سویلین حکومت انتظامی امور میں بہتری پیدا کرے: پاک فوج

53e8d5d20e12d

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کی جانب سے سویلین حکومت کو انتظامی امور میں بہتری لانے کا مشورہ دیا ہے۔ اِس بیان نے ایک مرتبہ پھر سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات میں توازن پر بحث کو چھیڑ دیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے منگل کےروز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔

اس بیان کے کی باز گشت بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دیتی رہی ۔اس ضمن میں سب سے واضح رد عمل حکومت کی اتحادی جماعت پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے آیا۔انہوں نے کہا کہ اگر دونوں شریفوں (نواز شریف ، راحیل شریف ) کے درمیان کچھ گڑ بڑ ہوئی توہم سویلین شریف کے ساتھ ہوں گے۔

نکتہٴ اعتراض پر بات کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے کہاکہ جس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک پیج پر ہوں گے تبھی آئین بالادست ہوگا۔ انہوں نےکہا کورکمانڈر کانفرنس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے وہ آئین کی روح کے منافی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بیان کے بارے میں سپریم کورٹ سے تشریح کروائی جائے۔

اچکزئی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ موجودہ حالات میں پارلیمنٹ کا مشرکہ اجلاس بلا کر اعتماد میں لیا جائے۔

دوسری جانب حکومتی ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان کو صرف بیان کی حد تک ہی دیکھا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے حکمران مسلم لیگ نواز کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ فوج ہماری ہے اور اگر ان کی جانب سے ایک بیان آیا ہے تو اس میں سے اپنی مرضی کے مطلب نکالنے کی ضروت نہیں۔ منتخب عوامی حکومت اور فوج دہشتگردی کے خلاف مل کر جدوجہد کر رہی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر آپریشن ضرب عضب اتنی کامیابی سے آگے نہ بڑھتا ۔

تاہم اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوج کے اس تازہ بیان کو اہمیت دینی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے سینیڑ رحمان ملک نے کہا کہ ’’اگر فوج کی طرف سے ایک بیان آیا ہے جس میں واضح طور پر ایسی بات کی گئی ہے تو یہ حکومت کے لئے لمحہٴ فکریہ ہونا چاہیے اور اُن امور کو دیکھے جن پر قومی ایکشن پلان کے تحت اس نے عمل کرنا تھا‘‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردانہ حملے میں طالب علموں ،اساتذہ اور عملے کے ارکان سمیت ڈیڑھ سو افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے خلاف بیس نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا۔

تاہم اس پلان کے نفاذ کو گیارہ ماہ ہونے کے باوجود قبائلی علاقوں میں اصلاحات، مدارس کی رجسٹریشن، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے نیٹ ورک توڑنے سے متعلق نکات پر ابھی تک خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔

تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی شفقت محمود کا کہنا ہے کہ حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اچھا ہو گا کہ نواز شریف صاحب زبانی جمع خرچ کرنے اور صرف میڈیا پر اپنی تشہیر کی بجائے ایسے اقدامات کریں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور عوامی فلاح وبہبود کے کام آئیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر سویلین اور ملٹری قیادت کے درمیان کوئی فاصلہ ہے تو سب کو نظر آرہا ہے کہ اس کی وجہ کس کی نااہلی ہے۔

DW

Comments are closed.