فلسفہ، سائنس اور مسلمان

ارشد لطیف خان

ta5waie9zfpxgonoirns
مامون کے قائم کردہ دارالترجمہ میں اپنے عہد کی بڑی مشہور عالم شخصیات موجود تھیں جنھیں بھاری معاوضہ دے کر ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یعقوب کندی جسے مسلمانوں میں ارسطا طالیسی فلسفے کا بانی بھی کہا جاتا ہے نیز جیسے فیلسوف عرب کا خطاب بھی دیا گیا تھا دربان مامون سے ہی وابستہ تھا۔ اس کی چھوٹی بڑی تصنیفات وتالیفات کی تعداد ملا کر پچاس سے اوپر ہو گی۔

مامون کے زمانہ میں ارسطو‘بقراط ‘جالینوس‘ افلاطون‘ ارشمیدس‘اقلیدس‘ بطلیموس‘ فیثا غورث‘ ارسطیکاس‘ کی کتب کے علاوہ بے شمار کتب کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا۔ یعقوب کندی کے علاوہ حنین ابن اسحاق‘ علی بن عیسیٰ‘ اصرلانی‘ عمر بن فرحان‘ احمد کثیر فرغانی‘ موسیٰ خوارزمی‘ ثابت بن قرہ‘ ابن خروازبر‘ زکریا رازی‘ فارابی جیسے عظیم نابغہ روز گار بھی مامون کے عہد سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اس عہد کے سائنسی کارناموں میں زمین کی پیمائش‘ رصد گاہ کا قیام اور دور بین کی ایجاد وغیرہ شامل ہیں۔

مامون کے زریں عہد کے بعد عباسی خلفاء معتصم باللہ نے بھی علوم و فنون کی ترقی میں حصہ لیا مگر پھر متوکل علی اللہ نے عقلی علوم کا رواج بذریعہ شاہی فرمان ختم کیا اور ’’محی السنت‘‘ کا خطاب پایا۔ یوں مختصر عرصے کے لیے پپننے والی عقلی فضاء ایسی ختم ہوئی کہ پھر انیسویں صدی میں پاک وہند میں سرسید احمد خان نے ہی اس کو دوبارہ زندہ کیا۔

بغداد میں متوکل علی اللہ نے معتزلہ تحریک کو جو اس وقت تک کچھ اور روپ دھار چکی تھی کچلنے کی پوری کوشش کی۔ علمائے اعتزال کو قتل کیا گیا اور ان کی گراں قدر تصنیفات کو چن چن کر راکھ کردیاگیا۔ علامہ علی عباس جلالپوری نے اپنے مضمون’’دنیائے اسلام میں خرد افروزی کی ضرورت‘‘میں فلسطینی ریناں کے حوالے سے لکھا ہے:۔

خلیفہ کے حکم سے ابن سینا اور اخوان الصفا کی تمام تصنیفات کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔طیب عبدالسلام پر کفر و الحاد کا الزام عائد کیا گیا اور اس کے کتب خانے کو آگ لگا دی گئی۔ فخرالدین ابن رازی کے مرنے کے بعد اس کے گھر سے ایسی دستاویزات دستیاب ہوئیں جن میں دنیا کے قدیم ہونے اور روح انسانی کے حادثات ہونے کے بارے میں اشعار درج تھے تو اس کی قبر کھود کر اس کی خاک اڑا دی گئی۔ ابن حبیب اشبیلوی کو فلسفہ پڑھنے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ محمد احمد پچاس برس تک اپنے گھر سے نہ نکل سکے۔

علامہ زمخشری اپنے وطن میں چین سے نہ رہنے پائے اور ترک وطن پر مجبور ہوئے۔ علامہ مقری لکھتے ہیں کہ حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب یہ پتہ چلتا تھا کہ فلاں شخص فلسفہ پڑھتا ہے تو عوام اس کو زندیق کہنے لگتے تھے اس کو پتھر مارتے تھے یا آگ میں جلا دیتے تھے‘‘

ہسپانیہ میں الحکم ثانی المعتز باللہ (976-961 ) نے علم وعقل کا علم تھاما ہوا تھا۔ الحکم کو کتابوں سے عشق اور جنگ سے نفرت تھی اس نے بغداد‘ مصر اور دور دراز کے علاقوں سے جدید اور قدیم علوم کی کتابیں منگوائیں۔ مشہور مورخ ڈوزی لکھتا ہے کہ اگرچہ خلیفہ الحکم کے بزرگ بھی عالم وعلم دوست تھے مگر الحکم کے برابر عالم وفاضل بادشاہ ہسپانیہ میں نہیں گزرا۔ الحکم کے گماشتے ہر جگہ موجود رہتے تھے اور جہاں کہیں عمدہ کتاب دیکھتے تھے خرید لیتے تھے یا نقل کر کے الحکم کو روانہ کردیتے تھے۔ انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ کتاب پرانی ہو یا نئی جس قیمت پر ملے خرید لیں۔

