لمبا شخص بے وقوف ہوتا ہے

qaziفرحت قاضی


’’
گوشت کی دکان کے پاس کھڑے شخص نے تختے پر پڑے دماغوں کی جانب اشارہ کیا تو قصائی نے ایک ایک پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:۔
’’
یہ پچاس ،یہ سو اور یہ ہزار روپے کا ہے‘‘

خریدار نے قیمتوں میں تفاوت کی وجہ جاننا چاہی تو قصائی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:

’’یہ انگریز،یہ دوسرا پنجابی اور یہ تیسراپٹھان کاہے انگریز سالہا سال اورپنجابی68سالوں سے استعمال کررہا ہے پٹھان نے تین چار سو برسوں سے استعمال ہی نہیں کیاہے اسی لئے یہ سب سے زیادہ مہنگا ہے‘‘
اس لطیفے کو ذہن میں رکھ کر آگے پڑھئے

آج سے کئی برس قبل عورت کے ساتھ ساتھ طویل القامت انسان کو بھی احمق اور عقل سے پیادہ سمجھا جاتا تھا عام طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ معاملہ فہم نہیں ہوتا ہے حالانکہ عقل وفہم کا جہاں جنس سے رشتہ و تعلق نہیں ہوتا ہے تو وہاں اس کی قد وقامت سے بھی کوئی نسبت دکھائی نہیں دیتی ہے اور جس طرح ایک دیہاتی مرد کو دیہاتی عورت اور شہری عورت کو ان دونوں سے زیادہ ہوشیار،چالاک اور عقل مند بنانے والے اس کے گرد وپیش کے مخصوص حالات اور ماحول ہوتا ہے یہاں بھی ان ہی حالات کا بنیادی کردار نظر آتا ہے

اپنے مخصوص گرد وپیش میں کوتاہ قد اور لمبے قد انسانوں کا جائزہ لینے سے اصل صورت حال سامنے آجاتی ہے

ایک دیہہ میں زیادہ تر کام محنت طلب ہوتے ہیں بیل کو ہل میں جوتناکھیتوں میں ہل چلانا اسے وقتاًفوقتاً پانی دینا مال مویشی کو سنھبالنا ہاتھوں سے فصل اٹھاکر کندھوں اور کمر پر رکھ کر گھر لانا بیل اور گائے کے لئے چارہ بنانا اسے ذبح کرنا بارش میں بہتی چھت پر مٹی اور گارا لگاکر مرمت کرنا گرمی ، سردی ،بارش اور سوکھے غرضیکہ ہر صورت میں بچوں اور اہل خانہ کی روزی رزق کا بندوبست کرنا زمین و جائیداد کے بھائیوں،رشتے داروں اور ہمسایوں سے تنازعات نمٹانا اور ضرورت پڑنے پر ہاتھ،ڈنڈے اور بندوق اٹھا لینامحنت طلب کام ہیں

ایک تکڑا،طاقت ور اور لمبا شخص یہ تمام کا م قریب قریب خو د ہی کرتا ہے اسے کم یا شاید ہی کسی کا سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہواب ان حالات کا کوتاہ قد افراد سے موازنہ کرنے پر تمام صورت حال واضح ہوجاتی ہے

کھیت میں ہل چلانا بھاری اشیاء اور سامان اٹھانے تک ہر ہر کام اور چیز محنت طلب ہے اور کوتاہ قد ہر معاملہ اور کام کے لئے دوسروں کا دست نگر اور دست طلب رہتا ہے اسے ہر معاملہ میں بھائی،اہل خانہ اور ہمسایہ کی جانب دیکھنا پڑتا ہے جس کے لئے اسے پاؤ بھر کھوپڑی پر زور دینا پڑتا ہے اور چھٹانک زبان کو ہلانا پڑتا ہے یہ ایک عام حقیقت ہے کہ دماغ کا جتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کام نکلوانے کے لئے نت نئی تراکیب پر سوچا جاتا ہے جدت اور نکھار لائی جاتی ہے اورنئے زاویوں پر سوچ بچار کا موقع ملتا ہے تو اس کھوپڑی میں نئے نئے خیالات آتے اور پیدا ہوتے رہتے ہیں

