ترقی پسند مشہور شعراء کی نظروں میں آگئے۔ وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بھی معترف ہوگئے۔ انہوں نے ان کو فطری شاعر پاکر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی جس کی بنا پر انہیں ترقی پسند رائٹرز کی تحریک کا رکن منتخب کر لیا گیا۔24سال کی عمر میں وہ کانپور کے صنعتی علاقے کی ٹریڈیونین میں حصہ لینے لگے اور ایک اچھے کارکن کی حیثیت سے کام کرنے لگے جبکہ ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔

پھر انہوں نے بمبئی جانے کا سوچا اور پارٹی کے کاموں میں پورے جوش وخروش سے حصہ لینے لگے اس دوران انہوں نے ہندوستان بھر کے مشاعروں میں حصہ لیا۔ بمبئی میں وہ علی سردار جعفری کے ساتھ پارٹی کے اخبار ’’قومی جنگ‘‘ میں باقاعدگی سے لکھنے لگے۔

1947ء میں وہ ایک مشاعرہ میں اپنا کلام پڑھنے کیلئے حیدر آباد دکن گئے جہاں ان کی ملاقات ایک خاتون شوکت سے ہوئی۔ وہ ان سے محبت کرنے لگے بعدازاں اس کے ساتھ کیفی نے شادی کرلی۔ اور وہ شادی کے بعد تھیٹر اور فلم کی مشہور اداکارہ کے طور پر سامنے آئی۔ ریکھا کی امراؤ جان ادا میں شوکت اعظمی ہی نائیکہ کے طور پر تھی۔جبکہ ایشیوریہ رائے والی فلم میں یہی کردار بیٹی شبانہ اعظمی نے کیا تھا۔ شادی کے بعد شوکت کے ہاں 1950ء کو شبانہ اعظمی پیدا ہوئی اور پھر ایک لڑکا بابا اعظمی جو کہ اب ایک مشہور کیمرہ مین ہے۔

دیگر اردو شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی رومانی پہلوؤں کے علاوہ انسان کو شعور بخشنے والی ہے۔ ان کی شاعری میں جاگرتی بھی ہے اور معاشرہ کی دکھتی رگوں پر نشتر زنی کرنے والی بھی ہے۔ انہوں نے پسے ہوئے عوام کے استحصال کے خلاف بھی شاعری کی ہے اور معاشرے کے محروم افراد کی وکالت بھی کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی جو خدمت کی ہے اس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان کی لاتعداد شاعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں آخر شب،سرمایہ، آوارہ سجدہ، کیفیات، نئے گلستان قابل ذکر ہیں وہ خواجہ احمد عباس کے اخبار ’’بلٹز‘‘ کے اردو ایڈیشن کیلئے مضامین بھی لکھتے رہے اس کے علاوہ ’’میری آواز سنو‘‘ میں بھی تحریر کرتے رہے۔ انہوں نے فلم ہیر رانجھا کا سکرپٹ او ر گیت دیونگری رسم الخط میں لکھے ان کی جو نظمیں مشہور ہوئیں ان میں عورت، مکان، دائرہ، سانپ اور بہروپنی قابل ذکر ہیں۔
کیفی اعظمی نے فلمی گیت، مکالمے اور کہانیاں لکھنے کے علاوہ بطور اداکار بھی کام کیا انہوں نے1952ء میں عصمت چغتائی کی کہانی پر تیار کی گئی فلم ’’بزدل‘‘ کے گیت لکھے۔ اس فلم کے ہدایت کار عصمت کے شوہر شاہد لطیف تھے۔1956ء میں فلم یہودی کی بیٹی1957ء میں پروبن1958ء میں پنجاب میل اور عید کا چاند جیسی فلمیں لکھیں۔

جب خواجہ احمد عباس اور ہدایت کار بمل رائے نے نئے سنیماکی بنیاد ڈالی توساحر لدھیانوی، جانثار اختر، مجروح سلطان پوری اور کیفی اعظمی کو لیا گیا۔ انہوں نے فلموں میں گیتوں کار حجان تبدیل کردیا اور رومانس کے علاوہ عوامی شاعری اور لوگوں کے دکھوں کو اجاگر کرنے والے گیت لکھے۔ یہ نئی لہر فلم انڈسٹری میں برسوں تک قائم رہی۔