الحکم کے کتب خانے کی صرف کتب کی فہرست 66جلدوں پر مشتمل تھی۔ اور یہ عظم الشان کتب خانہ تقریبا چار لاکھ اور بعض کے نزدیک چھ لاکھ کتب پر مشتمل تھا۔ الحکم نے بہت سی کتابیں پڑھیں اور ان پر حواشی تحریر کئے۔ اس کا بیشتر فارغ وقت کتاب بینی میں گزرتا تھا۔ اس نے ملک بھر کے عالم وفاضل حضرات کو اپنے دربار میں جمع کیا ہوا تھا جن میں ابو علی قالی‘ ابوبکر الرزاق‘ اسمعیل بن عبدالرحمن بن علی‘ ابو عبداللہ محمد بن عبدون‘ عیسیٰ بن محمد‘ یعیش بن سعید ابو اولید اور ابن ہشام القوی وغیرہ شامل ہیں۔

الحکم کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ہشام کے اتالیق ابن ابی عامر جس نے الحکم کی وفات کے بعد حاجب کا رتبہ سنبھال لیا تھا اور المنصور کا لقب اختیار کر لیا تھا۔ اس نے کچھ سیاسی فوائد کے حصول کے لئے الحکم کے قیمتی کتب خانے میں سے چن چن کر خاص فلسفے اور دیگر سائنسی علوم وفنون کی کتابیں نکلوا کر اپنے سامنے آگ لگوا دی۔ یوں چند سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس نے علوم فنون کی حامل قیمتی کتب کو آتش برد کر دیا۔

جیسا کہ اب تک ظاہر ہوا ہے کہ ہر زمانے میں خرد منداں پر مظالم ڈھائے گئے ہیں۔اور ان کو تباہ وبرباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا آخر کیوں ہوا؟ اپنے زمانے کے نابغہ روزگاروں کا زمانہ دشمن کیوں بن گیا یقیناًان کے افکار وخیالات کی بناء پر ان کو تمام مظالم کا سامنا کرنا پڑا ۔آئیے عالم اسلام کے چند عبقریوں کے افکار سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔


ابنِ رشد کے نظریات

بارہویں صدی عیسوی کی ایک عجوبہ روزگار شخصیت ابوالولید محمد بن احمد بن محمد ابن رشد تھی۔ یہ عالم اسلام کا وہ فلسفی تھا جس نے موجودات عالم کو خالص فلسفیانہ نظر سے دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ علم الکلام کی تمام کتب میں اس کا ذکر حقارتاً کیا جاتا ہے۔

ابن رشد خالص عقلیت پسند تھا ۔اس کا نقطہ نظریہ تھا کہ صرف چند الہامی عقائد کو چھوڑ کر ہر ایک شے کو عقل اور دلیل سے پرکھنا چاہیے۔ ابن رشد نے روشن خیالی اور عقل پرستی کی جو روایت ڈالی تھی اگر وہ مسلمانوں میں رواج پاجاتی تو عین ممکن تھا کہ تاریخ کے اوراق آج کچھ اور ہی داستان سنا رہے ہوتے۔ فلسفہ ابن رشد نے یورپ پہنچ کر اس سائنسی ارسطا طالیت کی بنیاد ڈالی جس پر جدید تجرباتی سائنس کی عظم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔

مگر یہ کس طور ممکن تھا کہ کوئی شخص عقل وخرو کی تعلیم دے اور اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور ابن رشد کی ’’رشدیت‘‘ کو زائل کرنے کے لیے امام غزالی نے کمر ہمت کس لی۔ اور ایک کتاب ’’تہافتہ الفلاسفتہ‘‘ کے نام سے لکھی جس کا جواب ابن رشد نے ’’تہافتہ التہافتہ‘‘ نامی کتاب لکھ کردیا۔

غزالی نے پہلے فلسفے کی جانب توجہ دی تھی۔ وہاں سے مایوس ہو کر انہوں نے میدان تصوف میں قدم رکھا اور عقل کے خلاف جدوجہد شروع کردی۔ وہ خرد دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ قانون علت ومعلول کو ماننے ہی سے انکار کردیا۔ عین یہی کام کئی سوسال بعد ایک انگریز لاادری فلسفی ڈیوڈھیوم نے اپنی تصنیف میں انجام دیا اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ صداقت یہ ہے کہ صداقت موجود نہیں ہے۔ محل و معلوم کی جستجو کرنا ایک منفی فعل ہے جو محض انسانی علم اور تجربے کی حدود ظاہر کرتا ہے اور ان کی کنہ تک نہیں پہنچ پاتا۔

امام غزالی کا بھی یہی خیال تھا کہ عقل کے ذریعے صداقت کا ادراک ممکن نہیں ہے۔صرف سری وجدان اور اوپر سے وحی کا نزول ہی روح انسانی کو خدا سے یکجا کرکے انسان کو حقیقی علم فراہم کرسکتا ہے۔ تہافتہ الفلاسفتہ میں غزالی نے آگ کی جلانے والی خاصیت کا بھی ارتداد کردیا۔ فرمایا کہ آگ جسد مردہ ہے اور اس میں عمل کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جلانی والی قوت عاملہ ذات خداوندی ہے جو براہ است خود یا فرشتوں کے ذریعے اس کو خاکستر کرنا ہے۔

