سماجی علوم کی موت

زبیدہ مصطفی
BSW-Background

علم و فضل کی دنیا میں سماجی علوم اور’’دیگر’’ یعنی خالص طبیعاتی علوم، ٹیکنولوجی، علم طب اوربزنس اینڈ مینجمنٹ اسٹڈیز کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ انسانیت کی عقلی تاریخ کا ایک مستقل اور نمایاں موضوع رہا ہے۔ہمار ے واحد نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبد السلام کو ہمیشہ اس بات پرافسوس رہا ہے کہ پاکستان میں سائنسی کلچر کی کمی ہے۔

اس کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ ہماری یونیورسیٹیوں میں سائنس کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ریسرچ کے لیے ناکافی رقومات مختص کی جاتی ہیں بلکہ یہ بھی تھا کہ ہم اپنے بچوں میں تجسّس کا مادہ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور بحیثیت قوم ہم نہ تو عقلی بنیادوں پراور نہ ہی سائنسی طور پر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر فطری اور سماجی مظاہر کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ہم نے اپنے ملک میں ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی میں اور انکی موت کے بعد ان سے جو سلوک کیا وہ سائنسی علوم کی جانب انکے تفکّر کو حق بجانب ثابت کرتا ہے۔تاہم سماجی علوم کا معاملہ بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔کونسل آف سوشل سائنسز (سی او ایس ایس) کے بانی صدر ڈاکٹر عنایت اللہ، ملک میں سماجی علوم کی حالت کے بارے میں مایوس نظر آتے ہیں۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے انہوں نے انتہائی صحت کے ساتھ تحقیق اور تصدیق کی ضرورت پر زور دیا اور اس مقصد کے لئے سی او ایس کی بنیاد رکھی جو سماجی علوم کے ماہرین کے لئے ایک فورم فراہم کرے گا۔

یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ سماجی علوم کی جانب ہمارا رویہ اس قدر بیگانہ کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے دیگر شعبوں کی طرح علم کو بھی وہ طبقہ جو اقتدار پر قابض اور مراعات کو اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے، لازمی طورپر اپنا دشمن سمجھتا ہے۔اس طبقہ کا تعلیم دشمن رویہ، بچوں میں فکری عمل کو روکتا ہے اور ایسے سادہ لوح افراد پیدا کرتا ہے جو خام لیاقت کی بنیاد پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔ سماجی علوم میں چونکہ ریاست، معاشرہ، ثقافت اوران کے ساتھ عوام کے تعلّقات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اس لئے وہ عوام کی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔

سماجی علوم کی کمی خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ یہ علوم اس لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے سوچ میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور طرز فکر اور اداروں میں بہتری آتی ہے جن کا تعلق انسانی ذہن کی نشوونما سے ہے۔

اگر سماجی علوم کا بھر پور مطالعہ کیا جائے اور اس پر کھلے ذہن سے بحث مباحثہ کیا جائے تو اس سے عوام کے شعور اور آگہی کی حوصلہ افزائی ہو گی، انداز فکر اور ایقانات کو جلا ملے گی جس کے نتیجے میں اقتدار پر ریاست کی اجارہ داری پر ختم کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ سماجی علوم مساوات، آزادی، رواداری اور سماجی انصاف کو فروغ دینے کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں جسے آمرانہ نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومتیں اپنے لئے زہر قاتل سمجھتی ہیں۔

چونکہ پاکستان خود ساختہ تباہی کی جانب جھکتا جا رہا ہے اس لئے یہ بات باعث حیرت نہیں کہ سماجی علوم کا مطالعہ فیشن سے خارج سمجھا جارہا ہے۔کراچی یونیورسٹی کی مثال لیجئے، جو ملک میں اعلی تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس یونیورسٹی میں اکتیس ہزار سے زیادہ طلباء داخلہ لیتے ہیں جن میں سے صرف نو ہزار طلباء سماجی علوم کے شعبوں میں جاتے ہیں جس میں شعبہ تعلیم بھی شامل ہے۔نہ صرف یہ کہ ان کے تناسب میں کمی آ چکی ہے بلکہ معیار بھی متاثر ہوا ہے سوائے ان چند لوگوں کے، جو آج بھی اعلی معیار کی تحقیقات کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں سماجی علوم کو درپیش کٹھن ترین مسائل کی ایک مثال آغا خان فاونڈیشن کی ناکامی ہے جو کراچی میں سماجی علوم کی ایک یونیورسٹی قائم کرنا چاہتا تھی ۔پانچ سال سے زیادہ عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا کہ اسے مشرقی افریقہ میں قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

