پیرس حملے کرنے والے مسلمان نہیں۔۔

635835171816296992-EPA-PARIS-ATTACKS-MASTERMIND

پیرس حملوں پر نام نہاد ماڈریٹ مسلمانوں نے ایک دفعہ پھر یہ کہنا شروع کردیا کہ حملہ آور مسلمان نہیں بلکہ اسلام تو امن کا مذہب ہے ایک انسان کے قتل کو ۔پوری انسانیت کے قتل کے برابر ٹھہراتا ہے۔کچھ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ نے افغانستان ، عراق اور شام میں جو قتل و غارت کی ہے یہ اس کا جواب ہے۔ چند ایک نے بائیں بازو کی دوغلے پن کاذکر بھی ہے جو مسلمان دہشت گردوں پر تنقید کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں ۔ نام نہاد اینٹی وار والے امریکی حملے پر جلوس نکال لیتے ہیں مگر سعودی عرب کی طرف سے یمن حملوں پر خاموش بیٹھے ہیں۔

خالد تھتھال، ناروے سے لکھتے ہیں کچھ اس واقعے کے ڈانڈے تاریخ سے کھوج رہے ہیں، کہ فرانس نے فلاں وقت میں یہ کیا وہ کیا یہ اس کا رد عمل ہے۔ فرانس کے ساتھ زیادتی ہوئی یا انہیں اپنے کیے کا پھل ملا ہے، اس سے ہٹ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر بہت مشکل وقت آ رہا ہے۔ پہلے سے ہی مختلف ممالک میں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

پیگیدا نام مسلمان مخالف تنظیم کی شاخیں جرمنی سے دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہیں۔ ملازمت اور رہائش کے سلسلہ میں مسلمانوں کا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں مزید شدت آئے گی۔ ہم وہی بنتے جا رہے ہیں جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودی تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک میں لبرلزاور سابقہ بائیں بازو سے تعلق رکھننے والوں کا خاصا حصہ مسلمانوں کی حمایت پر ہر وقت کمربستہ رہتا ہے، کیونکہ انہیں مسلمانوں کی شکل میں ایک نیا پرولتاریہ مل گیا ہے جس کے ہرجائز و ناجائز مطالبے کی حمایت کرنا ان کے نظریاتی ایمان کا اہم جزو ہے۔

لیکن یہ طبقہ روز مرہ کی زندگی میں پیدا ہونے والے ناخوشگوار واقعات، لڑائی جھگڑے، نفرت کے واقعات اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ طبقہ نہ تو کسی کو ملازمت دلا سکتا اور نہ ہی ہر جگہ موجود ہو کر مسلمانوں کا تحفظ کر سکتا ہے۔ یہ طبقہ اصل میں مسلمانوں کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کے اندر اٹھنے والی کسی بھی تنقیدی اور اصلاحی آواز کو دبانے میں پیش پیش ہوتا ہے۔

یہی وہ طبقہ ہے جو میرے ایک عراقی نژاد نارویجن دوست ولید الکبیسی کی بنائی گئی دستاویزی فلم پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا، یہ فلم مصر کی اخوان المسلمین جماعت اور اس کے طریقہ کار، نظریات اور خواہشات کی عکاس تھی۔ وہ فلم ایک پیغمبرانہ فلم ثابت ہوئی کیونکہ اس فلم میں وہی کچھ کہنے کی کوشش کی گئی تھی جو آج ہم یورپ میں دیکھ رہے ہیں، جو حسنی مبارک کے سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیئے جانے کے بعد والے مصر میں نظر آیا تھا۔

ایک جنگ ہمارا انتظار کر رہی ہے، ایک جدوجہد جسے ہم ٹالتے آ رہے ہیں۔ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے یہ اسلام امن کا مذہب ہے، یہ صرف چند دہشت گرد ہیں جو یہ تشدد کی کاروائیوں کرتے ہیں، ان کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں وغیرہجیسے الفاظ سے ٹلنے والی نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ مغربی ممالک کے لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں قرآن یا ہماری مذہبی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔

انگریزی کا بہت مشہور فقرہ ہے Actions speak louder than words۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کافی عرصے سے دنیا میں جو بھی دہشت گردانہ کاروائی ہوئی ہے اس میں مسلمان ملوث پائے گئے ہیں۔ ہر کاروائی اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے شروع ہوتی ہے اور اسی نعرہ مستانہ پر ختم ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی ہر کاروائی کی بنیاد قرآن کی کسی آیت، حدیث یا سیرت رسول اللہ سے متعلق کسی واقعے پر رکھتے ہیں۔

اب ہمیں الفاظ کے بجائے اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہو گا کہ دہشت گرد ہم میں سے نہیں، ہماری مسجدوں میں بیٹھے علما ہمارے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ ان علما کی مذہبی دوکان نفرت کی دوکان ہے۔ یہ مغربی ممالک کے اداروں سے ٹیکس سے ملے پیسے سے تنخواہ پا کر نفرت کی فصلیں بو رہے ہیں جسے ہماری نسلوں کو کاٹنا ہو گا۔

اگر ہم ماضی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، اپنے اندر نفرت کے سوداگروں کے خلاف نہ کھڑے ہوئے اور اسلامو فوبیا کی دہائی دے کر اپنے دفاع کرنے کی امید کرتے رہے تو پھر آپ کا اللہ ہی آپ کا حافظ ہے۔