1970ء میں انہوں نے ہدایت کار چیتن آنند کیلئے فلم ہیر رانجھا کا سکرپٹ لکھا۔ جس میں تمام مکالمے شاعری میں تھے۔ یہ فلمی دنیا میں ایک کارنامہ سے کم نہ تھا۔1973ء میں انہوں نے عصمت چغتائی کی کہانی پر فلم’’گرم ہوا‘‘ لکھی جس میں ہیرو کا کردار پاکستانی اداکار جمیل نے کیا تھا جس کی دو بیٹیاں فرح اور تبو اس وقت بھارتی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارائیں ہیں۔1976ء میں شیام بنیگل کی فلم ’’منتھن‘‘ لکھی جس میں گوالوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔

جہاں تک خاص گیت نگاری کا تعلق ہے۔ انہوں نے گرودت کی فلم’’ کاغذ کے پھول‘‘ میں گیت لکھ کر اسے دوام بخشا۔ فلم کی کہانی ایک بوڑھے ہدایت کار کے گرد گھومتی ہے جسے اب کوئی پوچھتا نہیں فلم کا آغاز کیفی اعظمی کے اس گیت سے ہوتا ہے۔
دیکھی زمانے کی یاری
بچھڑے سبھی باری باری
کیا لے کے ملے اب دنیا سے
آنسو کے سوا کچھ پاس نہیں
یا پھول ہی پھول تھے راہوں میں
یاکانٹوں کی بھی آس نہیں
نفرت کی دنیا ہے ساری
بچھڑے سبھی باری باری
رات بھر مہمان
ہیں بہاریں یہاں
رات گھر ڈھل گئی
پھر یہ خوشیاں کہاں
دور یہ چلتا رہے
رنگ اچھلتا رہے
روپ بدلتا رہے
جام چلتا رہے
مطلب کی ہے دنیا ساری
بچھڑے سبھی باری باری

فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘ گرودت کی ذاتی زندگی پر تھی اس میں کیفی اعظمی کا یہ گیت تواب تک لوگوں کے کانوں میں گونجتا ہے۔
وقت نے کیا کیا حسین ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم
جائیں گے کہاں، سوجھتا نہیں
چل پڑے مگر راستہ نہیں
ہم بھی کھو گئے تم بھی کھو گئے
ساتھ ساتھ چل کے دو قدم
وقت نے کیا کیا حسین ستم

ہدایت کار چتین آنند کی فلم ’’حقیقت‘‘ 1962ء میں کئے گئے چبن کے حملے کے سلسلہ میں تھی اس کا یہ گیت بڑا مشہور ہوا۔ یہ فلم1964ء ریلیز ہوئی تھی۔
کرچلے ہم فدا جان وتن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

پھر انہوں نے کہرا، انوپما، اُس کی کہانی، پاکیزہ،ہنستے زخم، ارتھ، رضیہ سلطان، سات ہندوستانی، شعلہ اور شبنم، باورچی اورنسیم جیسی فلموں کے گیت لکھے۔ نسیم کی کہانی بھی انہوں نے خود ہی لکھی تھی۔یہ فلم بابری مسجد کو منہدم کرنے والے واقعہ 2دسمبر1992ء پر لکھی گئی تو جسے ہندو توا کے انتہا پسند ہندوؤں نے گرادیا تھا۔ نسیم ایک بچی ہے جس کا دادا اس واقعہ کا صدمہ جھیل نہیں پاتا اور مرجاتا ہے۔ دادا کا کردار کیفی اعظمی نے خود ہی کیا تھا۔

کیفی اعظمی 10مئی 2002ء کو اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بنادیا تھا اور اس علاقہ میں لاتعداد سوشل ورک بھی کیا تھا۔ مرحوم کی نویں برسی کے موقع پر شبانہ اعظمی نے خاص طور پر ان کی نظم عورت سنائی۔

جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں،
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اُٹھ میری جان میرے ساتھ چلنا ہے مجھے!

کیفی اعظمی پر کئی ایک دستاویزی فلمیں بھی تیار ہوئیں اس کے علاوہ انہیں لاتعداد ایوارڈ بھی ملے جبکہ ان کی اہلیہ نے ایک کتاب ’’میں اور کیفی اعظمی‘‘ بھی لکھی، انہیں پدم شری کا خطاب بھی ملا اس کے علاوہ نیشنل فلم ایوارڈ سے بھی انہیں نوازا گیا۔

One Comment