بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جارہی ہے

bv56

لاپتہ بلوچوں کے رہائی کیلئے کوشاں انسانی حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکریٹری جنرل فرزانہ مجید بلوچ نے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے علاقے بولان سے فوجی آپریشن کے دوران آرمی کے ہاتھوں اغواء ہونے والے 40 سے زائد بے گناہ خواتین و بچے تاحال 13 دن گذرنے کے باوجود غائب ہیں ، جس کی وجہ سے ہر گذرتے روز کے ساتھ ان خواتین کے جانوں کے بابت خدشات بڑھ رہے ہیں ،

ان 27 خواتین سمیت درجن سے زائد بچوں کے جبری اغوا ء سے نہ صرف انکے خاندان ذہنی طور پر کرب کا شکار ہیں بلکہ یہ پورے بلوچ قوم کیلئے انتہائی غم و غصے کا سبب بن رہاہے لیکن اسکے باوجود پاکستان تو اپنے روایتی ہٹ دھرمی اختیار کر کے بلوچوں کی جان و عزت سے کھیلنا اپنا معمول سمجھتے ہوئے ہر اٹھتے پکار کو بزورِ طاقت کچل رہا ہے لیکن ایسی صورتحال میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا اس مسئلے کو نظر انداز کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔

فرزانہ مجید بلوچ نے مزید کہا ہے کہ اس وقت پورے بلوچستان میں ایک انتہائی شدید نوعیت کا ملٹری آپریشن جاری ہے جس میں تمام انسانی حقوق و جنگی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے جیٹ طیاروں ، گن شپ ہیلی کاپٹروں ، دور مار توپوں ، مارٹر شیلنگ اور اندھا دھند فائرنگ کا سول آبادیوں پر آزادانہ استعمال ہورہا، ان آپریشنوں میں جہاں درجنوں شہادتیں ہوچکی ہیں وہیں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچوں کو اغواء کرکے حسبِ معمول نا معلوم مقام پر رکھا گیا ہے ۔

جاری آپریشن کی وجہ سے حتمی اعدادو شمار جمع کرنے میں بھی انتہائی دشواری پیش آرہی ہے۔ اس آپریشن کی وسعت بولان سے لیکر بلوچستان کے ساحلوں تک محیط ہے جس میں گذشتہ دنوں شدید ترین تیزی مکران کے علاقے مند اور بولان کے مختلف علاقوں لکڑ ، بزگر ، سنجاول ، کلچ ، بر بڑی ، مارواڑ ، سہر کمب وغیرہ میں دیکھی گئی ۔

بولان میں یہ آپریشن تین ہفتوں سے زائد عرصے سے بلا تعطل جاری ہے اور اس دوران جبری اغواء اور شہید کرنے کے علاوہ سینکڑوں گھر جلانے ، فصلوں اور جنگلات کو آگ لگانے اور مال مویشیوں کو لوٹنے کے واقعات کی اطلاعات ہیں، جن میں لوگوں کو دھکتے آگ میں زندہ دھکیلنے اور ہیلی کاپٹروں سے گرا کر شہید کرنے جیسے دلخراش واقعات کی تفصیلات بھی منظر عام پر آر ہے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ پاکستانی آرمی بلوچستان میں انسانی حقوق کو ہمیشہ سے جوتے کے نوک پر رکھتے ہوئے جس بری طرح سے بلوچ قتل عام اور جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے وارداتوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے یہ اب دنیا کے آنکھوں سے اوجھل راز نہیں رہے ہیں، لیکن اب پاکستان نے اپنے بنگلہ دیش میں اپنائے پالیسیوں کو بلوچستان میں نافذ کرتے ہوئے بلوچ خواتین کے اغواء اور ان پر تشدد کا آغاز کردیا ہے ۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستانی فوج بلوچستان سے بلوچ خواتین کو اغواء کرنے کا مرتکب ہوا ہے اس سے پہلے زرینہ مری ، رحیمہ بگٹی کے اغواء جیسے واقعات اور آواران آپریشن کے دوران بھی خواتین کو اغواء کرنے جیسے واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن حال ہی میں جاری بولان آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے مورخہ 8 نومبر کو بولان کے نواحی علاقوں سے درجنوں مردوں کے علاوہ 40 سے زائد بلوچ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اغواء کر کے لاپتہ کرچکا ہے ۔

