براہمداغ بگٹی کی ممکنہ واپسی

ملک سراج اکبر

maxresdefault
سوئیٹزر لینڈ میں مقیم بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی اور حکومت بلوچستان کے مابین ہونے والے روابط کے حوالے سے جو نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق براہمداغ بگٹی بلوچستان میں ایک دہائی سے جاری شورش کے خاتمے کے لیے اب مذاکرات کے لئے تیارہیں۔ تاہم ان کی خواہش ہے کہ پاک فوج براہ راست ان سے رابطہ کرکے انھیں یقین دلائے کہ صوبے میں جاری فوجی آپریشن اور ان کے خلاف درج مقدمات ختم کئے جائیں گے۔ براہمداغ بگٹی سال دو ہزار چھ میں اپنے دادا اور بلوچستان کے سابق گورنر و وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد سے فرار رہے ہیں۔

نواب بگٹی کی ہلاکت کے فوری بعد انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بلوچ ری پبلکن پارٹی قائم کی جس کے پلیٹ فارم پرانھوں نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگایا اور مسلسل کہتے رہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی سے کم کسی نقطے پر اسلام آباد کے ساتھ گفت و شنید نہیں کریں گے۔تاہم ان کے لب و لہجے اور سیاسی موقف میں جو غیر معمولی اور غیر متوقع تبدیلی آئی ہے وہ حکومت کے لئے ایک انتہائی حوصلہ افزا امر ہے۔ آج سے چار پانچ سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سخت موقف رکھنے والا براہمداغ بگٹی جنرل عبدالقادر بلوچ( جو کہ جنرل مشرف کے دورِحکومت میں بلوچستان کے کور کمانڈر اور گورنر رہے) سے ملاقات بھی کریں گے۔

لیکن اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں براہمداغ بگٹی، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اورحکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے تعلق رکھنے والے جنرل عبدالقادر بلوچ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں اب امکان ہے کہ براہمدغ بگٹی ملک واپس آنے پرتقریباً راضی ہوجائیں گے۔ اگر براہمداغ بگٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب اور وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر راضی ہوجاتے ہیں تو یہ حکومت کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی اور علیحدگی پسندوں کے لئے شدید دھچکہ ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر بلوچستان کا معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا جتنا تصور کیا جارہاتھا تویہاں تک پہنچنے میں اتنا زیادہ وقت کیوں لگا؟حکومت نے بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے یہی حکمت عملی پہلے کیوں نہیں اپنائی؟ میرے خیال میں برف دراصل بلوچوں کی طرف سے پگھلنا شروع ہوا ہے نا کہ حکومت کی طرف سے۔سول حکومت اور فوج کی بلوچستان کے حوالے سے ایک واضح اور مستقل پالیسی رہی ہے جس میں جنرل مشرف، جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف اور وزرائے اعظم شوکت عزیز،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے آنے جانے سے کوئی خاطرخواہ فرق نہیں آیا ۔

اسلام آباد نے کبھی آزادی کا نعرہ لگانے والے قوم پرستوں کی طرف کمزوری نہیں دکھائی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں فوجی آپریشن بدستور آج بھی جاری ہے جس میں لوگ ہلاک اور لاپتہ ہورہے ہیں اور اسی طرح بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے بھی ریلوے ٹریک اور دیگر سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات پر حملے بدستور جاری ہیں۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سخت گیر موقف رکھنے والے بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کو حال ہی میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کیا گیا ہے۔

تاہم وفاق نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں’’آغاز حقوقِ بلوچستان‘‘ پیکج کے ساتھ یہ عندیہ دیا تھا کہ جو بلوچ وفاق اور آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے ان کی سیاست اختلافات کے باوجود اسلام آباد کو قبول ہوگی۔اور جو لوگ اس کے برعکس راستہ اپناتے ہیں ان کی خلاف سخت فوجی کارروائی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اعتدال پسند قوم پرست رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کے سپرد کی کہ وہ بلوچوں میں پاکستان حامی خیالات کو فروغ دیں اور آزادی پسندوں کی حوصلہ شکنی اور آخر کار قلع قمع کریں ۔

یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر مالک نے توقع سے بڑھ کر اسلام آباد کے مفادات کو بلوچستان میں تحفظ فراہم کیااوراس دوران انھوں نے مکران، آواران، مستونگ سمیت دیگر علاقوں میں فوج کے کئی متنازعہ آپریشن پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی جن میں معصوم بلوچ شہری ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔ ڈاکٹر مالک شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے اور اسی لئے یہ ممکن ہے کہ سرکاری مورخ تو انھیں اچھے کلمات سے یاد کریں لیکن بلوچ مورخ انھیں یقیناً ایک ایسے رہنما کی صورت میں یاد رکھیں گے جن کے ہاتھ بلوچ شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اگر ڈاکٹر اللہ نذر کی ہلاکت کی خبر درست ہے تو یقیناً پاکستان فوج کو اس فتح‘‘ سے ہمکنار کرنے میں ڈاکٹر مالک اور ان کے ساتھیوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

بلوچستان کے سیاسی افق پر اتنی بڑی تبدیلی کا تعلق دراصل قوم پرست تحریک کے اندر پائے جانے والے اختلاف سے ہے۔ قوم پرست اگرچہ اسلام آباد مخالف ایجنڈے پرتو متفق رہے ہیں لیکن پچھلے دس سالوں میں وہ کبھی بھی ایک بڑے پلیٹ فارم پر اکھٹے نہ ہوسکے۔ خود نواب بگٹی نے اپنی زندگی کے اواخر میں یہ مشورہ دیا تھا کہ بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتیں ایک سنگل پارٹی کے پرچم تلے متحد ہوجائیں لیکن قبائلی، ذاتی اور نظریاتی اختلافات کی وجہ سے بلوچ قوم پرست کبھی اکھٹے نہیں ہوسکے۔ وہ ایک دوسرے کے عزائم و ارداوں پر اس دن سے شک کرنے لگے۔