ارشدمحمود لکھتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کا مذہب ہے۔۔۔۔ اور وہ اسلام ہے۔ دہشت گرد کلمہ گو ہیں۔ کسی کا مذہب وہی ہوتا ہے، جو وہ بتاتا ہے۔ کوئی لیبارٹری ابھی ایجاد نہیں ہوئی، جس میں کسی کا مذہب ٹیسٹ کیا جائے۔ اسلام میں وہ تخم موجود ہے۔ جو کسی کو دہشت گرد بنانے میں مدد ملتی ہے۔ آپ کے سرکاری اسکولوں میں، آپ کے تمام مذہبی مدرسوں میں ، مسجدوں میں ۔۔۔اور تمام مولوی۔۔۔ غیرمسلموں سے نفرت سکھاتے ہیں۔

دوسری تہذیب، دوسرے تمدن، دوسرے لباس سے نفرت سکھاتے ہیں۔ہر مسلمان اس پر یقین رکھتا ہے۔ کہ ہنود، یہود، نصارا اس کے دشمن ہیں۔ اور یہ بات مقدس ترین متن بتاتا ہے۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں کوئی سچ نہیں۔ دنیا کفر اور اسلام میں تقسیم ہے۔ مسلم دہشت گرد اپنی تمام ذہنی اور فکری مواد اسلام کی بنیادی کتابوں اور اسلام کی بتائی روایات سے لیتے ہیں۔ اس لئے سچ یہ ہے، کہ بنیادی اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

مولویوں نے کبھی طالبان یا دیگر دہشت گردوں کے عمل کو برا نہیں کہا۔ بلکہ جماعت اسلامی نے دہشت گردوں کی نماز جنازہ پڑھائے ہیں۔ اور ان کو شہید کہا ہے۔ ماڈریٹ مسلمان کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے خود کو دھوکہ نہ دیں۔ یہ فراڈ چلنے والا نہیں ہے، کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جنونی پاگل پن صرف مذہب ہی پیدا کر سکتا ہے۔

اسلامی مدرسے پاکستان کے ہوں، یا پیرس، لندن، نیویارک کے۔۔۔مدرسے کا استاد اسلام کے نام پربچوں کونفرت سکھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جن کو پاکستان جیسے انتہائی کنزرویٹو معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی نظر آتی ہے، یورپ میں ان کے دماغوں اور آنکھوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔۔۔مزید یہود ونصارا کا کفر اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں۔۔۔ اسلام اور مسلمانوں کی کفار پر برتری کے قصے۔۔۔ یہ وہ زہر ہے۔ جو مسلمان معاشروں سے بہہ کر مغربی شہروں کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بے وقوف اور معصوم مغرب ان کو برابرکا انسان سمجھ کرتمام شہری حقوق اور آزادیاں دے دیتے ہیں۔ جو اسلام اور مسلمانوں نے کبھی کسی غیرمسلم کو نہیں دیئے۔۔۔

مسلمان تو کسی وقت بھی دوسرے مسلمان کو کافر کہہ کر مار سکتا ہے۔ کفار تو پھر کفار ہیں۔ مسلم وحشی طبیعت کا کیا عالم بنتا ہوگا۔ جب وہ مغربی ممالک میں رہتا ہے۔ مغرب اپنے انسانی حقوق، سیکولرازم، فرد کی آزادیوں کے پنجرے میں پھنس گیا ہے۔ مغرب کو اب ایک اور رینے سانس کی ضرورت ہے۔ مغرب کے مفکروں اور فلاسفروں نے جب یہ نظریات دیئے تھے۔۔ ان کے سامنے ان کی اپنی قومیں تھی۔۔ان کو پتا نہیں تھا۔۔کہ ایک دن ان کا واسطہ اسلام اور مسلمان سے پڑجائے گا۔۔۔۔ اور یہ خود ہی اپنے شکنجے میں بے بس ہوجائیں گے۔۔

یہ دلیل غلط ہے، کہ دیکھو، مغرب نے عراق اور شام میں کیا کیا ہے۔۔ خود مسلمان ملک مسلمان ملکوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ خود اپنے ہی ملک کے اندر اپنے عوام سے کیا کرتے ہیں۔۔ان مظالم کو کیوں نہ گنا جائے۔۔ سعودی عرب یمن پر کیا پھولوں کی بمباری کررہا ہے۔۔؟ شام میں ایران اور سعودی عرب پھولوں کے باغات اگا رہے ہیں۔

شام میں ساری خونریزی کا منبع یہ دونوں اسلامی بڑے ملک ہیں۔ لبنان کی تباہی کس نے کی تھی۔۔۔ پاکستان نے افغانستان کی تباہی میں کیا کردار ادا کیا ہوا ہے۔۔۔؟ خود اپنے ہی بازو مشرقی پاکستان کے عوام کا قتل عام کس طرح کیا تھا۔۔۔کہا تھا، بنگالی نہیں زمین چاہئے۔۔۔۔4 میں سے 3 خلفاراشدین کس نے قتل کئے تھے۔۔؟ جنگ صفین اور جنگ جمل کن کے درمیان ہوئی تھی۔ کربلا کا واقعہ کیا تھا۔۔۔ بڑا آسان کام ہے۔۔مغرب کی پیدا کردہ جنگوں کے طعنے دینے اور ان کو مسلمانوں کے مسائل کا ذمہ دار قرار دینا۔۔۔ مسلمان خود کو برباد کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جو خود ٹھیک ہو، اور اپنا گھر ٹھیک ہو، اس کا دوسرا کچھ برباد نہیں کرسکتا۔

Comments are closed.