اس میں سازش کی بو آتی ہے کیونکہ منصوبے کے نائب سربراہ کے عہدے پر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز کے ایک برطانوی دانشورکا تقرر کیا گیا جو 2008 150 2003 کے دوران وطن واپس ہونے سے پہلے کچھ ابتدائی نوعیت کا کام کر گئے تھے۔ رکاوٹیں بے شمار ہیں۔صرف یہی نہیں کہ جمہوریت دشمن قوتیں سماجی علوم کے مطالعہ کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہیں۔

ماہر سماجی علوم روبینہ سہگل کا بجا طور پر کہنا ہے کہ ’’نیو لبرل سوچ کے نتیجے میں اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب، ریاست کی لا تعلقی نے اہم سماجی علوم کی جانب سے توجہ ہٹا کر مینجمنٹ سائنسز اور بزنس ایڈمنسٹریشن سائنسز کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے افراد کو ملازمت کے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں‘‘۔

تاہم مذکورہ بالا علوم ضروری نہیں کہ ایک اچھیانسان کوبھی جنم دیں، جب ‘‘فائدہ’’ انسانی سرگرمیوں کی ترغیب کا سبب بن جائے تو اخلاقیات اس کا نشانہ بنتی ہے اور علم و فضل کی دنیا میں سماجی علوم کی موت واقع ہوجاتی ہے۔پاکستان میں اور بھی دیگر عناصر، اس کی موت کا سبب ہیں۔ ایک سب سے اہم عنصر تو ہمارے حکمرانوں اور ہمارے اخلاقیات کے ٹھیکہ داروں کی ‘‘نظریاتی’’ ضرورت ہے جو انتہائی گہرے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ چونکہ یہ لوگ تعلیم پر قابض ہیں، یہ ہمارے طلباء کے ذہن کو نصاب تعلیم اور درسی کتابوں کے ذریعہ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔

سی او ایس کی نائب صدر زرینہ سلامت کا کہنا ہے کہ ہمیں خود اپنے ملک میں فزیکل سائنسز کے مقابلے میں سماجی علوم پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تا کہ طلباء کے لئے درسی کتابیں تیار کی جا سکیں۔انہوں نے اس خیال کا اظہار ایک فورم میں کیا جہاں یہ کہا گیا تھا کہ معیار کو برقرا رکھنے کیلئے ہمیں غیر ملکی کتابیں درآمد کرنی چاہئیں۔

انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا ’’ہمارے قومی تعلیم کے نصاب کو، قومی سلامتی کا یرغمال بنا دیا گیا ہے جس کی بنیاد آئیڈیالوجی پر ہے ۔ریاست شناختوں سے ماورا ہو کر، تعلیم کو قومی اتحاد کو فروغ دینے کیلئے استعمال کر رہی ہے جس کیلئے مذہب اور زبان کواتحاد پیدا کرنے والی علامتوں کے طوراستعمال کیا جا رہا ہے۔ سماجی علوم، لسانیت اور تاریخ کی درسی کتابوں کو اسی موضوع کا تابع کر دیا گیا ہے‘‘۔یہ طریقہ درست نہیں۔

ڈاکٹر سلامت نے کہا کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے کو تشدد اورانتہا پسندی سے پاک صاف کیا جائے تو پھر سماج میں تبدیلی لانے کیلئے تعلیم کو اس کے نظریاتی سہاروں سے علیحدہ کرنا ہو گا۔’’درسی کتابوں کوقومی شناخت کا آلہ کار نہ بنایا جائے۔ سوشل انجینئرنگ کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جو برداشت، مذہبوں کے درمیان ہم آہنگی اور جمہوری اقدار پر مبنی ہو‘‘۔چونکہ سماجی علوم میں ہر قسم کی تحقیق کی بنیاد لازماً طور پراس اصول پر مبنی ہے کہ مختلف ثقافتی اقلیتوں کواپنی انفرادیت برقرار رکھنے کا حق ملنا چاہئے۔

یونیورسیٹیوں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ اس سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔اس معاملے میں فزیکل سائنسز کو سوشل سائنسز پر برتری حاصل ہے۔ ہائڈروجن اور آکسیجن خواہ کہیں بھی ملیں، پانی ہی پیدا ہوتا ہے لیکن ہماری اسمبلی، برطانیہ کی پارلیمنٹ نہیں ہے۔ ڈیلی ڈان

Comments are closed.