جب خان آف قلات میرسلیمان داود نے موجودہ حکومت سے مذاکرات پررضامندی کا اشارہ دیا اورلندن میں ایک سرکاری وفد سے ملاقات کی تو خان قلات کے ساتھ حکومت کے بڑھتے ہوئے روابط کو دیکھ کر شاید براہمداغ بگٹی نے یہ سوچنا شروع کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوچستان میں مصالحت ومفاہمت کا عمل شروع ہو اور ان کی آزاد بلوچستان کی تحریک میں شامل دیگر ساتھی خفیہ طور پر حکومت کیساتھ ڈیل کریں اور وہ پیچھے رھ جائیں۔

جنرل قادر بلوچ کا تویہ بھی کہنا ہے کہ براہمدغ کے بعد’’باقی لوگ‘‘ بھی قومی دھارے شامل ہوں گے۔ غالباً ان کا اشارہ حیربیارمری یا ان کے بھائی مہران مری کی طرف ہے جن کے درمیان شدید اختلافات ان کے والداور ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے انتقال کے فوری بعد منظرعام پر آنا شروع ہوئے۔حیربیاراور مہران کا بڑا بھائی نوابزادہ جنگیز مری بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک کلیدی رہنما ہیں اور وہ شروع دن ہی سے اپنے والد اور بھائیوں کے پاکستان مخالف سیاست سے متفق نہیں رہے ہیں۔

براہمدغ بگٹی نے اپنے موقف سے جو پلٹا کھایا ہے نہ صرف ان کے ہم خیال قوم پرستوں کے لئے حیرت انگیز ہے بلکہ فوج کو بھی ان سے مذاکرات کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر سوچنا چائیے کہ آیا وہ بلوچستان میں ایک بارپھرسرداروں اور نوابوں کی پشت وپناہی کرنیوالی وہی غلطی دہرائیں گے جس کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی اور بعد میں پاکستانی حکمرانوں نے وہی پالیسی برقرارکھی تھی۔ بلوچستان کو اگر قومی دھارے میں لانا ہے اور وہاں کے لوگوں کو بااختیار بنانا ہے تو اسلام آباد کو اپنی سابقہ پالیسی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنا چائیے اور بلوچستان میں قبائلی سربراہوں کے بجائے قومی اداروں اور سیاسی عمل کو مضبوط کرنا چائیے۔

بلوچستان میں تعلیم عام کرنی چائیے اور وہاں کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیداکیے جائیں نا کہ براہمداغ بگٹی کو اسٹبلشمنٹ کانیا حمایت یافتہ سردار بنا کر بلوچوں پر مسلط کیا جائے۔ بلوچستان اکیسویں صدی میں نئے یا پرانے سرداروں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں سے تاحیات بالاتر ہو۔صوبے کی ترقی کے لئے لازمی ہے کہ سرداری و نوابی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ لہذا براہمدغ بگٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں عام بلوچ شہریوں کی بہتری اور فلاح وبہبود کو مدنظر رکھنا چائیے نا کہ فردِ واحد کے ذاتی مفادات کو۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب کے خیالات میں بھی تبدیلی یا پختگی آجاتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا براہمداغ بگٹی اس بات کااعتراف کریں گے کہ انھوں نے ماضی میں جو سیاسی موقف اختیار کیا تھا وہ غلط تھا اور ان کی سخت گیر موقف کی وجہ سے کئی ہزار بلوچ نوجوان ہلاک اور لاپتہ ہوئے؟ کیا براہمداغ بگٹی ماما قدیر بلوچ سے معافی مانگنے پر تیار ہیں کہ خود براہمداغ کی عاقبت نا اندیش قیادت یا غیر پختہ سیاست کی وجہ سے ان کا نوجوان بیٹا جلیل ریکی اور سینکڑوں بلوچ نوجوان ہلاک ہوئے؟

مفاہمتی عمل کا ایک کلیدی جز اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہے۔ اگر براہمداغ بگٹی سمجھتے ہیں کہ جلیل ریکی سمیت دیگر ہزاروں بلوچ اپنے جدوجہد میں حق بجانب تھے توپھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ان کا فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کیا جواز بنتا ہے جب بلوچستان بھر میں فوجی کارروائیاں حسب معمول جاری ہیں؟ ان سوالات کا ایمان داری سے جواب دینا اس لئے بھی لازمی ہے کہ براہمداغ بگٹی بطور ایک رہنما بلوچوں کو ’’درست سمت‘‘ میں چلنے میں مدد کریں نہ کہ انھیں مزید غیر یقینی سے دوچار کریں۔

دوسری طرف محض ایک قوم پرست رہنما کے ساتھ مذاکرات کرکے فوج اور حکومت خود کو اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں کرسکتیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچوں کو ان کے وہ تمام حقوق دئیے جائیں جن کا آئین میں ہر شہری کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ جب تک شہریوں کے آئینی حقوق کا احترام نہیں کیا جا تا تب تک چند مخصوص قبائلی رہنماوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرکے بلوچستان کے حالات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔

ملک سراج اکبر واشنگٹن ڈی سی میں مقیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔انھوں نے اس سال ہارورڈ یونی ورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی ہے۔
Twitter:@MalikSirajAkbar

2 Comments