بنگلہ دیش میں پھانسیاں: پاکستان کی تشویش مضحکہ خیز ہے: عاصمہ جہانگیر

-7441’’سعودی عر ب میں پاکستانیوں کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں لیکن حکومت پاکستان خاموش رہتی ہے

بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے دو رہنماؤں کو پھانسی دیے جانے کے معاملے پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔

پاکستانی دفترخارجہ کی جانب سے اتوار 22 نومبر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ان پھانسیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔اس بیان پر احتجاج کے لیے بنگلہ دیشی دفترخارجہ نے ڈھاکا میں آج پیر 23 نومبر کو پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا۔

اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر شجاع عالم، طلب کیے جانے پر بنگلہ دیشی دفتر خارجہ میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے قائم مقام بنگلہ دیشی سیکرٹری خارجہ میزان الرحمٰن سے ملاقات کی۔

ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں بنگلہ دیشی اپوزیشن رہنماؤں کی پھانسیوں پر جاری کیے گئے بیان پر بنگلہ دیشں کی طرف سے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ اس ضمن میں پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا۔

اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کے دو رہنماؤں صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن محمد مجاہد کی پھانسیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نو اپریل 1974ء کو کیے جانے والے سہ فریقی معاہدے پر عمل کرتے ہوئے مفاہمتی انداز اپنائے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 1971ءکے معاملات کو بُھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ اپنانے پرزوردیاگیا ہے اور اس سے خیرسگالی اورہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان 1971ء کے سانحہ کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی سے متعلق عالمی برادری کے ردعمل کی طرف بھی دیکھ رہا ہے۔

پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی بنگلہ دیش میں اپوزیشن رہنمائوں کو پھانسی دینے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام ماضی کی تلخیاں بُھلا کر دوستی اور بھائی چارے سے تعلقات آگے بڑھانا چاہتے ہیں مگر بنگلہ دیش میں ایک گروہ دونوں ممالک کے عوام میں بھائی چارے کی فضا بحال ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ہمیں اندازہ ہے کہ اس گروہ کے پیچھے کون ہے اور انیس سو ستر، اکہتر کے واقعات کے پیچھے اس کا کیا کردار تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کو قریب آنے سے کون سی طاقتیں روک رہی ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں یہ مسئلہ بھی اٹھائیں گے تاکہ بنگلہ دیش حکومت کے انتقام کی آگ کے آگے دیوار کھڑی کی جا سکے۔

خیال رہے کہ 2013ءمیں بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر مُلا کی پھانسی کے خلاف پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈھاکا میں سیاسی جاعتوں کے کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی سفارت خانے کا محاصرہ کر لیا تھا اور اس کے اند ر داخل ہونے کی کوشش کی تھی جسے پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔

انسانی حقوق کی کارکن اور سپریم کورٹ کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے بنگلہ دیشں میں پھانسیوں کے معاملے پر حکومت پاکستان کی تشویش کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’سعودی عر ب میں پاکستانیوں کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں لیکن حکومت پاکستان خاموش رہتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ کتنے لوگوں کو پھانسی دی جاتی ہے وہ بھی قابل مذمت ہے۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں پھانسیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے کیونکہ پھانسی کی سزا کہیں بھی دی جائے وہ قابل مذمت ہے۔

DW

One Comment