یہ 40 کی تعداد محض ان خواتین کی ہے جن کے اعدادو شمار جمع ہوسکے ہیں وگرنہ اطلاعات کے مطابق پہاڑی علاقوں سے انکے علاوہ مزید درجنوں خواتین اور اغواء ہوئے ہیں لیکن بمباری اور گھیراو کی وجہ سے وہاں کوئی رابطہ ممکن نہیں ہوسکا ہے ، پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء ہونے والے جن خواتین کے اعدادو شمار جمع ہوچکے ہیں۔

انکی تفصیلات یہ ہیں در بی بی زوجہ وشو چلگری مری ،گل پری زوجہ دلوش مری تین بیٹیوں سمیت بخت بی بی زوجہ دلوش مری ایک بیٹے و تین بیٹیوں سمیت بی بی زر بخت زوجہ رحم دل مری چار بیٹوں سمیت بی بی زرمیدو زوجہ گزو مری ،ھتا بی بی زوجہ علی مری دو بیٹوں و دو بیٹیوں سمیت جار بی بی زوجہ کالو مری سترہ سالہ بیٹی بان بی بی اور چھ معصوم بچوں سمیت بی بی وائری زوجہ علی مری گل بی بی زوجہ تنگو مری دو بچوں سمیت جان بی بی زوجہ لال محمد مری، بی بی حانی زوجہ علی بخش مری 1 بیٹی سمیت بی بی نور بانو زوجہ ملا نظر محمد دو بچوں سمیت شامل ہیں، جب فوج خواتین و بچوں کو گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ کر اغواء کررہی تھی تو اپنے خاندان کی حفاظت کے غرض سے فوجیوں سے الجھنے والی وشو مری کی 80 سالہ معذور والدہ بی بی ساھتو کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا ۔

فرزانہ مجید نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج نے سنہ 71 میں بنگلہ دیش میں جاری تحریک کو کچلنے کیلئے جس طرح لاکھوں بنگالی خواتین کو اغواء کرکے قتل اور زناء بالجبر کی مرتکب ہوئی اس سے وہ بنگالی عوام کو کچل تو نہیں سکی لیکن ایک ایسی نفرت کا آغاز ضرور کیا جو بنگلہ دیش کے آزادی اور پاکستان کے 93000 فوجیوں کے سرنڈر پر منتج ہوا۔

پاکستان آج پھر ماضی کے اپنے سیاہ کارنامے بلوچستان میں دہرانا چاہتا ہے لیکن اسے یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر وہ خواتین کے عزتوں سے کھیل کر اور انہیں قتل کرنے سے کامیاب ہوسکتی تو آج بنگلہ دیش نام کا کوئی ملک وجود نہیں رکھتا ۔ فرزانہ مجید نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری اس بدترین نسل کشی ، سینکڑوں شہادتوں ، ماورائے عدالت قتل عام ، مسخ شدہ لاشوں ، ہزاروں گمشدگیوں اور خواتین کے اغواء کو جس طرح اقوم متحدہ اور انسانی حقوق کے متعلقہ ادارے نظر انداز کررہے ہیں اور کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھانے سے کترارہے ہیں۔

یہ پاکستانی آرمی کے حوصلے مزید بلند کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ چین کی مدد سے بلوچ نسل کو بلوچ سرزمین سے مٹانے کے مشن پر عمل پیرا ہے ۔ میں نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ انسانی حقوق کے تمام عالمی و علاقائی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کے وہ بلوچ نسل کشی ، بلوچستان میں جاری آپریشن اور حال ہی میں بلوچ خواتین و بچوں کے اغواء کے مسئلے کو سنجیدہ سے لیکر ٹھوس اقدامات اٹھائیں ۔

وگرنہ آج جس طرح عالمی ادارے بنگالی نسل کشی کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس تاریخ کو بدل نہیں سکتے اسی طرح آج اگر وہ بلوچستان میں تاریخ کو بدلنے میں ناکام ہوئے تو مستقبل میں بلوچ نسل کشی کے اس سیاہ دھبے کو اپنے دامن پر سجائے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے محض خود کو کوستے رہیں گے ۔

بشکریہ ہمگام نیوز

Comments are closed.