ابن رشد نے اس سری اور جدانی نظرئیے کے خلاف اپنا نظریہ ’’حقیقت دوگونہ‘‘پیش کیا جس کے مطابق حقیقت کے دو رخ ہیں ایک مذہبی دوسرا فلسفیانہ یا عقلی۔ لہذا مذہبی عقائد میں فلسفے کو دخل نہ دینا چاہیے اور عقل و فلسفے کے مسلمات کو عقائد کی روشنی میں جانچنا چاہیے۔ ابن ارشد کے اس نظرئیے سے مغرب میں علم الکلام کی کمر ٹوٹ گئی اور عقلی تحاریک کی پرورش و پرداخت کے لئے راہ ہموار ہو گئی۔

ابن رشد نے جس فلسفے کو پیش کیا تھا وہ مسلمانوں میں تو اپنی جگہ نہ بنا سکا مگر چودھویں صدی کے آغاز تک ابن رشد کا فلسفہ عالم یہود میں پھیل گیا اور بعض یہودی اسے یہودی النسل ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ ابن رشد کے فلسفے کی اولین شرحیں اس کے دو یہودی شاگردوں لوی ابن جرشون اور موسیٰ ناربانی نے لکھیں۔ ان شاگردوں نے اپنے قابل استاد کی تعلیمات کو یورپ میں فروغ دیا۔

لاطینی اقوام میں ابن رشد کو متعارف کرانے والا پہلا شخص میکائیل اسکاٹ تھا اور دوسرا شخص ہرمین لالیماں تھا۔ ابن رشد کے خیالات مثلا عقل انسانی واحد ہے۔ عالم قدیم ہے۔ روح انسانی جسم کے ساتھ ساتھ فساد پذیر ہوجاتی ہے۔ افعال انسانی منشاء ایزدی کے تابع نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ‘ کا یورپ میں پھیلنا تھا کہ اس میں ایک آگ سی لگ گئی۔1209میں ایک بڑا مذہبی اجلاس پیرس میں ہوا جس میں ابن رشد اور اس کے پیروؤں کو ملعون وزندیق قرار دیا گیا۔

فلسفہ ابن رشد کی مخالفت میں سب سے مشہور سینٹ تھا مس ایکو یناس تھا جس کی تعلیم ڈومینک برادری میں شامل ہونے سے پہلے جامعہ نیپلز میں ہوئی تھی جس کو فریڈرک دوم نے 1224ء میں قائم کیا تھا اور جو عربی فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے انتہائی اہم مرکز تھا۔ تھامس ایکو یناس نے آزادی کے ساتھ عربی فلسفے کا مطالعہ کیا اور اسی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ترجمے کے دوران ہونے والے نقائص سے بھی پوری طرح آگاہ تھا۔ ایکویناس خود تسلیم کرتاتھا کہ ارسطو کا سب سے بہترین شارح ابن رشد ہے لیکن مابعد الطبعیات اور نفسیات میں وہ اسے بدعتی خیال کرتا تھا۔ سینٹ کیتھرائن کے کلیسا میں آج بھی ایک تصویر موجود ہے جس میں ابن رشد کو تھامس ایکویناس کے قدموں میں پڑا دکھایا گیا ہے۔

فلسفہ ابن رشد نے یورپ پہنچ کر کلیسا کی قائم کردہ توہماتی دیوار کو ڈھانا شروع کر دیا اور پاپائی اقتدار کے سنگھاسن کی بنیادیں لرزنا شروع ہو گئیں ۔ یہی وجہ تھی کہ کلیسا ابن رشد کی تعلیمات کا سخت مخالف ہو گیا۔ پیڈوا میں پیری دابانو نامی ایک شخص نے فلسفہ ابن رشد کی تعلیمات پھیلانا شروع کیں تو اس پر کفر والحاد کا مقدمہ دائر کردیا گیا مگر اس شخص کی خوش قسمتی یہ تھی کہ دوران مقدمہ ہی اس کا انتقال ہوگیا مگر کلیسا نے اس کی ہڈیاں جلا کر اپنا بدلہ پورا کرلیا۔

ابن رشد کو بھی اپنے فلسفیانہ افکار کی وجہ سے ذلت وخواری کا سامناکرنا پڑا۔ اس کو جلا وطن کر دیا گیا حد تو یہ ہے کہ ایک دفعہ اس کو جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ اس کے کائنات‘ تخلیق‘ خدا‘ اشیاء شیون‘ مظاہر‘ وجود‘ مادہ اور روح کے بارے میں خیالات نے لوگوں میں آگ سی لگا دی تھی۔ فلسفہ ابن رشد نے تاریخ میں آزاد خیالی کے رواج کے لئے جو کام سرانجام دیا ہے وہ اہمیت سے خالی نہیں ہے۔

2 Comments