کوتاہ قد کو یہ دکھ ہوتا ہے کہ وہ دیگر افراد جیسا نہیں ہے وہ ان سے مختلف اور کم زور ہے اسے قدم قدم پر سہارا لیناپڑتا ہے چنانچہ یہ محتاجی اس میں کم تری کے احساسات پیدا کردیتی ہے جن سے نکلنے ، نجات پانے اور سماج میں اپنی اہمیت اور قدآور بننے کے لئے وہ نت نئے ہتھکنڈوں پر سر کھپاتا رہتا ہے ذہنی محنت کی جانب راغب رہتا ہے اور یہ سوچ اور افعال اس کی سوجھ بوجھ میں اضافے کے ذرائع اور اسباب بن جاتے ہیں

یہ کوتاہ قد انسان بالآخر معاشرہ میں اپنا ایک مقام بھی بنا لیتا ہے اس کی دانش مندی کا چرچا اردگرد کے لوگوں کو اس سے اہم معاملات میں صلاح ومشورہ لینے پر مجبور کردیتا ہے چنانچہ یہی وہ لمحہ اور وقت ہوتا ہے جب وہ دیگر انسانوں کے قد اور طاقت کو اپنے مفاد میں لانا سیکھ لیتا ہے یہ تمام حالات اسے طویل القامت شخص سے زیادہ چالاک اور ہوشیار بنانے میں ممد و معاون ہوتے ہیں وہ اب دو انسانوں کو لڑاکر اپنا الّو سیدھا کرنا بھی سیکھ لیتا ہے ایک کا ہمدرد اور غم خوار بن جاتا ہے اسی سے لمبا اس کا زیر بار ہوجاتا ہے اور تابعدار بھی بن جاتا ہے

یہ صرف لمبے اور کوتاہ قد انسانوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ مخصوص جسمانی اور مادی حالات سے مخصوص نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں جس انسان کی نظر کم زور یا وہ اندھا ہوتا ہے تو اس کی قوت سماعت تیز ہوتی ہے ہاتھوں سے محروم شخص ٹانگوں سے کام لینے لگتا ہے اکیلا اور تنہا رہنے والا بچہ رفتہ رفتہ ذہانت کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے یتیم بچے اور عدم تحفظ کے احساسات میں مبتلا اقلیت کے احساسات اور جذبات دیگر افراد سے مختلف ہوتے ہیں کلاس روم میں ناک پر عینک رکھنے والے ننھے طالب علم کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہ قوت بصارت سے کسی قدر محروم اور مختلف ہے

چنانچہ یہ مخصوص حالات طویل القامت کو ذہنی طور پر پس ماندہ اورکوتا ہ قد،یتیم،تنہا اور جسمانی معذور انسانوں کو عام شہریوں سے الگ تھلگ اور ذہین بنادیتے ہیں قد کے ساتھ ذہانت بھی ہو تو اس سے حضرت عمر فاروقؐ اور سکندر اعظم بن جاتا ہے

لمبے کی حماقت اور کوتاہ قد کی ذہانت سے ایک مکتبہ فکر نے یہ نتیجہ نکالا کہ اولالذکربے وقوف اور موخر الذکر عقل مند ہوتا ہے دیگر روایات اور تصورات کی مانند رفتہ رفتہ یہ خیال بھی معاشرے میں راسخ ہوگیا یہ اور ایسی کئی روایات اور نظریات قدیم سماجوں میں اس لئے اپنی جگہ بنالیتے تھے کہ ان میں تحقیق اور جستجو کے حوالے سے سرد مہری پائی جاتی تھی بعض دیہات میں تاحال ان تصورات کو سچ مانا جاتا ہے چنانچہ ایک طویل القامت سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو حاضرین فوراً کہ اٹھتے ہیں:

’’سچ کہا گیا ہے کہ لمبا انسان بے وقوف ہوتا ہے‘‘

Tags:

Comments are closed.